۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی

حوزہ/ واقعہ مباہلہ نے تاقیامت آنے والی نسلوں کو راہ حق اور اہلِ حق کی پہچان بتادی اب اگر اس کے باوجود کوئی حق و باطل میں فرق ، تمیز اور شناخت نہ کر سکے تو اس کائنات کا سب سے بڑا بدنصیب ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے معروف محقق و مؤلف اور اہلِ بیت فاؤنڈیشن کے نائب صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ روز مباہلہ یعنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کا دن، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجران کے مسیحیوں کی جانب ایک فرمان بھیجا، جس میں یہ تین چیزیں تھیں اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ تو وہ سب کے سب مظہرِ شان خدا، مظہرِ انوار الہیہ اور صفات باری کے مظہرِ اتم اہل بیت نبوت کی نورانی ہستیوں کو دیکھ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آئے اور خود کو سرنڈر کردیا۔
 
انہوں نے کہا کہ 24 ذی الحج 9 ہجری نجران سے رسول خدا نے مباہلہ کر کے اسلام و اہل بیت دونوں کی عظمت و وقار اور عزّت و آبرو کا اعلان کر دیا ہے کہ میرے تمام عزیز و اقارب میں اگر میرے بعد کوئی قابلِ قدر اور  افضل و اعلیٰ ہے تو وہ علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام ہیں جو میرے دین و مشن کی تکمیل اور اس کی عظمت و حقانیت کی زندہ سند ہیں یہ میرا آبرو  مری شان  میرا ایمان، میری تمام خوشیاں ہیں اور میرے ہر ایک درد کا درمان ہیں۔

یہ کہنا حق بجانب ہے کہ اگر آج دنیا کے لوگ اسلام کی عظمت و صداقت اور حقانیت سے متاثر ہیں تو یہ مباہلہ میں اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کے وجود بابرکت کی رہینِ منت ہے

مزید کہا کہ اگر آج مذاہبِ عالم میں کسی مذہب کو آفاقی مذہب کی سند حاصل ہے اور لوگ اس کی صداقت و حقانیت کے قائل ہیں تو یہ مباہلہ ہی کی مرہونِ منت ہے۔

مولانا تقی عباس کا کہنا تھا کہ محسن انسانیت کے لائے ہوئے دین کی صداقت کا نام ہے مباہلہ ہے اور مباہلہ کی حقانیت کا نام ہے اہلِ بیت۔ اگر مباہلہ میں اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کے فضائل و کمالات کے جلوے نہ ہوتے تو لوگ آج اسلام کی تعریف و توصیف پر مجبور نہ ہوتے! یہ اہلِ بیت کی عصمت و طهارت کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔اگر مباہلہ میں اہلِ بیت اطہار علیہم السلام نہ ہوتے تو پیغمبر انسانیت ﷺ کا پیغام امن یوں دنیا بھر میں عام ہونا بہت مشکل تھا مباہلہ غدیر اور کربلا ہر محاذ پر اہل بیت رسول کا کلیدی کردار رہا ہے۔

مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ مباہلہ کا منظر یہ دنیا والوں کو بتا رہا ہے کہ اہلِ بیت نبوت ہی اسلام کی صداقت و حقانیت کا اعلی معیار ہیں یہی نجات کی کشتی ہیں جو بھی گمراہ اور وادی حیرت کا سرگرداں شخص، اس کشتی میں سوار ہوجائے گا وہ گمراہی اور انحرافات کے تلاطم سے نجات پائے گا اور جو ان سے رابطہ نہیں رکھے گا اور ان کی پیروی نہیں کرے گا ، وہ قوم نوح کی طرح ہلاک ہوجائے گا۔

مباہلہ کا مقصد اگر ایک طرف نجران کے عیسائیوں سے اسلام کی حقانیت پر بحث تھی تو دوسری طرف اہل بیت کو پہچنوانا اور جھوٹ کی کھوکھ سے پیدا ہونے والے دنیا پرستوں کو تا ابد حق صداقت کی راہ دکھانا بھی مقصود تھا۔مباہلہ میں علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام نہ ہوتے تو  مصالحہ کے بدلے میدان مجادلہ میں تبدیل ہو جاتا۔

مباہلہ: جھوٹوں پہ لعنت کا دن ہےآگر میدان مباہلہ میں آل رسول نہ جاتے تو جھوٹوں کے سر پر سچائی کا تاج ہوتا اور وہ تا ابد حق و صداقت کو اپنے پیروں تلے روندتے رہتے!

مباہلہ:سچائی پہ چلنے کا پیغام ہے،مباہلہ جھوٹوں کی رسوائی اور سچوں کی سربلندی کا دن ہے، مباہلہ جھوٹ اور جھوٹوں پر سچ اور سچوں کے غلبہ کا دن ہے. مباہلہ میں اسلام کی عظمت و وقار اور فتح و ظفر کے اظہار کا دن ہے مباہلہ کی جیت صرف ایک خاص طبقے کی جیت نہیں بلکہ ہر مسلمان کی جیت ہے اور رہتی دنیا تک آیت مباہلہ فتح ونصرت کی نشانی اور رہتی دنیا تک کافروں پر غلبہ کی نوید ہے۔

گھر سے مباھلہ کے لیے پنجتن چلے
کچھہ پھول تھے جو بن کے وقار چمن چلے

اس قافلے کی جیت پر کیوں نہ یقین ھو
جس قافلے کی پشت پر خیبر شکن چلے

عید مباہلہ کی مسرت و خوشیاں ایک طرف لیکن اس میں جو اہم پیغام ہے بلاشبہ تمام مسلمانوں اور محبانِ محمد و آل محمد علیہم السلام کے لئے ایک واضح نصیحت بھی ہےکہ جھوٹ کا خرگوش بھلے ہی تیز رفتار اور چوکڑی مار کر چلے پھر بھی شکست اس کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے۔لہذا ہمیں از روئے قرآن وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ؛اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ،اپنی فردی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں سچے اور اچھے لوگوں سے تعلق رکھنے کی ضرورت ہے۔

واقعہ مباہلہ ہمیں یہ بھی درس دیتا ہے کہ :جھوٹ ناپائیدار ہے ،کمزور ہے اور کاغذی پیرہن میں ملبوس ہے۔سچ اور حق بے زوال ،قوی اور مضبوط ہے۔جس کی چمک دمک  تاقیامت مانند نہیں پڑے گی۔

واقعہ مباہلہ نے تاقیامت آنے والی نسلوں کو راہ حق اور اہلِ حق کی پہچان بتادی اب اگر اس کے باوجود کوئی حق و باطل میں فرق ، تمیز اور شناخت نہ کر سکے تو اس کائنات کا سب سے بڑا بدنصیب ہے۔

گلے ملو تو درود پڑھ کر نبی کے پیاروں کی عید ہے یہ
زمیں پہ ہے عید پنجتن یہ فلک پہ تاروں کی عید ہے یہ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .