حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجمع علماء و خطاء حیدرآباد دکن کی جانب سے،سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی صداقت و عصمت کے سلسلے گستاخی کرنے پر بدکردار آصف اشرف جلالی کو جواب اور بیانیہ جاری کرتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی۔
بیان کا متن اس طرح ہے؛
بسمہ تعالی
حالیہ دنوں میں پاکستان کے ایک نادان مولوی آصف جلالی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے، جس میں اس بدبخت نے صراحت کے ساتھ شہزادیٔ کونین حضرت صدیقہ کبری فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی شان میں گستاخی کی ہے اور اس نے العیاذ باللہ باغ فدک کے سلسلہ میں خلیفۂ وقت سے ان کے جائز اور برحق مطالبہ پرانہیں ’’خطاکار اور قصور وار ‘‘ٹھہرانے کی سعی لا حاصل کی ہے کیونکہ آفتاب کی سمت لعاب دہن اچھالنے سے غلاظت خود اپنی ہی طرف پلٹتی ہے۔
اس مولوی نے کسی پیر مہر علی شاہ صاحب کی ’’تصفیہ ما بین سنی و شیعہ‘‘ نامی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’روافض‘‘ یعنی شیعہ حضرات ’’آیۂ تطہیر‘‘ کے بموجب حضرت زہراؐ کو ’’معصومہ‘‘ مانتے ہوئے ان کے صرف دعوائے فدک کو ہی ان کی حقانیت کی دلیل مانتے ہیں اور ان کے مد مقابل شخص کو باطل پر جانتے ہیں۔
اس مولوی نے مزید کہا ہے کہ ہم اہل سنت ’’تطہیر‘‘ کے معنی میں شیعوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم رسول خداؐ کے علاوہ کسی دوسری شخصیت کے لئے ’’تطہیر‘‘ کے معنی ’’معصوم ‘‘ہونا نہیں لیتے بلکہ یہ مانتےہیں کہ ان سے غلطی اور خطا کا امکان ہے لیکن اللہ نے انہیں محفوظ کر دیا ہے اور یہ کہ اگر وہ عملاً خطا کر جائیں تو اللہ انہیں مشمول عفو و بخشش قرار دے کر ان کی خطا کو ’’تطہیر‘‘ یعنی پاک کر دیتا ہے۔
اس کے جواب میں پہلی بات تو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پوری امت مسلمہ کے لئے یہ تسلیم کر لینا نہایت آسان اور معقول ہے کہ اہلبیتؑ آیت تطہیر کے بموجب یقیناً’’معصوم عن الخطا‘‘ ہیں بلکہ ان کے دامن عصمت کے پروردہ افراد بھی "محفوظ عن الخطا" ہو جاتے ہیں ۔
میں موصوف سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں ’’اہلبیتؑ‘‘ کے عنوان سے قدر متیقین کے طور پر پنجتن یعنی رسول خداؐ، حضرت علیؑ، حضرت زہراؐ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شمولیت کو سارے ہی شیعہ و سنی مفسرین بالاتفاق قبول کرتے ہیں اور مذکورہ آیت کی ابتدا میں ’’انما‘‘ کا حصار یہ بتاتا ہے کہ یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو ’’اہلبیتؑ‘‘ سے مخصوص ہے لہذا اسی آیت کے ذریعہ رسول خداؐ کے لئے ’’تطہیر‘‘ میں عصمت کے وہ معنی قبول کئے جائیں جو شیعہ بیان کرتے ہیں لیکن باقی کی چار ہستیوں کے لئے اپنی مرضی سے ایک دوسرے معنی لئے جائیں تو ایک ہی جملہ میں ایک ہی لفظ کے مختلف مصادیق کے لئے ثابت کسی بات میں بنا کسی دلیل و قرینہ کے اس تبعیض و تفکیک کی اجازت کس قاعدہ اور قانون کے تحت حاصل ہوئی ہے؟ کیا یہ کوئی اصولی قانون ہے یا ادبی قاعدہ ہے؟ یہ کوئی حدیثی اصول ہے یا عقلی ضابطہ ہے؟! آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟
مذکورہ آیت سے قطع نظر اہل سنت کے نزدیک سب سے معتبر دو حدیثی کتابوں یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم میں منقول اُن احادیث رسولؐ کے پیش نظر بھی حضرت زہراؐ کی عصمت ثابت ہے ؛جن کے مطابق رسول خداؐ نے مطلق طور پر بنا کسی قید و شرط کے بی بی کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی یا انہیں تکلیف پہنچانے کو خود کو تکلیف پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے اور یہ مسلم ہے کہ آنحضرتؐ کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے اور انہیں تکلیف پہنچانا خدا کو اذیت دینا ہے اور آیت قرآنی کے مطابق اللہ و رسولؐ کو اذیت دینے والا شخص دنیا و آخرت میں ملعون ہے۔(سورہ احزاب، آیت ۵۷)
اور اس مولوی کا یہ دعوی کہ حضرت زہراؐ،سرانجام خلیفۂ اول کے جواب سے قانع اور مطمئن ہو گئیں تھیں تو صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت موجود ہے کہ ’’بی بی نے ان سے ترک تعلق کر لیا اور اپنی آخری سانسوں تک ہم کلام نہ ہوئیں ‘‘ اس کا مطلب ہے کہ اس قسم کی جتنی بھی روایات ہیں وہ جھوٹی اور جعلی ہیں۔
اس کے علاوہ حضرت عائشہ کا ہی بیان ہے کہ ’’میں نے رسول خداؐ کے علاوہ فاطمہؐ سے زیادہ سچا کسی کو نہیں دیکھا‘‘ اس روایت میں انہوں نے معنی "عموم" سے کام لیا ہےکیونکہ اہل ادب کی اصطلاح میں نکرہ سیاق نفی میں "عموم" کا فائدہ دیتا ہے اور اس کے علاوہ ’’قطّ‘‘ کی لفظ استعمال کرکے اس میں مزید تاکید پیدا کردی اور ’’اصدق‘‘ کا صیغہ تفضیل بھی بتا رہا ہے کہ آپ کی صداقت رسول خداؐ کے علاوہ ہر صدّیق سے بالاتر ہے اب وہ چاہے کوئی صحابی رسولؐ یا خلیفہ ہی کیوں نہ ہو ؟!!!
اس سلسلہ کی آخری بات یہ کہ تفاسیر شیعہ و سنی کے لحاظ سے اور تاریخی شواہد کی بنا پر مباہلہ میں رسول خداؐ ،آیۂ مباہلہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جھوٹوں کے مقابلہ میں ’’نسائنا‘‘ کے عنوان سے صرف حضرت فاطمہؐ کو اپنے ساتھ لے گئے یہ خود ان کی صداقت کی متقن و مستحکم دلیل ہے۔
۔ صحیح بخاری ج،۵،ص ۲۱، باب مناقب قرابۃ رسول اللہؐ
۔ صحیح مسلم، ج۴، ص ۱۹۰۳، باب فضائل فاطمۃ بنت النبیؐ
۔ قَالَ فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ (صحیح بخاری، ج ۶، ص ۲۴۷۴،باب قول النبی لا نورث ما...)
۔ ما رأيت أحدًا قط أصدق من فاطمة غير أبيها (اتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة، شهاب الدين أحمد بن أبي بكر بن إسماعيل البوصيري (المتوفى : 840هـ)، ج ۷،ص ۲۳۵، کتاب علامات النبوة)
آخر کلام میں ہم یہاں پر پوری امت مسلمہ سے خطاب کرکے یہ عرض کہنا چاہتے ہیں کہ اہلبیتؑ اطہار کی مقدس ذوات ہمارے لئے سرخ خطوط ہیں ،ان سے عبور کی اجازت کسی کو ہرگز نہیں دی جا نی چاہئیے اور آئندہ اس قسم کے توہین آمیز بیانات پر شدید مواخذہ کیا جانا چاہئیے تاکہ آئندہ کسی کے اندر ایسی گستاخی کی جرائت نہ پیدا ہو۔ لہذا آصف جلالی جیسے افراد کو چاہئیے کہ اپنی زبان پر لگام دیں اور آئندہ اس قسم کے بیہودہ بیانات سے پرہیز کریں اور اُس بدبخت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہوئے اور رسول خداؐ و بضعۃ الرسولؐ کے حضور عفو کی درخواست کےہمراہ ،سارے مسلمانوں سے اعلانیہ طور پر معافی مانگے؛ جن کے قلوب کو اس نے اپنے اس نازیبا بیان سے مجروح کیا ہے۔ مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن مذکورہ مولوی کے بیان کی شدید مذمت کرتا ہے اور حکومت پاکستان سے اس کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔
مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن ہندوستان