۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا سید صفی حیدر زیدی

حوزہ/مومنین کرام ! منحوس کرونا وبا کے سبب لاک ڈاون نافذ ہے لھذا کسی طرح کے جلسہ و جلوس کا امکان نہیں لھذا حکومت اور اطباء کے ہدایات کے مطابق اپنے گھروں میں رہیں لیکن سوشل میڈیا یا دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کی یاد تازہ رکھیں اور جتنا ممکن ہو اس عظیم ظلم کے خلاف احتجاج اور اسکی مذمت کریں۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،تنظیم المکاتب کے سیکریٹری حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید صفی حیدر زیدی نے یوم انہدام جنت البقیع کے موقعہ پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھی مسجد الحرام اور مسجد النبوی کی توسیع کے بہانے ہر روز کوی نہ کوی نشانی مٹ رہی ہے۔ دشمنان اسلام کی سازش ہے کہ سارے آثار کو ختم کر دیا جاے تا کہ تاریخ بدلی جا سکے اور حقیقت وحی و رسالت سے انکار کر کے دین کو ختم کیا جا سکے۔

مکمل بیان کا متن اس طرح ہے:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ذَٰلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ

یہ ہمارا فیصلہ ہے اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی
(سورہ حج آیت 32)
قرآنی حکم ہے کہ شعائر الہی یعنی ہر وہ چیز جس سے اللہ تبارک و تعالی کی یاد تازہ ہو اس کی تعظیم کرو۔ قرآن کریم نے اس کے بعض مصادیق بھی بیان کئے ہیں جیسے صفا و مروہ اور مقام ابراہیم کو شعائر الہی کہا۔ جب کہ یہ بات سب کے لئے واضح ہے کہ صفا و مروہ وہ پہاڑیاں ہیں جہاں خلیل الرحمن کی زوجہ نے اپنے شیرخوار نبی فرزند کی تشنگی کو سیراب کرنے کی خاطر پانی کی جستجو میں بھر پور سعی کی تھی اور صفا و مروہ کے درمیان چکر لگاے تھے، چونکہ یہ انداز خالق کو اتنا پسند آیا کہ اس جگہ کو شعائر الہی میں شامل کر دیا اور اس عمل کو حج و عمرہ کا رکن قرار دیا۔ اسی طرح مقام ابراہیم بھی الہی شعائر میں شامل ہے۔ 
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ عالم اسلام اپنے نبی اور انکے اہلبیت سے مخصوص ہر جگہ کو باقی رکھتا اور بعنوان الہی شعائر انکی تعظیم کرتا تا کہ انکے دل الہی تقوی سے مالا مال ہو جاتے۔ کیوں کہ ان سے وابستہ ہر جگہ یاد باری تعالی کی طرف لے جاتی ہے۔ کہیں سجدوں کی یاد دلاتی ہے کہیں توبہ و استغفار کی، کہیں تلاوت کی تو کہیں ذکر و تسبیح اور راہ خدا میں خدمت خلق اور قربانیوں کی۔ 
لیکن افسوس اسلام کے دیرینہ اور شکست خوردہ دشمن یہود و نصاری نے بعض جاہلوں اور احمقوں اور دنیا پرستوں کو اپنا آلہ کار بنا کر انتقامی کاروای شروع کر دی جس کے نتیجہ میں مکہ و مدینہ کے تمام توحیدی آثار پامال ہونے لگے۔ آج بھی مسجد الحرام اور مسجد النبوی کی توسیع کے بہانے ہر روز کوی نہ کوی نشانی مٹ رہی ہے۔ دشمنان اسلام کی سازش ہے کہ سارے آثار کو ختم کر دیا جاے تا کہ تاریخ بدلی جا سکے اور حقیقت وحی و رسالت سے انکار کر کے دین کو ختم کیا جا سکے نیز دماغوں سے یاد خدا اور زندگی سے تقوی ختم کیا جا سکے۔ 
حیرت و تعجب کا مقام ہے کہ یہ تمام توحید کے آثار بنام توحید شرک بتا کر  مٹاے جا رہے ہیں۔ ستم بالاے ستم یہ کہ ان جرائم پر شرمندہ ہونے کے بجاے دھٹائی سے کہا جا رہا ہے کہ یہ سب شرک و کفر کے ٹھکانے ہیں، اگر یہ بات عوام کہے تو کم افسوس ہوتا لیکن جب خواص کی زبان پر بھی یہی جملے ہوں تو کوی توجیہ باقی نہیں رہ جاتی جیسے نابینا سعودی سرکاری مفتی "بن باز" نے کہا کہ مجھے افتخار ہے کہ بصارت نہ ہونے کے سبب میں قبر نبی پر شرک نہیں دیکھ رہا ہوں۔ جس سے ظاہر ہے کہ موصوف میں صرف بصارت ہی نہیں بلکہ بصیرت کا بھی فقدان ہے۔ 
انہیں توحیدی آثار اور الہی شعائر میں جنت البقیع (مدینہ منورہ) ہے جس میں حضور کے اصحاب کبار، ازواج، پھوپھیوں اور آپ کی کفیلہ یعنی مادر امیرالمومنین جناب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا کی قبور کے ساتھ ساتھ آپ کے سبط اکبر امام حسن مجتبی علیہ السلام، یزیدی طوفان میں پھنسی کشتی اسلام کو ساحل پر لگانے والے اور رہتی دنیا تک عالم بشریت کو خدا سے دعا کا سلیقہ سکھانے والے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، انسانیت کے معلم و مربی حضرت امام محمد باقر اور آپ کے فرزند و خلف صالح امام جعفر صادق علیھما السلام بھی دفن ہیں۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی اکلوتی یادگار بیٹی نے اس دنیاے ظلم سے رخت سفر باندھا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے اسی جنت البقیع میں قبروں کے متعدد نشانات بنا کر حرمت زہرا سلام اللہ علیہا کی حفاظت کی۔ یہاں ائمہ معصومین علیھم السلام کے روضوں کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے چچا عباس کے مرقد پر بھی گنبد و بارگاہ اور اسی طرح بنام مسجد فاطمہ سلام اللہ علیھا بیت الحزن وغیرہ بھی تعمیر تھے۔ فرزندان توحید بعنوام علامت توحید انکی زیارت کرتے اور وہاں دعا و عبادت خدا کرتے۔ لیکن افسوس 97 برس پہلے 8 شوال 1344 ہجری کو آل سعود نے اس عمل توحید کو شرک بتا کر منہدم کر دیا۔ جب کہ اہل سنت اور شیعہ سب نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ جنت البقیع میں اکثر تشریف لے جاتے اور فرماتے کہ "مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اہل بقیع کے لئے دعا کروں، بقیع سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے جنکے چہرے چودھویں کے چاند کے مانند چمک رہے رہے ہوں گے اور بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔" ظاہر ہے کائنات کی سب عظیم ذات کو اللہ کے سوا کوی حکم نہیں دے سکتا اور جب خود خدا حکم دے تو وہ اس کے شعائر میں یقینا شامل ہے۔ تو ایسے با برکت مقام کی بے حرمتی اور انہدام توحید کا خاتمہ نہیں بلکہ اسلام دشمنی، توحید کی بے حرمتی اور سنت کی پامالی ہے۔ قرآنی فیصلے کے مطابق ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے تقوی الہی سے دور بلکہ خوشبوے اسلام، روح توحید سے کوسوں دور ہیں۔ 
ہم اس بے حرمتی اور پامالی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسکی جتنی مذمت کی جاے کم ہے۔ ہم اقوام متحدہ اور اپنی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کریں اور ایسا اقدام کریں کہ جس سے یہ روضے دوبارہ تعمیر ہو سکیں۔ تا کہ ہم سب دوبارہ ان فیوضات و برکات مستفیض ہو سکیں۔ 
مومنین کرام ! منحوس کرونا وبا کے سبب لاک ڈاون نافذ ہے لھذا کسی طرح کے جلسہ و جلوس کا امکان نہیں لھذا حکومت اور اطباء کے ہدایات کے مطابق اپنے گھروں میں رہیں لیکن سوشل میڈیا یا دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کی یاد تازہ رکھیں اور جتنا ممکن ہو اس عظیم ظلم کے خلاف احتجاج اور اسکی مذمت کریں۔ 
مالک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ یہ روضے دوبارہ تعمیر ہوں اور ظالمین اپنے کیفر کردار کو پہنچے۔ 
والسلام 
مولانا سید صفی حیدر زیدی
سکریٹری تنظیم المکاتب

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .