حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ یوم انہدام جنت البقیع کے موقع پر سربراہ تنظیم المکاتب مولانا سید صفی حیدر زیدی نے بیان جاری کیا ۔ جو اس طرح ہے؛
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
ذَٰلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ
یہ ہمارا فیصلہ ہے اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی۔ (سورہ حج آیت ۳۲)
ہر وہ چیز جسے دیکھ کر اللہ کی یاد آئے وہ شعائر الہی میں شامل ہے۔ عالم اسلام جہاں مناسک حج اور اس سے مربوط مقامات اور اشیاء جیسے کعبۃ اللہ ، مقام ابراہیمؑ ، حجر اسود اور صفا و مروہ کو شعائر الہی سمجھ کر تعظیم کرتا ہے وہیں اس دائرے کو وسعت دیتے ہوئے ماہ رمضان، عید الفطر، عید قربان، جمعہ، اذان، اقامت، نماز عیدین کو بھی شعائر اللہ سمجھتا اور احترام کرتا ہے۔
ظاہر ہے جو چیزیں خدا کی یاد دلائیں جب وہ شعائر الہی ہیں تو جن ذوات مقدسہ نےبشریت کو خدا کی معرفت اور اس کی بندگی کی راہ دکھائی ہے اور جن کے کردارکو دیکھ کر انسان نے توحید کا کلمہ پڑھا اور ان کے آثار آج بھی انسانیت کو راہ معرفت و عبادت کی ہدایت کر رہے ہیں وہ بدرجہ اولیٰ لائق تعظیم اور قابل احترام ہیں۔
لیکن افسوس ۹۹ برس پہلے آل سعود نے بنام توحید، توحید کی نشانیوں کو مٹانے کی کوشش کی اور جنت البقیع کو یہ کہتے ہوئےمنہدم کر دیا کہ یہ توحید کے منافی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مقام ابراہیمؑ ہو یا دوسرے شعائر ان کا احترام صرف اس وجہ سے ہے کہ قرآن کریم نے ہمیں حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیںعمل کر کے بتایا ہے تو کیا ان لوگوں نے صحيح البخاري،کتاب الحج ، باب الرمل فی الحج و العمرہ میں یہ روایت نہیں پڑھی کہ خلیفۂ ثانی نے حجر اسود کو خطاب کرتے ہوئے کہا : ’’ اے حجر اسود!تو صرف ایک سیاہ پتھر ہے۔ تو نہ مجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تجھے اللہ کے رسولؐ نے نہ چوما ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔‘‘ کیا انہیں نہیں معلوم ، کیا ان لوگوں نے نہیں پڑھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اہلبیتؑ کے احترام کا حکم دیا ہے ؟ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ حضورؐ حسنین کریمین علیہماالسلام کو پیار کرتے تھے؟ کیا یہ روایتیں نہیں پڑھیں کہ حضورؐ جنت البقیع میں جا کر اہل بقیع کو سلام کرتے تھے ، انکی مغفرت کی دعا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا کروں۔
افسوس صد افسوس ۸ ؍ شوال المکرم ۱۳۴۴ ھ کو آل سعود نے جنت البقیع کو منہدم کر دیا ۔ اسی کے ساتھ مکہ مکرمہ کے قبرستان حجون (جنت المعلیٰ) کو مسمار کر دیا اور آئے دن وسعت مساجد کے نام پر آثار توحیدمٹاتے آئے ہیں اور مٹا رہے ہیں ۔اس عداوت توحید اور آثار توحید و صداقت و حقانیت اسلام کو مٹانے کی سازش پر عالم اسلام کی خاموشی حیرت انگیز ہے ۔
۹۹ برس سے منہدم مزارات عالم اسلام کی غیرت و حمیت کو للکار رہے ہیں کہ جن کی مودت و محبت کا حکم اللہ نے دیا ، جنکی مودت و محبت اجر رسالت ہے انہیں کے ساتھ دشمنی کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے لیکن تم خاموش ہو اوراسی سکوت میں عافیت سمجھ رہے ہو۔
ضرورت ہے بلا تفریق مذہب و ملت آل محمد علیہم السلام سے محبت کرنے والے اور ان سے عقیدت رکھنے والے مذہبی اور مسلکی معیار سے اوپر اٹھ کر سوچیں اور فکر کریں تا کہ یہ روضے دوبارہ تعمیر ہو سکیں ۔
ہم جنت البقیع کے انہدام کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس ظلم کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم اقوام متحدہ اور اپنی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرے اور ایسا اقدام کرے کہ جس سے یہ روضے دوبارہ تعمیر ہو سکیں۔ تا کہ ہم سب دوبارہ ان فیوض و برکات سےمستفیض ہو سکیں۔
مومنین کرام ! قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس سلسلہ میں مجالس، جلوس و جلسات ، سیمینار اور کانفرنس منعقد کریں۔ سوشل میڈیا یا دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کی یاد تازہ رکھیں اور جتنا ممکن ہو اس عظیم ظلم کے خلاف احتجاج اور مذمت کریں۔
مالک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ یہ روضے دوبارہ تعمیر ہوں اور ظالمین اپنے کیفر کردار کو پہنچیں۔
والسلام
مولانا سید صفی حیدر زیدی
سکریٹری تنظیم المکاتب