حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخ محفوظ رکھنا اور اسے نسل در نسل منتقل کرنا زندہ قوموں کی علامت ہے قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اسکی یادداشت کی ہوتی ہےلغت کی کتابوں میں تاریخ کے معنی وقت کی تعیین کے ہیں۔ جبکہ تاریخ کے اصطلاحی معانی بیان کرتے ہوئے لوگوں نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے چند ذیل میں درج ہیں:
کسی ایسے قدیم اور مشہور واقعہ کی مدت ابتداء معین کرنا، جو عہد گذشتہ میں رونما ہوا ہو اور دوسرا واقعہ اس کے بعد ظہور پذیر ہو۔
سرنوشت یا قابل ذکر ایسے اعمال و افعال نیز حادثات اور واقعات کا ذکر جنہیں زمانے کی ترتیب کے لحاظ سے منظم و مرتب کیا گیا ہو
کھتے ھیں کہ اگر کسی قوم کو اندھیرے میں رکھنا مقصود ہو تو اس کی تاریخ مٹادو اور اس کے آثار محو کردو آنے تاکہ آنے والی نسلوں کو سچائی اور صحیح تاریخ کا پتہ نہ چلے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قدرت کا فیصلہ اٹل ھے
يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ توبہ(32)
نور حق شمع الھی کو بجھا سکتا ھے کون
جس کا حامی ھو خدا اس کو مٹا سکتا ھے کون،
یقیناً جن لوگو ں نے جنت البقیع کو منھدم کیاھے ان سے کھنا چاھو نگا کہ مٹی اور پتھر سے بنی قبور کو تو تم نے مسمار کردیا لیکن ان قبروں کو کیسے منھدم کروگے جو ھمارے دلوں میں ھے۔
تاریخ جنت البقیع :
بقیع کا اطلاق مدینہ میں موجود ایک معروف قبرستان پر ہوتا ہے اور اسے جنت البقیع اور بقیع الغرقد بھی کہتے ہیں۔
بقیع کا لفظی معنی وہ جگہ ہے کہ جہاں پر مختلف درختوں کی جڑیں یا کٹے ہوئے درختوں کی باقیات ہوں([1])، اور غرقد کا معنی عوسجہ ہے عوسجہ ایسا پودا ہوتا ہے کہ جس پر مختلف رنگ کے پھول لگتے ہیں([2])۔
کہا جاتا ہے([3]) کہ غرقد جھاؤ کے درخت کی ایک قسم ہے اور اس کی لکڑی کافی سخت ہوتی ہے اور اس پر کانٹے ہوتے ہیں اسی طرح اس کا کوئلہ بھی سخت ہوتا ہے۔([4])
کتاب عمدة الاخبار فی مدینة المختار میں ہے([5]) کہ بقیع لغت میں اس جگہ کو کہتے ہیں کہ جہاں کوئی بھی مکان درخت سے خالی نہ ہو۔ بقیع الغرقد (جنت البقیع)میں پہلے بہت درخت ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں یہ درخت ختم ہو گئے اور فقط بقیع کا نام باقی رہ گیا۔
بقیع مدینہ منورہ کے مشرق میں واقع معروف قبرستان ہے۔ جنت البقیع کو کَفْتة بھی کہتے ہیں۔ یہ نام اس آیت کریمہ سے اخذ کیا گیا ہے: أَ لَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفاتاً أَحْياءً وَ أَمْواتاً ([6]) اور جنت البقیع کو کفتة اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں مردوں کو دفن کیا جاتا ہے۔
حموی نے معجم البلدان میں کہا ہے([7]) کہ بقیع کا عربی میں لفظی معنی وہ جگہ ہے کہ جہاں مختلف درختوں کی جڑیں ہوں۔ جنت البقیع کو بقیع الغرقد بھی کہا جاتا ہے اور غرقد سے مراد عوسجہ کا پودا ہے۔
بقیع کا لفظ مدینہ منورہ اور دوسرے شہروں میں موجود مختلف مقامات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ان میں سے ایک بقیع الزبیر ہے کہ جہاں گھر اور مکانات ہیں اور یہ جگہ مدینہ میں ہی ہے۔([8])
ایک دوسری جگہ بقیع الخیل ہے یہ جگہ بھی مدینہ منورہ میں زید بن ثابت کے گھر کے پاس ہے([9]) یہ ایک بازار تھا کہ جو جنت البقیع کے قریب ہی تھا اس بازار میں بنو سلیم گھوڑے، اونٹ، بھیڑ، بکریاں اور گھی لایا کرتے تھے اور زیادہ تر یہاں پر جانوروں کی ہی خرید و فروخت ہوتی تھی۔([10])
بکری کہتا ہے کہ([11])مدینہ منورہ میں ایک مقام بقیع الخبجبة بھی تھا کہ جو بئر ابی ایوب کے پاس تھا۔ خبجبة ایک درخت کا نام ہے کہ جو اس علاقہ میں کثرت سے ہوتا تھا۔
دائرة المعارف الاسلامیہ میں ہے کہ بقیع مدینہ منورہ کا قبرستان ہے اور بقیع کے نام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں پہلے اونچے اونچے شہتوت کے درخت کثرت سے موجود تھے۔([12])
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بقیع سے مراد وہ جگہ ہے کہ جہاں ایک قسم کی گھاس اگتی ہے کہ جسے عربی میں ذرق کہا جاتا ہے۔([13])
جنت البقيع کا تاریخی پس منظر: اہل مدینہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ سے ہی میتوں کو بقیع میں دفن کرتے تھے اور کبھی کبھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدفون کی قبر پر کوئی خاص نشانی اور علامت لگاتے تھے کہ جس سے قبر کی شناخت ہو سکے۔
جب آئمہ علیھم السلام بقیع میں دفن ہوئے تو اس وقت ان کی قبروں پہ گنبد تعمیر کیے گئے اور اس زمانے میں مکہ، مدینہ اور دوسرے اسلامی شہروں میں مسلمانوں کے درمیان اولیاء کی قبروں پر گنبد وغیرہ تعمیر کرنے کا رواج موجود تھا۔
ابن سیدہ کا کہنا ہے کہ بقیع مدینہ منورہ کا قبرستان ہے اور اسے غرقد بھی کہا جاتا ہے جیسے زہیر نے کہا:
لمن الدیار عشیتھا بالغرقد کالوحی فی حجر المیل المخلد([14])۔
کہا جاتا ہے کہ بقیع کا قبرستان اسلام سے پہلے بھی موجود تھا اور اس کا ذکر عمر و بن نعمان البیاضی کے اس مرثیہ میں ہے کہ جو اس نے اپنی قوم کے لیے پڑھا تھا:
این الذین عھدتھم فی غبطة بین العقیق الی بقیع الغرقد
لیکن اسلام کے بعد جنت البقیع کا قبرستان فقط مسلمانوں کی میتوں کو دفن کرنے کے لیے مختص ہو گیا اور یہودی اپنے مردوں کو جنت البقیع کے جنوب مشرق میں واقع ایک بستان میں دفن کرتے تھے کہ جو (حش کوکب ) کے نام سے معروف تھا۔
جنت البقیع میں دفن ہونے والے پہلے مسلمان: بعض تاریخی کتابوں میں ملتا ہے کہ بقیع پہلے ایک باغ تھا اور اس میں عوسج کے درخت لگے ہوئے تھے اور مسلمانوں میں سب سے پہلے جنت البقیع میں اسعد بن زرارہ انصاری دفن ہوئے کہ جن کا تعلق انصار سے تھا۔
پھر اس کے بعد جلیل القدر صحابی جناب عثمان بن مظعون کو اس قبرستان میں دفن کیا گیا اور ان کے دفن کرنے میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شریک ہوئے۔
پھر اس کے بعد انہی کے پہلو میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے جناب ابراہیم کو دفن کیا گیا۔
اس کے بعد مسلمانوں نے اس مقام کو مبارک قرار دیتے ہوئے اس کو دفن کے لیے مختص کر دیا اور وہاں موجود درختوں کو کاٹ دیا۔
کتاب بقیع الغرقد میں مذکور ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ سے ہی مسلمانوں کو جنت البقیع میں دفن کیا جاتا تھا اور بعض اوقات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود کسی قبر پر کوئی ایسی خاص نشانی یا علامت نصب کرتے کہ جس سے اس قبر کی پہچان باقی رہے۔
پھر اس کے بعد علماء کے حکم پر کچھ قبروں پر مومنین نے گنبد بنائے اور وہاں ضریحوں کو نصب کیا۔ اس زمانے میں اولیاء کی قبروں پر گنبد وغیرہ کی تعمیر کا رواج عام تھا اور مدینہ، مکہ اور اس کے گرد و نواح میں بہت سے مزار تعمیر کیے گئے تھے۔
اس شرعی عمل کو فقط مکہ اور مدینہ یا اس کے اطراف میں ہی نہیں انجام دیا جاتا تھا بلکہ تمام اسلامی شہروں میں مومنین بہت ہی عقیدت و احترام سے اس عمل کو سر انجام دیتے تھے۔
لیکن تقریبا دو سو سال پہلے وہابیوں نے مکہ اور مدینہ پر حملہ کر کے تمام مزاروں اور روضوں کو تباہ کر دیا اور وہاں سے ہر چیز کو لوٹ لیا۔
اس کے بعد پھر دوبارہ مسلمانوں نے تمام گنبدوں، مزاروں اور روضوں کو تعمیر کیا لیکن اس جدید تعمیر کو تقریبا اسی سال ہی گزرے تھے کہ وہابیوں نے دوبارہ مکہ اور مدینہ پر حملہ کیا اور پورے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد پھر دوبارہ سارے روضوں کو تباہ کر دیا، وہاں پر موجود لائبریریوں کو آگ لگا کر مکمل جلا دیا اور فقط اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ مبارک کو بھی گرانے لگے لیکن پوری دنیا خاص طور پر ہندوستان اور مصر میں مسلمانوں کے غم و غصے اور احتجاج سے خوف زدہ ہو کر ایسا کرنے سے باز رہے۔
وہابیوں کا سب سے بڑا عالم ابن باز([15])مسجد نبوی میں نہیں آتا تھا اور کہتا تھا جب تک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی قبر پر یہ بت(گنبد)موجود ہے مسجد میں نہیں جاؤں گا لیکن کافی زمانہ گزرنے کے بعد بھی اس کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔([16])
وہابیوں کے ہاتھوں جنت البقیع اور مقاماتِ مقدسہ کی تباہی و انہدام:اہل بیت علیھم السلام کے دشمنوں نے نور خداوندی کو بجھانے کے لیے کبھی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشینوں آئمہ اطہار کو شہید کیا، اور کبھی حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور باقی آئمہ اطہار اور اہل بیت علیھم السلام کی فضیلت بیان کرنے والوں کو قتل کیا اور انہیں زندانوں میں ڈالا، اور کبھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں تحریف و تبدیلی کی، اور کبھی امام حسین علیہ السلام کی قبر اقدس کو متعدد بار مسمار کیا۔
جب ان دشمنان اہل بیت نے یہ دیکھا کہ اہل بیت علیھم السلام کے نور ہدایت کو ختم کرنے کے لیے تمام تر وسائل کا استعمال کرنا بے کار ہو گیا ہے تو ان ملعونوں نے حقیقی اسلام اور اہل بیت علیھم السلام کے نور ہدایت کو ختم کرنے کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا اور جنت البقیع کے مقدس قبر ستان کے احترام و قدسیت کو پامال کرتے ہوئے جنت البقیع میں موجود اسلام کے بلند مرتبہ لیڈروں اور آئمہ اطہار و اہل بیت علیھم السلام کی قبروں کو مسمار کر دیا اور اب تک یہ ملعون اس کوشش میں ہیں کہ عراق میں موجود آئمہ اطہار کے مراقد اور روضوں کو بھی تباہ کر دیا جائے لیکن ان کی یہ نجس خواہش کبھی بھی پوری نہ ہو گی۔
جنت البقیع میں مدفون آئمہ اطہار علیھم السلام پر فقط ان کی زندگی میں ہی ظلم و ستم کی انتہاء نہ ہوئی بلکہ ان ملعونوں کے ہاتھوں شہید ہو جانے کے بعد بھی ان پر ظلم و ستم آج تک جاری ہے ان کی قبروں کو مسمار کر دینا، ان کے روضوں اور مزاروں کو تباہ کر دینا اوران کے چاہنے والوں کو ان کی زیارت سے روکنا ایک واضح ظلم ہے۔
ہم سب پر واجب ہے کہ ہر پرامن طریقے سے جنت البقیع کو دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کر یں اس سلسلہ میں جلسے، جلوس اور مجالس منعقد کریں۔
سن 1185ہجری میں برطانیہ کے بنائے ہوئے منصوبے اور بھرپور سیاسی اور فوجی مدد کے ذریعے درعیہ کے حاکم محمد بن سعود اور برطانیہ کے ایجنٹ اور وہابیت کے بانی محمد بن عبدالوہاب نے پڑوسی شہروں اور ملکوں پر حملے شروع کر دیے اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کر دی اور شہروں اور دیہاتوں میں گھس کر بچوں، بوڑھوں اور عورتوں تک کو قتل کر کے مسلمانوں کے اموال کو مال غنیمت کی طرح لوٹنا شروع کر دیا۔
اس شورش اور ہنگامہ آرائی میں سیاسی قیادت درعیہ کے حاکم محمد بن سعود کے پاس تھی اور اس کی مدد کے لیے دینی قیادت محمد بن عبدالوہاب کے پاس تھی بھرپور فوجی طاقت کے ساتھ ان ملعونوں نے اپنے قریبی شہروں پر حملے کیے اور ان پر قبضہ کرتے ہوئے عراق کی حدود میں داخل ہو گئے۔ بہت سے دیہاتی علاقوں میں خون کی ندیاں بہاتے ہوئے وہابیوں کا لشکر کربلا پہنچ گیا ان ملعونوں نے کربلا میں داخل ہونے کے بعد ہزاروں نہتے مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا اور امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک کے گنبد کو توڑ کر منہدم کر دیا اور ضریح مبارک کے کچھ حصے کو بھی نقصان پہنچایا اور روضہ مبارک میں موجود تمام قیمتی اشیاء اور جواہرات کو لوٹ لیا اور قرآن مجید اور دوسری تمام کتابوں کو آگ لگا دی۔
کربلا کو تباہ کرنے اور لوٹنے کے بعد وہابیوں کا یہ لشکر نجف کی طرف گیا تاکہ حضرت امام علی علیہ السلام کی قبر اقدس کو بھی منہدم کرے لیکن یہ لشکر اپنی اس ناپاک کوشش میں ناکام رہا اور واپس درعیہ چلا گیا۔
درعیہ پہنچنے کے بعد وہابیوں کے اس لشکر نے حجاز کا رخ کیا اور حجاز کے علاقوں پر حملہ کر دیا۔ وہابیوں نے پہلے مکہ مکرمہ پر لشکر کشی کی اور مکہ مکرمہ اور خانہ کعبہ کی قدسیت اور احترام کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے یہ لشکر مکہ کے شہر میں داخل ہو گیا اور لوگوں کو قتل کر کے ان کے گھروں سے سب کچھ لوٹ لیا۔
جب مکہ پر مکمل قبضہ کر لیا تو قبرستان معلی میں موجود صحابہ کرام اور بزرگ مسلمانوں کی تمام قبروں اور مزاروں کو تباہ کر دیا۔
کتاب خلاصة الکلام کے مؤلف لکھتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو تما م وہابی ہاتھوں میں کھدال، گینتیاں، ہتھوڑے اور بیلچے لے کر مقدس مقامات پر ٹوٹ پڑے مساجد، آثارقدیمہ کی عمارتیں، مزار اور قبرستان معلی میں موجود تمام گنبدوں کو توڑ کر تباہ کر دیا۔ اس کے بعد ان وہابیوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقام ولادت اور گھر کو بھی منہدم کر دیا، اس گھر پر موجود گنبد کو زمین بوس کر دیا۔ یہ وہابی جب بھی کسی عمارت، مسجد یا مقبرے وغیرہ کو گراتے تو عمارت کے ساتھ منسوب شخصیت کو گالیاں دیتے۔ اس حملے اور تباہی سے کوئی تاریخی مقام محفوظ نہ رہ سکا۔
سن1220ہجری1805عیسوی کو ڈیڑھ سال کے مسلسل محاصرے کے بعد وہابیوں کی فوج مدینہ منورہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ کتاب لمع الشہاب کا مؤلف کہتا ہے کہ وہابیوں نے جب مدینہ پر حملہ کیا تو اہل مدینہ نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کو شہر میں داخل نہ ہونے دیا۔ وہابیوں نے کئی بار شہر میں داخل ہونے کے لیے حملہ کیا لیکن ہر بار ناکام رہے یہاں تک کہ وہابیوں نے ایک ایسا شدید حملہ کیا کہ جس کا محاصرین مقابلہ نہ کر سکے اور وہابیوں کا لشکر مدینہ میں داخل ہو گیا وہابیوں نے اہل مدینہ کو ناکثین کا نام دیا اور خون ریزی کا بازار گرم کر دیا۔
گیارہویں دن وہابیوں کا حاکم مدینہ آیا اور اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ مبارک کے خادموں پر تشدد کر کے روضہ مبار ک کے خزانے کے بارے میں معلومات لیں اور سارا کا سارا خزانہ لوٹ کر درعیہ لے گیا۔ اس خزانے بے انتہا قیمتی نوادرات تھے نوشیروان بادشاہ کا تاج، ہارون رشید کی تلوار، زبیدہ کے دئیے ہوئے نادر اور قیمتی تحفے اور بہت سی دیگر اشیاء کو ان ڈاکوؤں نے لوٹ لیا۔ اس کے علاوہ روضہ مبارک میں موجود سونے کی قند یلوں، مشعلوں اور بہت سے قیمتی جواہرات کو بھی مال غنیمت قرار دے کر اٹھا کر لے گئے۔
اس کے بعد یہ ملعون جنت البقیع کی طرف گیا اور وہاں پر موجود ہر مقبرے کو تباہ کرنے اور ہر گنبد اور روضے کو مسمار و منہدم کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد وہابیوں نے وہاں پر موجود کسی بھی عمارت کو سالم نہ چھوڑا وہ جگہ جہاں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا بیٹھ کر اپنے بابا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غم میں رویا کرتی تھیں وہاں پر بیت الاحزان کے نام سے ایک تاریخی عمارت تھی کہ جسے ان وہابیوں نے بے دردی سے مسمار کر دیا۔
بقیع میں موجود تمام گنبدوں کی نسبت حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر اقدس پر بنا ہوا گنبد سب سے بڑا تھا جیسا کہ ابن جبرین اور ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں اس گنبد کے بارے تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ بقیع میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت محمد باقر علیہ السلام، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام، صحابی رسول جناب عثمان بن مظعون اور بہت سے صحابہ کرام اور جلیل القدر اسلامی شخصیات کے مزار تھے۔ لیکن پورے قبرستان اور تمام مقدس مزاروں کو وہابیوں نے مسمار کر دیا۔ اس بارے میں عبد اللہ بور خارت لکھتا ہے جنت البقیع کے پورے قبرستان میں کسی مزار اور مرقد کی ایک میٹر عمارت بھی سلامت نہ رہی ....... اور پورا قبرستان مٹی اور پتھروں کے ڈھیروں پر مشتمل چٹیل میدان میں تبدیل ہو گیا۔
یہ مقدس مقامات اسی حالت میں باقی رہے اور پھر کئی سالوں کے بعد عثمانی حکومت نے آل سعود سے مدینہ منورہ کا علاقہ فوجی طاقت و لشکر کے ذریعے واپس لیا اور دوبارہ سے ان تمام تاریخی اور اسلامی آثار اور مقدس مقامات کی تعمیر کا عمل شروع کیا۔ اس سلسلہ میں علماء اور اسلامی دنیا کے ثروت مند حضرات نے مکمل تعاون کیا اور انتہائی قیمتی تحائف اور سونے چاندی کو ان مقدس مقامات کی دوبارہ تعمیر کے لیے عطیہ کے طور پر دیا جس سے بہت کم وقت میں اکثر مقدس مقامات کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا۔
لیکن اس تعمیر کو سو سال بھی نہ گزرے تھے کہ آل سعود نے برطانیہ کی مدد سے حجاز اور اس کے گرد و نواح میں عثمانی حکومت اور شریف حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
پندرہ جمادی الاول 1344ہجری بمطابق 1925ءکو وہابیوں کی فوج مدینہ منورہ میں داخل ہوئی اور بچوں، بوڑھوں، مردوں، عورتوں اور علماء دین کو بے دردی سے ذبح کرنا شروع کر دیا۔ اس خونی سانحہ میں بے شمار انسانی جانیں وہابیوں کے ہاتھوں ضائع ہوئیں۔
اس کے بعد آٹھ شوال 1344ہجری کو وہابیوں نے جنت البقیع کا رخ کیا اور وہاں موجود تمام روضوں، مساجد، مزاروں اور قبروں کو مسمار کر دیا اور ہر قیمتی چیز کو لوٹنے کے بعد سب کچھ تباہ کر دیا۔
جنت البقیع کو تباہ کرنے کے بعد وہابی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ مبارک کو بھی گرانے کے لیے بڑھے لیکن وہابیت کے منہ پر چڑھا ہوا اسلام کا خول اترنے کے ڈر سے اس کام سے باز رہے اور دوسری طرف پوری اسلامی دنیا میں ان کے خلاف غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی کہ جس کی وجہ سے وہ اپنے اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔
جنت البقیع کو دو مرتبہ وہابیوں نے تباہ کیا، پہلی مرتبہ 1220ہجری میں اور دوسری مرتبہ 1344ہجری میں اور آج تک جنت البقیع کا قبرستان مظلومیت کی دکھ بھری داستان کی صورت میں ویران پڑا ہے۔
آسمانی مذاہب میں جنت البقیع کے احترام کا حکم
جنت البقیع پر اس ناپاک جسارت کا سیاسی مفادات اور اسلام دشمنی کے علاوہ کوئی شرعی مبّرر و مجّوز نہیں ہے۔ اسلام سمیت تمام آسمانی مذاہب اپنے اپنے دینی آثار قدیمہ، مقامات مقدسہ اور بزرگ مذہبی شخصیات کی قبروں کی حفاظت، دیکھ بھال، احترام اور قدسیت کا حکم دیتے ہیں اور ان کی بے ادبی کرنے کو بہت بڑا جرم اور گناہ سمجھتے ہیں۔
تاریخی کتابوں میں ملتا ہے کہ یہودیوں کا سب سے بڑا عالم رأس الجالوت مصعب بن زبیر کے ساتھ مدینہ آیا تو جب وہ جنت البقیع کے پاس پہنچا تو اس نے کہا یہ تو (کفتہ) ہے میں اس پر قدم نہیں رکھوں گا۔ مصعب بن زبیر نے اس سے پوچھا: یہ کیا ہوتا ہے؟ تو رأس الجالوت نے کہا: یہ ایک مقدس قبرستان ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر تورات میں کیا ہے۔ پس رأس الجالوت اس مقدس قبرستان کے احترام کے خاطر اس میں سے نہ گزرا۔
روایت میں ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک یزید ملعون کے دربار میں پیش کیا گیا تو یزید ملعون نے چھڑی کو امام حسین علیہ السلام کے دانتوں اور ہونٹوں پر مارنا شروع کر دیا۔ اس وقت دربار میں روم کا سفیر بھی تھا اس نے یزید سے پوچھا یہ کس کا سر ہے؟ تو یزید نے کہا یہ حسین بن علی کا سر ہے۔ تو روم کے سفیر نے کہا: کیا یہ تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہے؟ تو یزید نے کہا: ہاں یہ ہمارے پیغمبر کا ہی نواسہ ہے۔ یہ بات سن کر روم کے سفیر نے کہا: لعنت ہو تم پر اے یزید، ہم عیسائیوں کے نبی حضرت عیسی ابن مریم(ع) کے گدھے کے قدموں کا نشان ہمارے ایک جزیرے میں ہیں اور ہم ہر سال وہاں جا کر حج کرتے ہیں اور اس کو انتہائی مقدس سمجھتے ہیں اور تم اپنے رسول کے نواسےکو قتل کر کے خوشیاں مناتے ہو میں گواہی دیتا ہوں کہ تم گمراہ اور باطل پرست ہو۔ سفیرِ روم کی گفتگو سن کر یزید کو غصہ آگیا اور اس نے روم کے سفیر کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ پس سفیرِ روم امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی طرف متوجہ ہو کر اسلام لایا اور اصلی اسلام کی حالت میں قتل ہوا۔
آپ نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گدھے کے قدم کا نشان زمین پر جس جگہ بنا وہاں جانا اس کی زیارت کرنا عیسائیوں کے نزدیک حج کا درجہ رکھتا ہے عیسائی اس جگہ کو انتہائی مقدس اور قابل احترام سمجھتے ہیں کیونکہ آسمانی مذاہب دینی آثار کی حفاظت اور احترام کو واجب سمجھتے ہیں جب کہ یہ نام نہاد مسلمان اور دین کے ٹھیکیدار اسلام کے بزرگان اور خاندان رسالت کی قبروں اور اُس گھر کو تباہ اور مسمار کرتے ہیں کہ جہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر اقدس اور روضہ مبارک پر جسارت کرتے ہیں۔
وہابیوں کا سب سے بڑا مفتی ابن باز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لیے نہیں جاتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ روضہ بت خانہ ہے اور اس کا گنبد بت ہے لیکن ان وہابیوں کی یہ باتیں زیادہ تعجب خیز نہیں ہیں کیونکہ یہ وہابی ان لوگوں کی پیروی کرتے ہیں جنہوں نے جنگ احد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دانتوں کو شہید کیا اور پیغمبر اکرم (ص) کو کہا کہ یہ ہذیان بکتا ہے۔
جنت البقیع اور مقامات مقدسہ کو مسمار کرنےکا مقصد: جنت البقیع کو مسمار کرنے اور وہاں موجود آئمہ اطہار کے روضوں کو تباہ کرنے کے جرم کے پیچھے بہت سے مقاصد و اسباب ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
(1)اسلام کا خاتمہ:اسلام دشمن طاقتوں کے دسترخوان کی بچی کچی ہڈیوں پر پلنے والے وہابیوں نے اسلام کا نام و نشان مٹانے کے لیے ہر ممکن طریقے سے اسلام کے تہذیب و تمدن اور تایخ اسلام کی یاد دلانے والی ہر چیز کو مسمار کر دیا اور اسلامی تاریخ کے تمام آثار قدیمہ کو تباہ و برباد کر دیا کیونکہ جب کسی شے کے وجود کو مٹانا ہو تو اس کے آثار کو پہلے مٹایا جاتا ہے لہٰذا وہابیوں نے مسلمانوں کی بزرگ شخصیات کی قبروں اور اصلی اسلام کی یادگاروں کو تہ تیغ کر دیا تاکہ ان یاد گاروں کے ذریعے اصلی اسلام تک کوئی نہ پہنچ سکے۔ اگر ہم تاریخ کا بغور مطالعہ کریں اور ان المناک واقعات کا اچھے طریقے سے جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا ان یادگاروں کی تباہی کے پیچھے یہودیوں کے مشورے بھی شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ جب وہابیوں نے خیبر پر قبضہ کیا تو انہوں نے قلعہ خیبر اور باب خیبر کو ریزہ ریزہ کر دیا کیونکہ اس قلعے کا وجود یہودیوں کی ذلت و رسوائی کی زندہ یاد گار اور مجسم تاریخ تھا۔
(2) اہل بیت رسول(ص) سے دشمنی: یہ ایک واضح بات ہے کہ اہل بیت رسالت سے دشمنی ان وہابیوں کے رگ رگ میں بسی ہوئی ہے حضرت علی علیہ السلام اور ان کی اولاد سے بغض و حسد اور کینہ ان کو وراثت میں ملا ہے ان وہابیوں نے روضوں کو گرانے اور اپنے تمام غیر اسلامی کاموں کے لیے اپنا پیرومرشد ابن تیمہ کو بنایا ہوا ہے اور یہ ابن تیمہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ علی بن ابی طالب کا اسلام ہی صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ بچپن کی حالت میں اسلام لایا تھا!!!!!
(3)ذکر اہل بیت(ع) پہ یلغار: کسی بھی انسان کی نیک سیرت اور زہد و تقوی کی وجہ سے جب لوگ اس کا احترام اورتقدیس کرتے ہیں تو اس سے معاشرے میں اور خدا کے نزدیک اس کی حیثیت اور اہمیت واضح ہوتی ہے اور اس بات پر شاہد وہ قصہ ہے کہ جو حضرت زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک سال ہشام بن عبدالملک اپنے بے شمار غلاموں، نگہبانوں اور حکومتی افراد کے ساتھ حج کے لیے آیا لیکن جب وہ حجر اسود کے پاس جانے لگا تو لوگوں کی کثرت اور رش کی وجہ سے حجر اسود تک نہ پہنچ سکا اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ اسی دوران حضرت زین العابدین علیہ السلام تنہا حجر اسود کی طرف بڑھے تو حاجیوں نے فورا ان کے لیے راستہ بنا دیا اور ان کے ہاتھوں اور کپڑوں کو چومنا شروع کر دیا اور برکت کے لیے اپنے ہاتھوں کو ان سے مس کرنے لگے اور اس طرح امام سجاد علیہ السلام بغیر کسی دقت کے حجر اسود تک پہنچ گئے۔ جب ہشام بن عبد الملک کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے یہ حالت دیکھی تو ہشام سے پوچھا: یہ کون ہستی ہیں کہ جن کا لوگ اتنا احترام کرتے ہیں تو ہشام نے اپنے بغض و کینہ کی وجہ سے کہا: میں اس کو نہیں جانتا۔ (حالانکہ ہشام خوب اچھی طرح سے امام سجاد(ع) کو جانتا اور پہنچانتا تھا لیکن پھر بھی اس نے جھوٹ بولا کہ کہیں ان شامیوں کے دل میں امام سجاد(ع) کی ہیبت و جلالت نہ بیٹھ جائے) وہاں ساتھ ہی فرزدق بھی تھا اس نے جب ہشام کی یہ بات سنی تو کھڑا ہو گیا اور امام سجاد علیہ السلام کے فضائل و مناقب پر مشتمل قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا اس قصیدے کے دو ا شعار یہ ہیں:
هذا الذي تَعِرفُ البطحاءُ وطأته
والبيتُ يعرفُهُ والحِلُّ والحَرَمُ
یہ وہ شخصیت ہیں جن کے نشانِ قدم کو بھی وادئ بطحاء(مکہ) پہنچانتی ہے، انھیں خانہ کعبہ، حرم اور حرم سے باہر کا سارا علاقہ پہنچانتا ہے.
هذا ابن خيرِ عبادِ اللهِ كُلهمُ
هذا التقي النقي الطاهر العلمُ
یہ تمام بندگان خدا میں سے بہترو افضل ہستی کے فرزند ہیں، یہ متقی و پرہیز گار پاک و پاکیزہ اور عَلمِ ھدایت ہیں۔
لوگوں کے نزدیک عظیم ہستیوں اور شخصیات کے عزت و احترام اور تقدیس کا ایک طریقہ ان کے آثار کی حفاظت اور قبروں کی تعمیر بھی ہے۔ کسی بھی شخص کے آثار کی حفاظت اور ان کی قبر کی عظیم الشان تعمیر ان کی منزلت پر دلالت کرتی ہے اور چونکہ مکہ اور مدینہ میں ہر سال حج و عمرہ اور زیارات کے لیے بہت زیادہ لوگ آتے ہیں لہٰذا اگر جنت البقیع میں یہ روضے باقی رہتے تو ہر آنے والا ان کی طرف متوجہ ہوتا اور ان کی منزلت کے بارے میں تحقیق کرتا اور اِدھر اُدھر سے سوال کرنے کی صورت میں اسے وہی جواب ملتا کہ جو فرزدق نے ہشام کو دیا تھا اور تحقیق کے بعد جب ان ہستیوں کی پوری دنیا سے زیادہ عظمت اور افضلیت کا اس کو معلوم ہوتا تو اس کی عقل اسے ان کے مذہب کی طرف مائل کرتی۔ پس وہابیوں نے ان کے ذکر کو ہی ختم کرنے کے لیے ان کے تمام آثار اور قبروں کو مسمار کر دیا۔
(4)حسد: حاسد کسی مومن و مسلم کے پاس کسی نعمت کے وجود کو نہیں دیکھ سکتا حاسد کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طریقے سے اس نعمت کو ختم کرے یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے سورة فلق کی پانچویں آیت میں حاسدوں کے حسد سے بچنے کے لیے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں حسد کی وجہ سے رونما ہونے والے جرائم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مثلا قابیل کا جناب ہابیل کو قتل کرنا اور جناب یوسف کے بھائیوں کا ان پر ظلم و ستم کرنا فقط حسد کی وجہ سے ہی تھا۔ اسی طرح نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے اہل بیت علیھم السلام پر اتنے ظلم و ستم کرنے کا سبب بھی حسد ہی تھا۔ سورة نساء کی آیت نمبر 54کے بارے میں اما م محمد باقر علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں اس آیت میں ہے کہ لوگ ان سے ان کے فضل وکمال کی وجہ سے حسد کریں گے کہ جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا ہے۔ تو امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم اہل بیت رسول ہی وہ لوگ ہیں کہ جن سے خدا کے عطا کردہ فضل و کمال کی وجہ سے حسد کیا جاتا ہے۔ ان وہابیوں نے جب یہ دیکھا کہ اہل بیت علیھم السلام کے یہ عظیم الشان روضے، عظیم ضریحاں اور سب سے بلند اور بڑے گنبد ان کی عظمت و جلالت پہ دلالت کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے انہیں پوری دنیا میں بلند امتیازی حیثیت حاصل ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ان وہابیوں اور ان کے سرکردہ اماموں اور لوگوں کا نام و نشان تک نہیں ہے تو ان کے دل میں حسد و کینہ کی گندگی نے جوش مارا اور اتنے بڑے غیر انسانی، غیر شرعی اور غیر اخلاقی جرائم پہ آمادہ کر دیا۔
وہابیوں نے جنت البقیع کی قبروں کو مسمار کرنے کے لیے کیا حیلہ اور بہانہ تراشہ؟
تمام مسلمانوں کے بر خلاف وہابیوں کا یہ نظریہ ہے کہ انبیاء اور آئمہ اہل بیت علیھم السلام کی قبروں کا احترام اور تعظیم کرنا خدا کے ساتھ شرک کرنے کے مترادف ہے اور ایسا کرنے والے کی سزا قتل ہے۔ اسی طرح وہابیوں کے مذہب میں مزارات، امام بارگاہوں، اور دیگر مقدس مقامات کی تعمیر بھی جائز نہیں ہے اور نہ اس طرح کی جگہوں کی زیارت جائز ہے۔ وہابیوں کے نزدیک تمام مقدس مقامات اور بزرگ اسلامی شخصیات کے مزاروں کا وجود شرک کا باعث بنتا ہے لہذا ان کا تباہ کرنا وہابی عقاید و افکار اولین جزء ہے۔ اور یہی وہ ظاہری بہانہ تھا جس کی آڑ میں وہابیوں نے جنت البقیع اور مقامات مقدسہ کو تباہ کرنے کا قبیح ترین جرم کا ارتکاب کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہابیوں کے ان جرائم کے پیچھے وہ درپردہ مذموم عزائم و مقاصد پوشیدہ تھے جن کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے۔ وہابیوں نے اس قسم کی اپنی غیر اسلامی آراء اور الٹے سیدھے فتووں کو اسلام دشمن طاقتوں کی مدد سے تمام مسلمانوں پر نافذ کرنے کے لیے لوہے اور آگ کو استعمال کیا، اسلامی ممالک میں جہاں تک ممکن ہو سکا اپنے نجس ہاتھوں کو پھیلانے کی کوشش کی۔ عراق، شام، خلیج اور بہت سے دوسرے عرب ممالک ان وہابیوں کی یلغاروں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ جہاں پر بھی ان وہابیوں نے حملہ کیا وہاں قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلے وہاں موجود صحابہ، تابعین اور اہل بیت رسول علیھم السلام کی قبروں کو مسمار کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہابی دشمن کی طرف سے خاص طور پر اسلامی آثار کو مٹانے پر مامور تھے۔ چونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں سب سے زیادہ اسلامی آثار قدیمہ اور مقامات مقدسہ ہیں اس وجہ سے یہ دونوں شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں۔ وہابیوں کے ان غیر انسانی اور غیر اخلاقی جرائم کی وجہ سے تمام مسلمان اپنے تاریخی ورثے سے محروم ہو گئے۔ جنت البقیع میں اہل بیت رسول اور ان کی ذریت کے روضے، بزرگ صحابہ اور زوجات رسول کے مزاروں اور بڑی بڑی اسلامی شخصیات کی قبروں کے ہونے کی وجہ سے وہابیوں نے خاص طور پر اس مقدس قبرستان کی تباہ کاری پر توجہ دی۔
جنت البقیع کی دو مرتبہ تباہی: وہابیوں نے جنت البقیع کو دو مرتبہ مسمار کر کے تاریخ میں اپنے منہ کالے کیے ہیں۔
وہابیوں نے خوارج اور اسلا م دشمن طاقتوں سے وراثت میں اسلامی آثار سے دشمنی حاصل کی ہے تاریخ اور موجودہ حالات شاہد ہیں کہ دنیا میں اسلام دشمنی، جہالت، ظلم و ستم اور فساد کو فروغ دینے والے سب سے بڑے ٹھیکیدار وہابی ہی ہیں ان وہابیوں نے دو مرتبہ جنت البقیع کے قبرستان کو تباہ کیا:
پہلی مرتبہ جنت البقیع کی تباہی:جنت البقیع کو تباہ اور مسمار کرنے کا جرم کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جب آل سعود نے 1220ہجری میں طاغوتی طاقتوں کی مدد سے پہلی مرتبہ مکہ و مدینہ پر حملہ کر کے قبضہ کیا اور ان مقدس شہروں میں خون کی ندیاں بہائیں تو قبضہ کرنے کے فوراً بعد جنت البقیع کے مقدس قبرستان اور وہاں موجود روضوں اور مزاروں کو تباہ کر کے کھنڈرات اور مٹی و پتھروں کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا۔ لیکن اس کے بعد عثمانی حکومت نے آل سعود پر ایک لشکر جرار سے حملہ کر کے ان سے مکہ و مدینہ کے علاقے واپس لے لیے اور پھر دوبارہ سے مسلمانوں کے عطیات کے ذریعے ان مساجد،روضوں اور مزارات کو احسن طریقے سے تعمیر کیا کہ جن کو وہابیوں نے مسمار کر دیا تھا۔ پھر دوبارہ سے تعمیر ہونے والے یہ روضے، مساجد اور مقدس مقامات وہابیوں کے دوسری مرتبہ ان علاقوں پر قابض ہونے تک باقی رہے۔
دوسری مرتبہ جنت البقیع کی تباہی: وہابیوں نے طاغوتی طاقتوں کی مکمل مدد کے ساتھ سن 1344ہجری کو دوبارہ مدینہ منورہ پر حملہ کیا اور وہاں قبضہ کرنے کے بعد اپنے درباری ملاؤں کے فتوے کو بہانہ بنا کر پورے جنت البقیع، وہاں موجود آئمہ اطہار کے روضوں اور اہل بیت رسول کے مراقد کو مسمار کر کے ایک چٹیل میدان میں تبدیل کر دیا۔ پورے کا پورا جنت البقیع خوبصورت روضوں، عمارتوں اور مساجد کی بجائے ایک ایسا میدان بن گیا کہ جہاں سے تمام قبروں کے نام و نشان کو ختم کر دیا گیا۔
وہابیوں نے اپنے نجس منصوبوں کو عملی جامہ کیسے پہنایا؟ جب وہابیوں نے 1344ہجری میں مکہ مدینہ اور اس کے گرد و نواح کے تمام علاقوں پر خون ریزی کے بازار گرم کرنے کے بعد قبضہ کر لیا تو وہ جنت البقیع میں موجود روضوں اور اہل بیت رسول اور صحابہ کرام کے آثار کو ختم کرنے کا بہانہ تلاش کرنے لگے۔ حجاز اور دوسرے اسلامی ممالک میں موجود مسلمانوں کے غم و غصہ سے بچنے اور اپنے قبضہ کردہ علاقوں کو دوبارہ ہاتھوں سے نکلنے سے بچانے کے لیے یہ چال چلی کہ سب سے پہلے آل سعود کی حکومت نے جبراً مدینہ کے علماء سے قبروں کی تعمیر کے حرام ہونے کا فتویٰ لیا۔ فتوی لینے کے لیے وہابیوں کے مفتی اور قاضی القضاة سلیمان بن بلیھد کو مامور کیا گیا اس نے پہلے تو مدینہ کے بچے کچے علماء سے بحث مباحثہ کیا اور پھر ڈرا دھمکا کر قبروں پر تعمیر کے حرام ہونے کا فتویٰ لکھوا لیا۔ سعودی حکومت نے اس فتوی کو بہانہ بن کر صحابہ کرام، معزز تابعین اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبروں کی اہانت اور بے ادبی کی اور 8شوال 1344ہجری کو اہل بیت رسول، صحابہ، تابعین اور بزرگ مسلمان ہستیوں کی قبروں کو مسمار کر کے پورے جنت البقیع کو چٹیل میدان میں تبدیل کر دیا۔ جنت البقیع کے روضوں اور مزاروں میں جو کچھ موجود تھا اسے ان وہابیوں نے ڈاکوؤں کی طرح لوٹا اور اس مقدس سرزمین کو تباہ و برباد کر دیا۔
وہابیوں کی بربریت اور اسلامی ورثے کی تباہی: سب سے پہلے ان وہابیوں نے مکہ، مدینہ اور دوسرے مقبوضہ علاقوں میں اسلامی آثار قدیمہ، قبور اور تمام مقدس مقامات پر یلغار کی اور سب کو منہدم کر دیا ..... مکہ مکرمہ میں قبرستان معلی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقام ولادت کو تباہ اور منہدم کیا اور وہاں سے ہر چیز کو لوٹ لیا....... لعنة اللہ علی الظالمین
جنت البقیع میں موجود روضوں اور مزاروں کی ایک اینٹ بھی سلامت نہ رہی۔ حضرت حمزہ بن عبد المطلب کی قبر اقدس پر بنی ہوئی مسجد کو تباہ کر کے ختم کر دیا گیا۔ مسجد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ مبارک کے سارے خزانے کو لوٹ لیا گیا اور اہل بیت رسول کی قبروں کو منہدم کر دیا گیا اور کوئی مقدس مقام بھی ان وہابیوں کے ظلم و ستم اور بربریت سے محفوظ نہ رہ سکا۔
عون بن ہاشم کہتا ہے کہ جب وہابیوں نے طائف پر حملہ کیا تو میں نے خود کھجوروں کے درختوں کے درمیان انسانی خون کو نہر کے پانی کی طرح بہتے ہوئے دیکھا اور ان المناک اور غیر انسانی واقعات کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ اس سانحہ کے دو سال بعد تک بھی جب میں بہتے ہوئے پانی کو دیکھتا تو مجھے وہ خون کی طرح سرخ لگنے لگتا۔
وہابیوں نے جس طرح سے مکہ و مدینہ اور دوسرے مقبوضہ علاقوں میں قتل و غارت گری کے بازار گرم کیے اس سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے ان وہابیوں کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان وہابیوں نے ان جرائم کے ذریعے پوری دنیا میں اسلام جیسے پر امن اور انسانیت نواز مذہب کو بد نام کر کے رکھ دیا ہے وہابیوں کے ہاتھوں جو لوگ قتل ہوئے ان میں شافعی مفتی الشیخ زواوی، بنی شیبہ سے تعلق رکھنے والی خانہ کعبہ کی انتظامیہ اور بہت سے علماء شامل ہیں۔
وہابیوں کے قبضے سے پہلے مدینہ کے علماء نے قبروں پہ تعمیر سے منع کیوں نہ کیا؟ پہلے کیوں روضوں اور مقدس مقامات کو منہدم کرنے کا فتویٰ نہ دیا؟ صدر اسلام سے لے کر آج تک علماء قبروں پر تعمیر کے بارے میں کیوں خاموش تھے؟ کیا پہلے شہداء اور صحابہ کرام کی قبروں پر تعمیر نہ تھی؟ کیا یہ مزار اور مقدس مقام اسلامی تاریخی ورثہ اور ہمارے اجداد کے تاریخی آثار نہ تھے؟ مثلا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام ولادت، حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کا گھر، ام البشر حضرت حوا کی قبر کہاں ہے؟ کیا ان کی قبر ایک نادر تاریخی ورثہ نہ تھا؟ تاریخ بشریت کی سب سے پہلی خاتون کا مقام دفن کہاں ہے؟ مدینہ میں موجود مسجد حضرت حمزہ کہاں چلی گئی؟ حضرت حمزہ کا وہ عالی شان مزار کہاں چلا گیا؟ کہاں......ہے؟ کہاں......ہے؟
اگر ہم مسلمان ہونے کے ناطے قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ قرآن مومنین کی تعظیم کرتا ہے اور ان کی قبروں اور ان سے منسوب مقدس مقامات کا احترام کرتا ہے اور یہ چیز اسلام سے پہلے گزشتہ امتوں اور آسمانی مذاہب میں موجود تھی قرآن مجید میں اصحاب کہف کا واقعہ موجود ہے کہ جب تین سو نو سال گزرنے کے بعد اصحاب کہف کے بارے میں معلوم ہوا تو اس وقت اس علاقے میں کفر کا خاتمہ ہو چکا تھا اور توحید پرستی عام ہو چکی تھی۔ لہٰذا مومنین نے اصحاب کہف کے پاس ہی مسجد بنائی تاکہ بت پرستی اور کفر کا مقابلہ کرنے والوں کی یاد سے خدا پرستی اور عبادت خدا کو فروغ حاصل ہو۔
اگر مومنین کی قبروں اور ان کے پاس مسجدیں بنانے کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا تو مومنین کبھی بھی اصحاب کہف کے پاس مسجد بنانے کا مشورہ نہ دیتے۔ اور قرآن کا بغیر کسی رد اور مذمت کے سورة کہف کی آیت نمبر 21میں اس واقعہ کا فضیلت اور حق کی سربلندی کے طور پر ذکر کرنا کیا ان کے اس عمل کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہے؟
قرآن، سنت اور علماء کے اتفاق رائے سے مومنین کی قبروں کی تعمیر اور مقدس مقامات کی حفاظت جائز عمل ہے اور ان کی اہانت حرام ہے۔
جنت البقیع میں وہابیوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے مقاماتِ مقدسہ: 8شوال 1344ہجری کو وہابیوں نے جنت البقیع اور اس سے باہر موجود جن مقدس مقامات کو تباہ و مسمار کیا ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
(1):- روضہ اہل بیت رسول کے جس میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب دفن تھے۔
وہابیوں نے اس مقدس روضہ کو تباہ کر دیا اور قبروں اور ضریحوں کو بھی توڑ دیا۔
(2):- رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا روضہ۔
(3) :- رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات کا روضہ۔
(4) :- رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھپھیوں کا روضہ۔
(5) :- حضرت اسماعیل بن امام جعفر صادق علیہ السلام کا روضہ۔
(6) :- جناب ابو سعید خدری کا روضہ۔
(7) :- حضرت فاطمہ بنت اسد کا روضہ۔
(8) :- حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے والد گرامی حضرت عبد اللہ علیہ السلام کا روضہ۔
(9) :- حضرت حمزہ علیہ السلام کا روضہ۔
(10) :- جناب علی العریضی بن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا روضہ۔
(11) :- جناب زکی الدین کا روضہ۔
(12) :- جنگ احد میں شہید ہونے والے جناب مالک ابو سعد علیہ السلام کا روضہ۔
(13) :- رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دانتوں کے شہید ہونے کا مقام۔
(14) :- حضرت عقیل بن ابی طالب علیہ السلام کا مزار۔
(15) :- حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا بیت الاحزان
وہابیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والی مساجد
جن مساجد کو وہابیوں نے شہید کیا ان میں سے چند مساجد کے نام یہ ہیں:
مسجدالکوثر، مسجدالجن، مسجد ابی قیس، مسجد جبل النور، مسجد الکبش، مسجد حمزہ ...........
ان وہابیوں نے بے انتہا مساجد، مقدس مقامات، تاریخی گھروں، مزارات اور روضوں کو گرا کر ان کا نشان تک ختم کر دیا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب علیہ السلام، حضور اکرم کے چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام، ام المومنین حضرت خدیجہ علیھا السلام کے روضوں کو بغیر کسی شرم و حیا کے توڑ پھوڑ کر زمین سے ملا دیا، جس گھر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت فاطمہ علیھا السلام اس دنیا میں تشریف لائے اس تاریخی گھر کو تباہ کر کے ختم کر دیا گیا۔ حضرت حواء علیھا السلام کے مزار کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ مکہ، مدینہ، طائف، جدہ اور اس کے گرد و نواح کے تمام علاقوں سے تمام مزاروں، تاریخی اور مقدس مقامات اور مساجد کو تباہ کر کے ختم کر دیا گیا۔
وہابیوں کے جرائم سے لوگ لاعلم کیوں ہیں؟ آج کے اس دور میں اس المناک سانحہ اور وہابیوں کے جرائم کے بارے میں لوگوں کی لاعلمی کی ایک وجہ تو اس سلسلہ میں مصادر کی کمی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ استعماری طاقتوں اور ان کے نمک خوار سعودی حکمرانوں نے اس سانحہ کو ہر ممکن طریقے سے دبانے اور مخفی رکھنے کے لیے تمام تر وسائل کو استعمال کیا ہے اور کر رہے ہیں تاکہ ایک جانب وہابیوں کا اصل چہرہ اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے استعماری مقاصد چھپے رہیں۔ جبکہ دوسری جانب لوگ جنت البقیع اور دوسرے مقدس مقامات کو ویران اور اجڑا ہوا دیکھنے کے عادی بن جائیں جس سے لوگوں کی نظروں میں اس مقدس قبرستان کی اہمیت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے اور یہاں دفن ہونے والوں کی منزلت کو بھی لوگ بھول جائیں۔
جنت البقیع کے بارے میں نبی کریم(ص) کا فرمان: احادیث میں مذکور ہے جنت البقیع میں دفن ہونے والوں میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔
طبرانی نے کبیر میں، محمد بن سنجر نے اپنی مسند میں، اور ابن شبة نے اخبار المدینہ میں عکاشہ کی بہن ام قیس بنت محصن کے بارے میں لکھا ہے : أنها خرجت مع النبي ـ صلّى الله عليه وآله وسلم ـ إلى البقيع،فقال: ((يُحشر من هذه المقبرة سبعون ألفاً يدخلون الجنة بغير حساب، وكأن وجوههم القمر ليلة البدر)). فقام رجل فقال: يا رسول الله، وأنا. فقال: ((وأنت))، فقام آخر فقال: يا رسول الله، وأنا. قال: ((سبقك بها عُكَّاشة))، قال: قلت لها: لِمَ لم يقل للآخر ؟ قالت: أراه كان منافق.
ترجمہ: ایک دن عکاشہ کی بہن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ جنت البقیع میں گئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:اس قبرستان سے ستر ہزار افراد جنت میں بغیر حساب کتاب کے داخل ہوں گے اور ان کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح ہوں گے۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : اے اللہ کے رسول کیا میں بھی ان جنتیوں میں شامل ہوں تو رسول خدا (ص) نے فرمایا:تم بھی ان میں شامل ہو۔ پھر ایک اور آدمی نے کہا:اے اللہ کے رسول کیا میں بھی ان میں شامل ہوں۔ تو رسول خدا(ص)نے فرمایا:عکاشہ پہلے جنت میں جائے گا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے ام قیس سے پو چھا کہ رسول خدا (ص) نے دوسرے شخص کو پہلے شخص والا جواب کیوں نہیں دیا؟ تو ام قیس نے کہا : کیونکہ میرے خیال کے مطابق وہ منافق تھا۔
ابن شبة نے لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غلام ابو موھبہ کہتا ہے: قال: أهبَّني رسول الله ـ صلّى الله عليه وآله وسلم ـ من جوف الليل، فقال: ((إني أمرت أن أستغفر لأهل البقيع فانطلق معي))، فانطلقت معه، فلما وقف بين أظهرهم قال: (( السلام عليكم يا أهل المقابر، ليهنَ لكم ما أصبحتم فيه مما أصبح الناس فيه، أقبلتِ الفتنُ كقطع الليل المظلم يتبع آخرها أولها، الآخرة شر من الأولى)) ثم استغفر لهم طويلاً.
ثم قال: ((يا أبا موهبة، إني قد أوتيتُ مفاتيح خزائن الدنيا والخلد فيها، فخيرت بين ذلك وبين لقاء ربي ثم الجنة))، قلت: بأبي وأمي خذ مفاتيح خزائن الدنيا والخلد فيها ثم الجنة، قال: ((لا والله يا أبا موهبة، لقد اخترت لقاء ربي ثم الجنة))
ثم رجع رسول الله ـ صلّى الله عليه وآله وسلم ـ فبدأ به وجعه الذي قبض فيه.
ترجمہ:حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غلام ابو موھبہ کہتا ہے کہ ایک رات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: مجھے اہل بقیع کے لیے طلب مغفرت کا حکم دیا گیا ہے پس تم بھی میرے ساتھ چلو۔ ابو موھبہ کہتا ہے کہ میں آپ (ص)کے ساتھ بقیع کی طرف روانہ ہوا اور جب ہم جنت البقیع پہنچے تو حضور (ص) نے فرمایا: (( السلام عليكم يا أهل المقابر، ليهنَ لكم ما أصبحتم فيه مما أصبح الناس فيه، أقبلتِ الفتنُ كقطع الليل المظلم يتبع آخرها أولها، الآخرة شر من الأولى))
اس کے بعد حضور (ص) نے بہت دیر تک اہل بقیع کے لیے استغفار و طلب مغفرت کی۔ پھر حضور (ص) نے فرمایا : اے ابو موھبہ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجیاں اور اس دنیا میں ہمیشہ بقا عطا کی گئی ہے اور مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ یا تو میں اس کو قبول کر لوں یا پھر خدا کی ملاقات کو منتخب کر لوں اور ان کے بعد پھر جنت میں جاؤں۔ ابو موھبہ کہتا ہے کہ میں نے حضور (ص) سے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں آپ دنیا کے خزانوں کی چابیاں لے لیں اور اس دنیا میں ہمیشہ باقی رہیں اور پھر جنت میں چلے جائیں۔ تو حضور (ص) نے فرمایا: خدا کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا اے ابو موھبہ میں نے خدا کی ملاقات اور پھر جنت کو اختیار کر لیا ہے۔
اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واپس آئے اور بیمار ہو گئے اور اسی بیماری میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
حضرت عائشہ بيان كرتى ہيں كہ ايك رات رسول كريم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم باہر نكل گئے تو ميں نے بريرہ كو ان كے پيچھےروانہ كيا كہ ديكھے رسول كريم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم كہاں تشريف لے گئے ہيں؟
بريرہ نے واپس آ کر جواب دیا: "رسول كريم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم قبرستان بقيع الغرقد كى جانب تشريف لے گئے اور بقيع ميں كھڑے ہو كر ہاتھ اٹھائے"
جب صبح ہوئى تو ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم سے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول رات آپ كہاں نكل گئے تھے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: "مجھے اہل بقيع كے ليے دعا كرنے كےليے بھيجا گيا تھا"([17])۔
تحریر: سید عبداللہ عابدی،نجف اشرف عراق
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
[1]). المنجد في اللغة والإعلام ـص 9.
[2]) مرآة الحرمين ـالجزءالأولـص 425.
[3]) المنجد في اللغة والإعلام ـص 505.
[4]) تحفة الحرمين وسعادة الدارين ـص 226.
[5]) عمدة الأخبار في مدينة المختار ـص 48.
[6]) سوره مرسلات آيت 25
[7]) معجم البلدان ـالمجلدالثانيـص 253.
[8]) سابقہ مصدر ـص 254.
[9]) سابقہ مصدر ـص 254،أخبارالمدينةالمنورةـإبنشبةـص 306.
[10]) مكة والمدينة في الجاهلية وعهد الرسول، أحمد إبراهيم الشريف، دار الفكر العربي، مصر ـالطبعةالثانيةـص 366.
[11]) معجم البلاد والمواضع ـالجزءالأولـص 265.
[12]) دائرة المعارف الإسلامية ـص 350.
[13]) معجم أسماء البلاد والمواضع ـص 265.
[14]) لسان العرب: ج3 ص325 مادة غرقد.
[15]) الشيخ عبد العزيز بن باز (1330- 1420هـ) مفتي السعودية.
[16]) البقيع الغرقد، للشيرازي: ص25-26.
[17] ) سنن النسائي ، كتاب الجنائز ، باب الامر بالاستغفار للمؤمنين