تحریر: مولانا سید کرامت حسین جعفری
یادوں کا پہلا صفحہ : کانٹوں کی زمین پر چھاؤں کی امید
مدینہ کی سرزمین پر ایک خطہ ایسا بھی تھا جسے “بقیع الغرقد” کہا جاتا تھا۔ غرقد — کانٹے دار جھاڑیاں ، ویرانی کا استعارہ ، اور اجنبیت کا سا ماحول۔ ہوائیں رُکی ہوئی ہیں، فضا میں عجب سی سنجیدگی ہے، جیسے زمین کو کوئی راز چھپانا ہو۔
یہی وہ مقام ہے، بقیع
جہاں کبھی صرف کانٹے تھے۔ جھاڑیاں تھیں۔ “غرقد” کے بےرحم پودے، جو انسان کی راہ روکیں، اس کی سانس چھینیں۔
لیکن پھر… ایک ہستی آئی، رحمت کا پیام لائی، اور وہی زمین جو کانٹوں کا مسکن تھی، آج دعاؤں کا قبلہ بن گئی۔کسی کو گمان نہ تھا کہ یہی ویرانی ، ایک روز تقدیس کا تاج پہنے گی۔ یہ وہ دن تھے جب رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ، اور بقیع کی سمت قدم اٹھاتے۔ وہاں جا کر بیٹھتے ، اور فرماتے :
“اے بقیع والو، تم پر سلام ہو۔ اے مؤمنو! تم ہم سے پہلے چلے گئے ، ہم بھی تم سے آن ملیں گے”۔
اس روز بقیع نے تقدیس کی پہلی سانس لی۔
دوسرا باب : وہ پتھر جو نشانی تھا
یہ سن ۲ ہجری ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) مدینہ کے قبرستان میں تشریف لاتے ہیں ۔ ایک جنازہ ہے — عثمان بن مظعون کا۔
رسولؐ زمین پر جھکتے ہیں ، ایک پتھر اٹھاتے ہیں ، اور قبر پر رکھتے ہیں۔
پوچھا جاتا ہے : “یہ کیوں؟”
فرمایا: “اس سے قبر پہچانی جائے گی۔”
پہچان…!
ہائے ، کیسی عجیب بات ہے کہ اسی پہچان کو بعد میں مٹایا گیا۔
بنو امیہ کے ایک ہاتھ نے وہی پتھر اٹھا کر دوسری قبر پر رکھ دیا — اور ایک عہد کا آغاز ہوا :
قبروں سے نام مٹا دو ، تاکہ تاریخ بھی خاموش ہو جائے۔
تیسرا صفحہ : معصوموں کی آرامگاہ ، سنگِ بےنشان
آج آپ بقیع جائیں تو صرف پتھر نظر آتے ہیں۔
لیکن ان پتھروں کے نیچے خوابیدہ ہستیاں وہ ہیں جنہوں نے امت کو ھدایت ، علم ، زہد، شجاعت اور تقویٰ کا راستہ دکھایا۔
یہاں امام حسن ہیں ، جنہوں نے خلافت کو قربان کر کے امت کو بچایا۔
یہاں امام زین العابدینؑ ہیں، جن کے اشکوں میں کربلا کی شام قید ہے۔
یہاں امام محمد باقر ہیں ، جنہوں نے علم کے دروازے کھولے ، اور امام جعفر صادق ع جنہوں نے ہزاروں شاگردوں کو تیار کیا۔
اور شاید…
کہیں خاموشی سے ، پردۂ راز میں ، سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی یہیں ہوں۔
آپ کی قبرِ مبارک ایک راز ، ایک سوال ، ایک احتجاج — آج بھی اسی بقیع کے پردوں میں گم
جو چودہ سو سال سے امت کو سوال کر رہی ہیں :
“میری قبر کیوں چھپی ہے؟”
چوتھا موڑ : گنبدوں کا طلوع
ابن جبیر ، ابن بطوطہ ، اور قاجاری شہزادے جب بقیع آئے تو انہوں نے یہاں کیا دیکھا ؟
بلند و بالا گنبد ، سبز چادریں ، زائرین کے ہجوم ، اور اشکوں کے نذرانے۔
کسی نے فاطمہ بنت اسدؑ کی قبر دیکھی ، کسی نے مالک بن انس کا مزار ، کسی نے رسولؐ کی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ کی آخری آرام گاہ۔
یہ صرف قبریں نہ تھیں — یہ نشانیاں تھیں۔
تاریخ کے وہ چراغ ، جن سے وقت کی گلیاں روشن تھیں۔
پانچواں باب : انہدام کا طوفان
1221 ہجری، پھر 1344 ہجری۔
کہیں قاضی القضاء کا فتویٰ ، کہیں آل سعود کا فیصلہ ، اور کہیں خاموش علمائے مدینہ کی مجبوریاں۔
وہ پتھر ، وہ چادریں ، وہ گنبد — سب مٹی میں ملا دیے گئے۔
کہا گیا : “یہ شرک ہے!”
پوچھا گیا : “قبروں کے احترام کا کیا ؟”
خاموشی چھا گئی۔
بقیع گرتا رہا ، قبریں چیختی رہیں ، اور عالمِ اسلام — خاموش تماشائی!
چھٹا صفحہ : ہندوستان کی گلیوں سے کربلا کی صدا
جب بقیع کے گنبد گرے ، تو ایران میں شور اٹھا ، عراق میں علمائے دین نے ماتم کیا ، اور ہندوستان —
ہندوستان کے علما، زائر ، مومنین — سب بےچین۔
ایک وفد مکہ روانہ ہوا۔
ایک سوال لے کر :
“یہ اسلام کا کون سا چہرہ ہے ، جو اپنے نبیؐ کے اہل بیتؑ کی قبروں سے بھی خفا ہے ؟”
یاد رکھیں ، قبروں کا انہدام ، صرف پتھروں کا گرنا نہیں ہوتا — یہ دلوں کی شکست ہوتی ہے۔
آخری باب : آج کا بقیع — پرسش کا میدان
آج بقیع میں کوئی کتبہ نہیں۔
نہ امام حسنؑ کا نام ، نہ امامِ زین العابدینؑ کی پہچان ، نہ امام باقر و جعفرِ صادق ع کی شان۔
صرف زائر ہوتے ہیں جو دور سے — آنکھوں میں آنسوں بھرے ، دعاؤں میں ڈوبے ، خاموشی میں ڈھلے ۔
اور ہر دل یہی پکار رہا ہوتا ہے :
“اے زمین بقیع! تیرا سکوت چیخ رہا ہے ، تیرا سناٹا بول رہا ہے ، تیری مٹی سوال کر رہی ہے — ہم کب جاگیں گے ؟”
یہ بقیع کا سفر نہیں — ایک آئینہ ہے۔
جس میں ہم خود کو ، اپنی بے حسی کو ، اپنی تاریخ کو دیکھ سکتے ہیں۔
اور شاید …
ایک دن وہ آئے اگر ہم اس مٹی پر گنبدنہیں سجا سکتے تو کم از کم اشکوں سے ایک نیا چراغ جلا سکیں۔









آپ کا تبصرہ