۲۲ آذر ۱۴۰۳ |۱۰ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 12, 2024
قبرستان بقیع

حوزہ/ 8 شوال المکرم کی یہ تاریخ گردش لیل و نہار کے بعد جب بھی آتی ہے اپنے اندر ایک خاموش کربلا کا غم سمیٹے ہوتی ہے جہاں اہل شعور اور اہل ضمیر کی نگاہیں جھک جاتی ہیں جہاں اک سچا مسلمان ضمیر کی عدالت میں اپنی خاموشی کا مجرم گردانا جاتا ہے یہ تاریخ آل سفیان اور آل سعود کی دہشت گردی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| آٹھ شوال المکرم کی یہ تاریخ گردش لیل و نہار کے بعد جب بھی آتی ہے اپنے اندر ایک خاموش کربلا کا غم سمیٹے ہوتی ہے جہاں اہل شعور اور اہل ضمیر کی نگاہیں جھک جاتی ہیں جہاں اک سچا مسلمان ضمیر کی عدالت میں اپنی خاموشی کا مجرم گردانا جاتا ہے یہ تاریخ آل سفیان اور آل سعود کی دہشت گردی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے آل سعود کو آل رسول سے کس قدر عقیدت ہے اگر یہ دیکھنا ہے تو اک بار بقیع کی زیارت کا ارادہ ضرور کیجیے حقیقتیں جتنا قریب سے دیکھی جاتی ہیں یقین اتنا ہی محکم ہوتا ہے دوریاں فاصلے بڑھاتی ہیں قربتیں حقیقتیں دکھاتی ہیں جب شرف دیدار مکہ مکرمہ ہوا۔

کلک قلم از خود متحرک ہو گئی اور بقیع کی خاموشی کو رقم کرنے کا ارادہ کیا

حیرت و استعجاب قلم فکر کے قدموں میں زنجیریں ڈال رہا ہے بے چینی اور بے یقینی سی کیفیت ہے جو منظر نگاہوں نے دیکھا اسے خوابید گی کہوں یا خواب پریشاں روشنیوں کے شہزادوں کے شہر خاموشاں میں تاریکیوں کا بسیرا عظمتوں کے علاقوں میں ظلمتوں کی آندھیاں ایک زمانۂ کے بعد میری آنکھوں کی فاقہ شکنی ہوئی جب رزق زیارت کا آب زلال زمزم کے ساحل سے میسر ہوا جس شوق وصال سے میں بقیع کی جانب لپکا اسنے میرے وجود کو لرزہ بر اندام کردیا ایسا لگا جیسے آل سعود کے بے رحم ہاتھوں نے میرے شعور کی جھیل میں ایک نوکیلی مثل خنجر کوئی کنکری پھیک دی ہو جس نے میرے وجود کی تہ تک جاتے جاتے نہ جانے کتنے دایرے بنادیے مگر ہر دائیری شکل الگ الگ رنگ و آہنگ کے خیالات کی گولایی میں ڈھل رہی تھی سرمایہ فکر میں آگ لگی تھی ذہن آتش فشاں بنا تھا چشم مودت و عقیدت سے مسلسل اشکوں کی روانی تھی اور زیر لب بس یہی فقرے تھے

*واہ غربتاہ وا حسرتا ہ*

ہائے افسوس جن ذوات کے وجود کی برکت سے کائینات کو زیور وجود سے آراستہ و پیراستہ کیا گیا آج انہیں کی قبروں کے نشان تک کو بے نشان کردیا امام ع اور عوام کی قبر میں کوئی امتیاز نہیں رکھا گیا

مضراب فکر کے سازوں کو نہ چھیڑا جائے

میزان عدل کے تقاضوں کو نہ کھولا جائے

ایک طرف مسجد نبوی کی پر رونق فضا دوسری طرف بقیع کی سرحد پر امڈی ہوئی قضا جس کی چادر نے رسول اعظم ص کو رزق شفا عطا کیا ہو آج اسکی قبر مطہر کی زیارت کا رزق وفا گنہگاروں کو نصیب نہیں ہو رہا ہے عجب سناٹا عجب ویرانی صبح کی پہلی کرن مگر غم سے بوجھل میرا سراپا اور بارگاہ عالی وقار کونین کی شہزادی ام الآئمہ ام ابیھا انھیں کیسے اور کہاں تعزیت و تسلیت دوں کس نشان پر جاوں میری نگاہوں پر معصیت کے ضخیم پردے ہیں یا آل سعود کی عداوت کے چھلکتے ہویے جاموں کی حقیقت نے تربت کی غربت کا اظہار کیا ہے

شہزادہ صلح و آشتی ،امیر امن و امان ، حریم اہل ایمان ، نواسہ رسول ص، جگر گوشۂ بتول، جانشین مرتضی ع ، یعنی حضرت حسن ع سبز قبا کی قبر مطہر کا نشاں تک بھی باقی نہ رکھا اور

اسی طرح تحریک نینوا کے امین ، پاسبان قافلہ حسینی ، شہشاہ حریت، امیر انقلاب، فاتح کوفہ و شام ، جسکی زنجیروں کی آہٹ سے حکومتوں کے تخت و تاج لرزنے لگتے تھے جسکے لب و لہجہ کی سحر بیانی نے شام میں شام کے خوں آشام شب باشوں کی نیندیں حرام کردی تھی اس اسیر و قیدی امام کے جنازہ کو جس معتبر زمین عقیدت نے چھپایا افسوس صد افسوس کے اس خطہ مطہرہ کو بھی پردہ خفا میں ڈھکیل دیا گیا

اور اسی طرح باقر العلوم امام خامس حضرت محمد باقر علیہ السلام کے مزار مقدس کو بھی غیبت کے پردوں میں چھپا دیا اور ہمارے چھٹے آقا امام جعفر صادق علیہ السلام جو کبھی اسی مدینہ آمنہ میں مسند علم و فقاہت پر جلوہ افروز ہوتے تھے تو آپ کے لبوں سے نکلے ہویے ہر حرف ہر لفظ ہر جملہ اور ہر عبارت کو عقیدت و مودت ،تحقیق و جستجو، بصیرت و بصارت، شعور و آگہی علم و حلم ، کمال و جمال ، کی صورت نہارا جاتا تھا جو ایک وقت میں چار ہزار طلبہ میں رزق علم تقسیم کرتا تھا اس معلم و مفسر ادیب و طبیب و خطیب عظیم و باوقار کی قبر عالی وقار کو بھی خاموشی کے نہاں خانوں میں چھپا دیا گیا

مادر ابوالفضل العباس حضرت فاطمہ کلابیہ الملقب بام البنین جو مومنات الصالحات کی قدوہ اور رہبر زمان تھی جن سے آج بھی توسل باعث اجابت ہے جیسی عظیم ذات کی قبر مطہر بھی بے نشان کردی گئی اور بقیع الغرقد میں جتنی بھی معروف شخصیات کی قبریں تھیں سب سے عناوین محبت کو حذف کرکے اپنے لیے لعنت کے طوق کو حکومت وقت نے لازم کر لیا ہے

مقام حیرت یہ ہیکہ

یہ کیسی دو رخی ہے

یہ کیسی بے بسی ہے

یہ کیسی بیکسی ہے

یہ کیسی زبر دستی ہے

مسجد نبوی کے صحن میں خوبصورت مناروں کا ہجوم روشنیوں سے لبریز چھتریاں موسم کے اعتبارات کی منظر کشی کرتی ہوئی

مگر بقیع الغرقد میں اب نہ تو وہ غرقد یعنی

جھاڑیاں ہی جھاڑیاں ہیں

نہ سبزہ زاریاں ہیں نہ لہلہاتے ہوئی پھلواریاں ہیں

بلکہ صرف

ویرانیاں ہی ویرانیاں ہیں سونا پن ہی سونا پن ہے

صحن روشنیوں کے جھومروں سے جھوم رہا ہے مگر بقیع میں چراغاں بھی نہیں ہے صحن مسجد نمازیوں سے چھلکتا ہے مگر بقیع بوقت نماز تنہائیوں میں ڈوبا ہوتا ہے

مسجد کا داخلی اور خارجی حصہ چوبیس گھنٹہ کھلا رہتا ہے مگر بقیع کو صرف نماز عصر اور نماز صبح کے وقت ایک ساعت کے لیے کھولا جاتا ہے اسمیں بھی خیانت وقت دکھا کر عداوت عصر رواں کا اظہار کیا جاتا ہے جسمیں زائر صرف ایک طواف کی شکل میں گردش کرتا ہے صحن حرم میں آب زمزم کی سبیلیں ہیں مگر بقیع تشنگی کا صحرا بنا ہوا ہے مالک کوثر و تسنیم وجہ بقاء زمزم شیریں کے مزاروں کی سرحدوں پر عطاش علم و فکر کی حاضری ہے صحن مسجد میں خوبصورت دیدہ زیب سفید و سیاہ سنگ مرمر جبکہ اشرف خلایق کے مزاروں کی خاک کنکریوں اور پتھروں سے بھری ہوئی بیابانوں کی مانند نظر آرہی ہے صحن میں ہر طرف قطب مینار کے جیسے دیدہ زیب چھتریوں والے منارے اور کنگورے مگر قبروں پر رکھے ہویے آل سعود کی شکلوں کے جیسے کالے نوکیلے، پتھر سنگ اسود جسکی سلامی کو بڑھےان کے مزاروں پر ایسی بے رونقی کی ناکام کوششیں مگر جب صبح کی نماز کے بعد قافلہ مودت چلا ہے تو وہ منظر بھی دیکھنے کے لایق تھا کہ ہمارا ہر قدم باطل کے سینۂ پر ایک دستک دے رہا تھا جسکی صدایے بازگشت کسی دن ضرور حکومت کے کان‌ میں بہرا پن پیدا کریگی مگر لمحہ فکریہ ہے

اہل فکرو نظر، اہل شعور و بصیرت، اہل عدالت، اہل انصاف، کلمہ گویان رسالت ، با عنوان مسلمان ہی سہی بس اتنا بتاؤ کیا نبی ص کی بیٹی اور آل رسول کا یہی حق تھا جو آل سعود نے اس وقت دیا ہے ضمیر کی عدالت میں انصاف طلب کرو تو شعور کی شاہراہوں پر آل سعود کو سولی سے کم کی سزا اسلام سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے ہائے آل محمد کی مظلومیت دنیا نے نہ زمین پر چین سے رہنے دیا اور نہ زیر زمین ہی آرام کرنے دیا بلکہ عداوت میں آل سعود اپنے بھائی قابیل سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی

بہر حال مطلع الفجر کا مصداق کامل امید صبح صادق

*ألیس الصبچ بقریب* پر ایمان محکم ہی ہے جس نے صبر کو حد استقامت میں رکھا ہے ورنہ مودت کے تقاضے انقلاب اور شہادت کی داعی ہوتی ہے بس آخری وارث کے ظہور تک آل سعود و آل یہود ادھم مچا لیں پھر تیغ بے نیام ہوگی ہاتھ ید اللہ کا ہوگا اور انگلیوں کی گرفت ذوالفقار پر ہوگی اور گردنیں ظالموں کی مثل مولی گاجر کے ہونگی تو اسوقت عدالت عظمی کا صحیح فیصلہ ہوگا گنبد خضرا کا مالک فرط مسرت سے داد و تحسین دے رہا ہوگا جب جمال مصطفیٰ جلال مرتضی کمال مجتبی اور صبر حسینی کی تصویر میں حقیقتوں کی عکاسی ہوگی اب یہی دعا اور مدعا ہے بارگاہ رب العزت و القدرت میں کہ وارث رسول کے ظہور پر نور میں تعجیل ہو جایے تاکہ ظالموں کا خاتمہ ہو اور مظلوں کو سہارا ملے ہادی برحق کی حکومت میں بین الحرمین الشریفین تعمیر روضہ خیر النساء ام ابیہا لیلت القدر طاہرہ راضیہ مرضیہ بتول و عذراء حوراء الانسیہ اور آیمہ بقیع کی خاموشی پر عزاء کی گونج کا پرچم لہرایا جائیگا

آپ سبھی کو اس پر درد موقع پر تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں مزید اس دعا کے ساتھ کہ رب کریم دعاؤوں میں خصوصی اور حقیقی دعا ء یہ ہیکہ ہماری آنکھوں میں وارث بقیع کے دیدار کا سرمہ لگا دے تاکہ عصمتوں کی پاکیزہ بارگاہ کی تعمیر خود دست یداللہ سے ہو اور آل سعود کے نجس ہاتھوں اور مال و منال سے محفوظ رہے۔

آمین یا ربّ العٰلمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .