۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
News ID: 400781
20 جولائی 2024 - 11:59
شام غریباں

حوزہ / توکل علی اللہ کی اگر منزل حقیقت دیکھنی ہے تو ذات زینب عالی وقار کو دیکھو، جہاں صفات جلال و جمال علوی کا عکس عکیس دکھائی دیتا ہے، شجاعت حسنی کی امین، خطابت علوی کی رہین، فراست فاطمی کی ذہین، صلح حسن کی خوگر، تحفظ امامت، رکن رکین ایک شب میں میر کاروان حسینی بھی ہے اور ہر ذہن و قلب میں آنے والی صبح کی امنگیں بھی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی | یہ لفظ ذہن انسانی میں گردش کرتے ہی مظلومیت کی اک مکمل داستان اور غم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن ہوجاتا ہے عقل انسانی حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتی ہے تاریخ کے سنہرے اوراق پر جب صبر کی تفسیر سینۂ نینوا پر اک ہوک بن کے لکھی جاتی ہے اس عبارت کی حقیقت کو خون جگر سے تحریر کیا جانا چاہیے۔ جب منبر سلونی کی دختر نیک اختر جلے ہوئے خیموں کی قناتوں پر بیٹھ کر نماز شب ادا کررہی تھی۔

جس کے احترام میں اس وقت پوری کاینات کھڑی تھی مگر غموں اندوہ کے بوجھ نے اسے بیٹھا دیا تھا چاروں طرف سے جبر و استبداد نے گھیر لیا تھا مگر وہ صبر کی ریگزار گرم پر بیٹھ کر حوصلوں کی معراج کا سفر کر رہی تھی۔

ہجرت ، معراج ، اور عاشور کی شبیں اس شب غریباں کا طواف کر رہی تھی تینوں شبیں چوتھی شب کے عروج کو داد سخن دے رہی تھیں کیونکہ اسی شب نے ہر شب کی آبرو رکھی ہے انکے دامن فضیلت میں سمٹے ہویے مناقب کی عظمت کا احساس کبھی گوشۂ احساس سے نہ ٹکراتا اگر عقیلہ بنی ہاشم اس شب میں انقلاب کی ہجرت کو معراج پر نہ پہونچا دیتی تو مدینہ کی ہجرت معراج حسینی سے وابستہ ہے مگر شام غریباں کی گزرتی ہوئی شب بقاء شریعت کی ترجمان ہے

اس شب کی خاموشی میں ہزاروں طوفانوں کی طغیانی بھی اور ان گنت تکلمات کا جوہر بھی یہ رات اپنے دامن دراز میں صبر کا سرمہ۔ لگایے ہے تو کبھی لگتا ہے ضبط کا کاجل چشم شب میں ظلمتوں کا پتہ دے رہا ہے مگر عقیلہ بنی ہاشم کے ارادوں کی صلابت چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور مستحکم نظر آرہی تھی یوں تو شہزادی اس شب میں فانوس حقیقت بن کر شمع امامت کی حفاظت میں تھی مگر شعور کی شاہراہوں پر ضمیروں کی عدالتوں میں انصاف کے دیپ روشن کر رہی تھی کس میں دم ہے جو فکر زینب کے زایچہ کھینچ سکے طایر تخیل پرواز سے عاجز نظر آتا ہے صرف فکر معصوم ہی سرحد فکر شام غریباں کا ادراک کر سکتی ہے شہزادی علیا مقام تصویر استقامت میں تاثیر صبر کے پیمانہ ناپ رہی ہے تین شبانہ روز کے بھوکے پیاسے بچے جن کے ماتھے پر اب داغ یتیمی بھی لگ چکا ہے دامن میں آگ کے شعلوں کی لپکوں کا احساس بھی کروٹیں لے رہا ہے نفس مطمئنہ کی چھوڑی کوئی میراث اطمینان کی باریک ڈگر پر بالیقین کھڑے ہیں یتیمان آل رسول ایک عہد نو لکھا جا رہا ہے یزیدیت کے سپاہی جیت کے جشن میں شراب کے نشہ میں دھت پڑے ہیں۔

انہیں کیا معلوم کہ عصمت کی میر کارواں خیمہ کی جلی ہوئی لکڑیوں کی راکھ پر خاک شفا کی عظمت کو دنیا کے گوشۂ گوشۂ میں پھیلانے کی منصوبہ سازی کر رہی ہے۔ تسبیح زہرا کے دانوں سے تقدیر شریعت کی الجھی کوئی زلفوں کو سلجھا رہی ہے بیواؤں یتیموں غریبوں مظلوموں بیکسوں کی تمامتر آس و آسرا اب زینب علیا مقام کے علاوہ کوئی نہیں ہے جس طرح امام وقت کی غشی پر نظر جاتی ہے تو لگتا ہے کہ ذریت ابراہیم اور نسل اسماعیل کی پاسبانی بھی اسی بی بی کے دست مقدس میں جس سے وہ اک تاریخ لکھ رہی ہے اسکے ہاتھوں میں قلم نہیں ہے مگر عباس کے قلم شدہ شانوں کی طاقت ہے اسکے پاس سینۂ تاریخ کا کوئی صفحہ نہیں ہے مگر علی اکبر کے اس سینۂ کا حوصلہ ہے جس نے نیزے کی انی کو توڑ دیا تھا تاریخ کے پراگندہ اوراق کو اب ایسے ہی سمیٹنا تھا جیسے غریب زہرا نے بکھرے ہویے لاشہ قاسم کو جمع کیا اس بی بی کے حوصلوں کے حصار میں امامت کا انحصار ہے کسی کے پاس وہ فکری سرمایہ ہے ہی نہیں جسے جمع کرکے وہ زینب علیا کی حکمت کاملہ۔ کا ادراک بسیطہ بھی کر سکے چشم فلک جھک جھک کر جسے سلام کرے دشت ارض نینوا کی خاک جسکی قدم بوسی کرے ریگستانوں کے بگولوں میں جھومتی ہوءی دایری کیفیت شہزادی کا طواف کر رہی تھی ایک بیبی نہ جانے اپنے کتنے ارمانوں کی چتا پر کھڑی ہوکر حسرتوں کے جنازے نکلتے دیکھ رہی تھی آرزوؤں کے لاشے تڑپ رہے تھے مگر قلب زینب کا اطمینان *ارجعی الی ربک* کی تفسیر حقیقت و مصداقیت کا لباس فاخرہ۔ زیب تن کر رہی تھی۔ فادخلی فی عبادی کی فاء فوریت جزایے حقیقت کی جانب عجلت و سرعت کا اشارہ کر رہی تھی۔

زینب زینت پدر زمیں کربلا پر بیٹھ کر ضمیر ادمیت کو ٹہوکے دے رہی تھی کون جانتا ہے کی اس بھیانک شب کی خاموشی کو حرف تکلم زینب نے دیا۔ رنج و الم میں ڈوبی ہوئی شہزادی آنکھوں کو نم کرتی ہے مگر صبر کا سرمہ بہنے نہیں دیتی بھوک پیاس نے بشریت کے تقاضے نے چہرہ پر اضمحلال تو طاری کیا ہے مگر پیشانی کی وسعتوں میں جو حوصلوں کی شکن ہے جس نے ظلم و جور کے ہر بت کی بت شکنی کی ہے

توکل علی اللہ کی اگر منزل حقیقت دیکھنی ہے تو ذات زینب عالی وقار کو دیکھو، جہاں صفات جلال و جمال علوی کا عکس عکیس دکھائی دیتا ہے، شجاعت حسنی کی امین، خطابت علوی کی رہین، فراست فاطمی کی ذہین، صلح حسن کی خوگر، تحفظ امامت، رکن رکین ایک شب میں میر کاروان حسینی بھی ہے اور ہر ذہن و قلب میں آنے والی صبح کی امنگیں بھی ہیں۔

نماز شب کی گیارہ رکعتوں کے بعد گیارہ محرم کی صبح صادق نوید یوم زینبی لیکر آئی ہے جس دن ایک نیا عہد نیا دور نیا زمانۂ دست زینب کے ہاتھوں سنوارا اور نکھارا جائیگا۔ شریعت محمدی کی بقاء میں حسین ابن علی کی شہادت کی سرخی کو ریگ زار کربلا سے نچوڑ کر شفق کے ماتھے پہ سجانے جانے کا دن یوم زینب ہے عزم مصمم کا آءینہ دار ہے زینب علیا مقام کی ذات عالی وقار

رب لم یزل ہماری عبادات و طاعات کو قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .