۲۴ آذر ۱۴۰۳ |۱۲ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 14, 2024
مولانا گلزار جعفری

حوزہ/ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس دار دنیا میں بعد از کربلا جتنی بھی جہاں بھی کوئی تحریک حق جنم لیتی ہے، اس کے کاسۂ شعور میں کربلا کی خیرات ہوتی ہے، اسلیے کہ یہ سانحہ ضمیر آدمیت کی دھڑکنوں میں دھڑک رہا ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس دار دنیا میں بعد از کربلا جتنی بھی جہاں بھی کوئی تحریک حق جنم لیتی ہے، اس کے کاسۂ شعور میں کربلا کی خیرات ہوتی ہے، اسلیے کہ یہ سانحہ ضمیر آدمیت کی دھڑکنوں میں دھڑک رہا ہے۔

حریت پسند قلم و زبان اگر خلاف ظلم بے خوف و خطر بولتی یا لکھتی ہے تو اسکے حوصلوں کی اڑانوں میں جو قوت پرواز بھری ہوتی ہے وہ ارض نینوا کی عطا ہوتی ہے کسی جوان میں جذبہ شہادت کی امنگ پیدا ہی نہ ہو تی اگر ہم شکل پیغمبر کی بھرپور جوانی کی شہادت مشعل راہ نہ ہوتی۔

کوئی بھی غازی و مجاہد میدان میں ہنسی خوشی قدم زن نہ ہوتا اگر کربلا کے ششماہے نے تبسم کا صدقہ اتار کر امت کے کاسہ طلب میں نہ رکھا ہوتا۔

کوئی بہادر موت کی شیرنی کو محسوس نہ کرتا اگر ریگزار گرم نینوا پر شہزادہ صلح کا وارث تکلم کے جوہر بکھیر کر موت کو *احلی من العسل۔ موت میرے نزدیک شہد سے زیادہ شیریں ہے، نہ کہتا مقام افسوس ہے کہ پوری دنیا کے اردو دا‌ں طبقہ کے شیعوں کی زبان سے نکلا ہو یہ نعرہ حسین زندہ باد یزید مردہ باد سے کسی ذاکر بلکہ نوکر کو سیاست کی بو آتی ہے، جبکہ ہندو پاک کے ہر علاقہ میں یہ نعرہ گونج رہا ہے بلکہ ایشیائی ممالک سے بر اعظموں تک اسکی گونج سناءی دے رہی ہے تو یہ کونسی اور کہاں کی اور کس قسم کی سیاست ہے جسے ایک قابل ذاکر کی قوت شامہ محسوس کر رہی ہے البتہ کبھی کبھی کچھ امراض ایسے ہوتے ہیں جنکی وجہ سے آنکھ رنگوں میں فرق نہیں کرتی اور ناک سونگھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی خدا کرے کے ذاکر کو اس مرض سے جلدی افاقہ ہو جایے ورنہ شہرت طلبی کی یہ ہوس دنیا و اخرت سب کو غارت کر دیگی حامیان قلم نہ اٹھاءیں دست دعا بلند کریں۔

کربلا ہمارا فکری سرمایہ ہے بلکہ ہر صاحب فکر کے لیے محور و مرکز ہے کربلا نے لمحوں میں وہ چراغ روشن کئے ہیں جو صدیوں کو اجالے بانٹنے کے لایق ہیں۔

اس وادی بے آب و گیاہ نے لمحوں کی انگلیاں تھام کر صدیوں کو جینا سکھایا ہے یہاں کے مجاہدوں نے اپنی کتاب حیات کے آخری ورق پر لکھے ہویے لفظ موت کو قوت صبر سے کھرچ کر پھینک دیا ہے اور یہ درس حیات آج ہر انقلابی کی نگاہوں کے سامنے ہے۔

اگر آج فلسطین کا نو جوان بے خوف و خطر بدون دہشت و وحشت سرزمین صبر پر استقامت کے ساتھ صراط حق پہ ڈٹا ہوا ہے تو یقین جانیے یہ سبق خیبر کے بھگوڑوں کی نسلوں نے نہیں پڑھایا ہے خیبر شکن کی اولاد نرینہ کے جبین اقدس سے اتارے ہویے صدقہ کے گوہر آبدار ہیں جس نے کاسہ شعور کو اس طرح لبریز کیا اب شوق شہادت کے جزبہ جوان ہونے لگے۔

ظلم و جبر کی نیندیں حرام ہونے لگیں ہر دور کے ظالم کو ایوان سلطنت میں ایک قیدی کی جھنکار سنائی دیتی ہے اور وہ تڑپ جاتا ہے پھر سگ صفت تلوے چاٹنے والے نوکروں اور خطیبوں کو خرید کر مقاصد کربلا کو موڑ نے کے لیے دولت کے دہانے کھولے جاتے ہیں تاکہ کربلایی شعور اپنا اثر نہ دیکھا دے کربلا کو چند رسموں کے بندھن میں باندھ کر اس سے پھیلنے والی علم و آگہی نہضت و انقلاب کی روشنی کو قید کرنا کسی شریف آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی مگر یہ کہ شیطان و ابلیس نے اپنے دام فریب میں الجھا کر وقت کا پسر سعد بنا دیا ہو کربلا وہ حرارت ایمانی ہے جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہو سکتی ظلم اور ظالم سے نفرت اس سرزمین کا پہلا سبق ہے جسے فراموشی کے نہاں خانوں میں سجایا نہیں جا سکتا۔

پارا چنار

دشمن جانتا ہے کہ ملت تشیع کے عزائم کو مٹانا ممکن نہیں ہے انکے اتحاد محبت کو پارہ پارہ نہیں کیا جا سکتا اسلیے وہ طرح طرح کے مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے مگر ہندہ کی نسلیں یہ بھول جاتی ہیں کہ حمزہ کے بیٹے اسی جگر کی پختگی کے مالک ہیں۔

آل سفیان یہ بھول جاتی ہیں کہ آل عمران کی نسلیں کبھی قربانی و شہادت سے پیچھے نہیں رہی ہیں۔

سفیان و ہندہ کی نسلیں جتنی حرکتیں کریں گی اپنے باپ دادا کی سیرت کو اجاگر کریں گی۔

ہم نے ایک ایمبولینس کی تصویر دیکھی جسمیں پارا چنار کے مظلوموں کی لاشیں تھیں اور اسکے چاروں طرف پتھر بکھرے ہویے تھے اس منظر کو دیکھ کر ہمیں ایک اور منظر یاد آگیا جب نواسہ رسول ص کو قبر رسول ص کے قریب دفنانے کے لیے لایا گیا تو ایک ملعونہ نے راستہ روکا اور رسول ص کے بیٹے کے جنازے پر تیراندازی کی گئی خدا کا شکر ہیکہ اس نے اس ظالمہ ملعونہ کو ماں نہیں بنایا مگر پھر بھی اسکی روایتی اولادوں کی یہ حرکتیں دیکھ کر سمجھ میں آجانا چاھیے کہ شجرے اپنا اپنا اثر ضرور دیکھاتے ہیں شاید یہی وجہ ہے جو کہتے ہیں کی ببول کے درخت پر گلاب کے پھول نہیں کھلتے۔

شجر سے شجروں کی تشبیہ کو قبول کر لیا جایے تو نسل سفیان و ہندہ سے وہی توقع کی جا سکتی ہے جو پارا چنار میں ہو رہا ہے جسے زمین کا تنازعہ کہہ کر نام نہاد مسلمان شیعوں کے قتل عام کو ضمیر کی جنگ کے بجایے زمین کی جنگ گردان رہے ہیں جبکہ زمین کی آڑ میں دین اور ضمیر کی یہ جنگ ہے جسمیں فتح یقینا دین اور ضمیر کی ہوگی چونکہ لڑنے والے حسینی مزاج اور دوسری طرف یزیدی مزاج کے لوگ ہیں اور امام حسین ع نے روز اول یہ اعلان کردیا تھا کہ ”مثلی لا یبایع مثلہ“ مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا اب عقلی گدوں سے یزیدیت کا پرتیشت نکالنا میری عقل سے پرے ہے یزیدیت یزیدیت ہے اسکا پرتیشت نہ آل سعود ہے نہ آل یہود ہے نہ صیہونی ہیں نہ تکفیری، بس یہ سب کے سب نسل یزید سے ہیں جن کے خلاف کھڑا ہونا ہر حسینی مزاج رکھنے والے کی ذمہ داری ہے مگر افسوس یہ ہیکہ اس آفاقی پیغام میں بھی اب لوگوں کو سند سمجھ میں نہیں آرہی ہے واضح متن کے بعد سند میں شبہ ایجاد کرنا نوکر کے علمی اسناد کو مشکوک بنا دیتا ہے پارا چنار کے غازیوں اور مجاہدوں اور شہیدوں پر ہمارا سلام انکے جزبوں انکے حوصلوں انکے مضبوط ارادوں اور انکے ایمان و ایقان پر ہمارا سلام رب کریم ان کو ہر محاذ صبر و شجاعت پر کامیابی عطا فرمایے ظالمین قاتلین کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

شہدائے پارہ چنار کے لیے سورۂ فاتحہ کی گزارش ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .