تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| واقعہ کربلا کے بعد ہر امام معصوم نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور ان کے تذکرے پر خصوصی توجہ اور تاکید فرمائی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کسی بھی زمان و مکان میں تعطیل نہ ہو اور اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کی تشویق و ترغیب فرمائی۔
امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا دور امامت چار ظالم عباسی حکام منصور، مہدی، ہادی اور ہارون رشید کے زمانے میں تھا، اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے زیادہ ظالم و جابر تھا۔
اس زمانے میں اہل بیت علیہم السلام اور ان کے چاہنے والوں کے لئے ظالم عباسی حکمرانوں نے عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، خود امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے تقریبا 14 برس سخت ترین قید خانوں میں بسر کئے اور قید خانے میں آپ کی مظلومانہ شہادت ہوئی۔ جیسا کہ مرزا دبیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
مولا پہ انتہائے اسیری گزر گئی
زندان میں جوانی و پیری گزر گئی
منصور دوانقی ملعون نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو زہر دلایا اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ مدینہ منورہ کے حاکم کو خط لکھ کر پوچھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے کسے اپنا وصی مقرر کیا ہے تاکہ اسے بھی قتل کر دیا جائے، جب امام جعفر صادق علیہ السلام کا وصیت نامہ دیکھا گیا تو اس میں پانچ لوگوں کے نام وصیت تھی جس میں سے ایک خود منصور دوانقی، دوسرے اس کا مدینہ میں گورنر، تیسرے عبداللہ افطح، چوتھے جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا اور پانچویں امام موسی کاظم علیہ السلام تھے۔ جب وہ وصیت کے مضمون سے واقف ہوا تو حیرت میں پڑ گیا کہ اگر وصی کو قتل کرنا ہے تو پہلے خود اپنا قتل کرانا ہوگا اور اپنے گورنر کو قتل کرانا ہوگا۔ لہذا وہ اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹ گیا۔
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (اور انہوں (یہودیوں) نے (عیسٰی علیہ السّلام سے) مکاری کی تو اللہ نے بھی جوابی تدبیر کی اور خدا بہترین تدبیر کرنے والا ہے. سورہ آل عمران، آیت 54)
منصور دوانقی ملعون پہلا شخص ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پر حملہ کیا اور اسے منہدم کیا، البتہ اس کے بعد مہدی عباسی کے زمانے میں شیعوں نے دوبارہ امام حسین علیہ السلام کے مرقد مطہر کو تعمیر کیا۔
جب ہارون رشید ملعون حاکم ہوا تو اس نے امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کے قریب بیری کے درخت کو جڑ سے اکھڑوا دیا جو قبر مبارک پر سایہ کئے ہوئے تھا، نیز وہاں ہل چلوایا۔ (تاریخ کربلا، صفحہ 143)
روایت میں یہ واقعہ "بیری کے درخت کے قصہ" کے عنوان سے بیان ہوا ہے، جناب شیخ طوسی رضوان اللہ تعالی علیہ نے یحیی بن مغیرہ رازی سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا: میں جریر بن عبدالحمید کے پاس تھا کہ وہاں عراق سے ایک شخص آیا تو جریر نے اس سے عراق کے حالات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا: جب میں ہارون رشید کے پاس سے نکلا تو وہ امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کے سلسلہ میں بہت پریشان تھا اور اس نے حکم دیا کہ اس درخت کو کاٹ دیا جائے لہذا بیری کا وہ درخت جو امام مظلوم کی قبر مبارک پر سایہ فگن تھا وہ کاٹ دیا گیا، یہ سننا تھا کہ جریر نے اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور کہا: اللہ اکبر، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی حدیث سنی تھی کہ آپ نے تین بار فرمایا: "خدایا! بیری کے درخت کو کاٹنے والے پر لعنت کر۔" میں اس حدیث کا مفہوم اب تک نہیں سمجھا تھا لیکن اب معلوم ہو گیا کہ ہارون کا بیری کے درخت کو کاٹنے کا مقصد امام حسین علیہ السلام کی شہادت گاہ اور قبر مبارک کی جگہ کو تبدیل کرنا ہے تاکہ لوگ آپ کی قبر کی زیارت نہ کر سکیں۔ (امالی شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ، صفحہ 206)
بیری کا یہ درخت بنی امیہ کی حکومت کے زمانے میں قبر مبارک پر سایہ فگن تھا اور یہ زائرین کے لئے رہنما تھا، جیسا کہ آج بھی روضہ مبارک کے شمالی دروازہ کو باب سدرہ اسی عنوان سے کہتے ہیں۔
لیکن منصور و ہارون جیسے ظالم و ستمگر کے دور حکومت میں امام موسی کاظم علیہ السلام نے چاہنے والوں کو زیارت کی ترغیب فرمائی۔
امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا: فرات کے کنارے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے والے کو سب سے کم اجر یہ ملتا ہے کہ اس کے تمام پچھلے اور اگلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ آپ کے حق، ولایت اور حرمت کو پہچانتا ہو۔ (مستدرک الوسائل، جلد 10، صفحہ 236)
امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا: میری قبر کی مٹی میں سے برکت کے لئے کچھ نہ لینا، کیونکہ میرے جد امام حسین علیہ السلام کی خاک قبر کے علاوہ کسی اور مٹی کا کھانا حرام ہے، خداوند عالم نے صرف خاک شفا میں ہمارے شیعوں اور چاہنے والوں کے لئے شفا رکھی ہے۔ (جامع الاحادیث الشیعہ، جلد 12، صفحہ 533)
امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہی فرمایا: ہمارے شیعہ چار چیزوں سے بے نیاز نہیں ہیں۔ جانماز جس پر نماز پڑھتے ہیں، وہ انگوٹھی جو پہنتے ہیں، وہ مسواک جس سے دانت صاف کرتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی مٹی سے بنی ہوئی تسبیح۔ (تہذیب الاحکام، جلد 6، صفحہ 75)
امام موسی کاظم علیہ السلام نے جہاں اپنے شیعوں کو امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کا حکم دیا اور اس کی تاکید فرمائی وہیں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور مظلوم کربلا کی یاد اور تذکرہ پر بھی خاص تاکید فرمائی ہے۔
شیخ صدوق رضوان اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: محرم وہ مہینہ ہے جس میں دور جاہلیت کے لوگ جنگ کو حرام سمجھتے تھے لیکن اس مہینہ میں ہمارا خون مباح سمجھا گیا اور ہماری حرمت کو پامال کیا گیا، ہمارے فرزندوں اور خواتین کو اسیر کیا گیا، ہمارے خیموں میں آگ لگائی گئی اور ہمارے مال کو لوٹا گیا اور ہمارے سلسلہ میں حرمت پیغمبر کا خیال نہیں کیا گیا، امام حسین علیہ السلام کے یوم شہادت نے ہماری انکھوں کو زخمی کر دیا، ہمارے اشکوں کو جاری کر دیا، زمین کربلا پر ہمارے عزیزوں کی بے حرمتی کی گئی اور قیامت تک ہمارے لئے رنج و غم باقی رہ گیا۔ اس کے بعد فرمایا: میرے والد (امام موسٰی کاظم علیہ السلام) جب بھی محرم کا چاند نمودار ہوتا تو کوئی انہیں ہنستا ہوا نہیں دیکھتا، غم و الم ان پر غالب ہوتا یہاں تک کہ 10 دن گزر جاتے، روز عاشورا ان کے لئے رنج و مصیبت اور گریہ کا دن تھا اور فرماتے تھے یہ وہ دن ہے جس دن امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے۔ (امالی شیخ صدوق رحمۃ اللّٰہ علیہ، صفحہ 111)