تحریر: سیدہ درنجف
حوزہ نیوز ایجنسی | انسانی تاریخ کا آغاز حضرت آدم ؑ سے ہوتا ہے۔ خداوندِ عالم انسان کو اشرف المخلوقات اور اپنا نائب کہتا ہے ۔ اس پر ملائکہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ خدایا :ہم تیری ہی تسبیح و تقدیس بیان کرتے ہیں؛ پس ہم تیرے نائب کیوں نہیں ہوسکتے ؟
فرشتوں نے جناب آدم کی خلقت کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہا: کیا تو ایسے کو نائب بنارہا ہےجو زمین میں فساد بپا کرے گا؟
خداوند عالم جواب میں فرماتا ہے: "جو میں جانتا ہوں ،وہ تم نہیں جانتے۔"
فرشتوں نے انسان کی صرف خونخواری والا پہلو دیکھا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ انھی انسانوں میں سے کچھ ایسے برگزیدہ بندے بھی ہوں گے جو ملائکہ سے بھی افضل ہوں گے ۔ انھی لوگوں کو خدا نے اپنا نائب اور جانشین کہا ہے ۔ یہی وہ لوگ تھے ، جو تمام صفات حسنہ کے مالک ہوئے ۔ یہی خدا کے پیغمبر کہلائے ، انھی سے خدا نے بشریت کی تکمیل کا ساماں کیا اور انھی کے ذریعے حق کو باطل سے جدا کیا۔
حضرت آدم اکیلے زمین پر نہیں آئے ۔ ابلیس نامی شیطان بھی زمین پر اترا ۔ وہ تکبر کے باعث راندۂ درگاہ ہوا تھا۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ خدا کے بندوں کو گمراہ کرے گا ۔جب پروردگار نے اس کی یہ گستاخی دیکھی تو فرمایا:ایسا ہر گز نہیں ہوگا ۔تو میرے صالح بندوں کو گمراہ نہیں کر پائے گا ۔ جو تیرا اتباع کرے گا میں اس کو بھی تیرے ساتھ جہنم میں ڈال دوں گا۔
یہ کلام ہر اس واقعے کا عکاس ہے جو حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے کلیدی حیثیت اختیار کر جائے ۔
کربلا نام ہے اس کلید کا جو نہ صرف حق اور باطل میں تمیز کر دیتی ہے بلکہ ساتھ ہی حق کو آفتاب کی طرح روشن تر بھی کر دیتی ہے۔
کربلا افکار کی اصلاح کردیتی ہے۔ تعجب کی بات ہےکہ آج بھی باطل چہرے بدل ، بدل کر ہمارے درمیان آ موجود ہوتا ہے ۔
کربلا اگرچہ ایک بار وقوع پذیر ہوئی لیکن وہ جس فکر میں اترتی ہے اسے ایسی قوت بخش دیتی ہے کہ باطل کو پچھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔
آج اقصی پر حملے ہورہے ہیں ۔آج غزہ کے مظلوم اور نہتے عوام کو گولیوں اور میزائیلوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن امت مسلمہ جو امتِ وسط کہلاتی ہے بے حسی کے سمندر میں غرق ہے۔ امت مسلمہ کو ایک جسم کی طرح ہونیاچاہئے تھا کہ اگر کوئی عضو تکلیف میں مبتلا ہوتو پورا جسم لرزہ بر اندام ہو جائے لیکن کاش کہ اس کے بر عکس امت مسلمہ خاموش نظر آتی ہے۔
اس کے بر عکس جس مومن کی فکر میں کر بلا بستی ہو ، وہی یہ جملے ادا کر سکتا ہے :"مسجد اقصی کا راستہ کربلا سے ہو کر جاتا ہے۔"
اگر ہم حادثۂ کربلا کا سیاسی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وہ اسلام جو پیامبر خدا ﷺ لے کر آئے تھے وہ عصر حسینی میں کس قدر بدل چکا تھا۔ حکمران طبقہ اور ان کے اعزا و اقربا بیت المال سے کھیل رہے تھے۔ مظلوموں اور حقداروں کو کچھ ملتاہی نہیں تھا۔ منبروں سے حق گوئی کی بجائے یاوہ گوئی ہوتی تھی۔ حاکمانِ وقت شرابی ، زانی ، قمار باز ہوتے تھے اور شریعت کی پابندی نہیں کرتے تھے۔
ایسے میں جو حق کو جانتے تھے ، وہ خاموش رہنے پر مجبور تھے۔اگر بولتے تو ان سے قید خانے بھر دیے جاتے تھے۔
حد تو یہ تھی کہ قضاوت کرنے والے ظالم حکمرانوں کے خلاف بولنے کی بجائے ان ظالموں کے حق میں بولتے تھے۔
ایسے میں دیکھا جائے ،تو اسلام کی صرف ظاہری صورت باقی تھی جبکہ معاشرے کا باطن زمانہ جاہلیت کی سی کیفیت رکھتا تھا۔
ان ناگفتہ بہ حالات میں محمد عربی ﷺ کے فرزند دلبند اور جگر گوشہ بتول حسین ابن علی ؑ آواز حق بلند کرتے ہیں اور ایک ایسا نعرہ بلند کرتے ہیں جو قیامت تک باطل کے سینے کو چھلنی کر کے رکھ دیتا ہے۔جب آپ سے بیعت کا مطالبہ ہوتا ہے تو فرماتے ہیں:
" نہیں!مجھ جیسا ، یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ۔ "
آپؑ نے یہ بات واضح کر دی کہ جب بھی اور جہاں بھی کوئی یزید ہو گا اس کے مقابلے میں مجھ حسین جیسی فکر رکھنے والا کوئی حق گو بھی ضرور موجود ہو گا ۔ حقیقت بھی یہی ہے۔
آل یہود نے فلسطین پر جو جنگ مسلط کی ہے وہ ایک ناجائز جنگ ہے ۔ یہ ایک ناحق اور باطل تجاوز ہے ۔ان سنگین حالات میں صرف حزب اللہ اور ایران ہی ہیں جو طاغوتی تجاوز کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔یقیناً حسین ؑ کی فکر اور آپ کے عزم کی خوبصورت تصویر صرف ایران اور عاشقان حسینی ہی پیش کر رہے ہیں ۔ باقی مسلمان ممالک سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
یہ تھا کربلا کا سیاسی جائزہ ۔ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور ہماری عزت ہے جس پر آل یہود شب و روز حملہ آور ہے۔ ایسے میں امت مسلمہ کا خاموش تماشائی بن کے بیٹھنا باطل کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
اس قسم کی صورتحال میں کربلا ہمیں یہ منشور دیتی ہے کہ خاموش نہ بیٹھو، اٹھو ، جب بات حد سے بڑھ جائے تو آواز اٹھاؤ تاکہ تم ظالم کا ساتھی قرار نہ پاؤ کیونکہ ہر دور کے کربلا میں خاموش بیٹھے رہنے والے بھی گناہگار ہیں ۔عصرِ کربلا میں لوگوں کا بیٹھا رہنا ہی باطل کی تقویت کا سبب بنا جس کے نتیجے میں حق کو کمزور کر دیا گیا ۔
اگر ڈیڑھ ارب مسلمان سچ مچ مسلمان ہیں تو اقصی پکار رہی ہے۔ اس کی آواز پر لبیک کہنے والے کہاں ہیں؟ کیوں دیر کر رہے ہیں؟ کر بلا اگر ایثار کا نام ہے تو اقصی بھی ایثار مانگ رہی ہے ۔ وہ ایسے جانباز مانگ رہی ہے جنھوں نے کربلا میں حسین بن فاطمہ کا ساتھ دے کر اسلام کو زندہ کیا تھا۔
گویا اقصی امتحان لے رہی ہے مسلمانوں کا۔کیا آبرو مند ، باحیا ، جری اور اللہ کا خوف رکھنے والے زندہ بھی ہیں کہ نہیں؟
آج کی کربلا غزہ ہے۔ کربلا امتحان تھی اس وقت کے مسلمانوں کا ۔ لیکن افسوس کہ جس طرح کربلا میں لبیک کہنے والے کم ہی تھے اسی طرح آج بھی اقصی کی آواز پر لبیک کہنے والے کم ہی ہیں۔
آج ہمیں قرآن کی ایک آیت یاد آرہی ہے۔ اللہ نے جنگ کے ذریعے مسلمانوں کو آزما کر فرمایا تھا :"کیا تم نے اسلام قبول کر کے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اتنا ہی کافی ہے؟ نہیں !ابھی تو تمہیں مزید آزمایا جائے گا اور زور زور سے ہلایا جائے گا۔"(سورۂ احزاب آیت۱۱)
خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کربلا کو سمجھنے کی توفیق دے! اقصٰی کو اسرائیلیوں سے نجات عطا فرمائے اور مسلمانوں کو متحد کرے۔
یاد رہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ خصلتیں وہی ہیں، بس منظر اور چہرے بدل گئے ہیں۔