۲۶ شهریور ۱۴۰۳ |۱۲ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 16, 2024
News ID: 401912
31 اگست 2024 - 04:06
حدیث قرطاس

حوزہ/ انسان اپنی زندگی میں کبھی کبھی ایسے صدمات سے گزرتا ہے کہ نہ فقط اس صدمے کو یاد کر کے غمگین و افسردہ ہوتا ہے بلکہ صدمے کے وقت و مقام سن کر بھی اسے شدید تکلیف پہنچتی ہے اور یہ صدمہ تاحیات اسے رلاتا ہے۔

سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| انسان اپنی زندگی میں کبھی کبھی ایسے صدمات سے گزرتا ہے کہ نہ فقط اس صدمے کو یاد کر کے غمگین و افسردہ ہوتا ہے بلکہ صدمے کے وقت و مقام سن کر بھی اسے شدید تکلیف پہنچتی ہے اور یہ صدمہ تاحیات اسے رلاتا ہے۔

ابتدائے بعثت خاص طور سے شعب ابوطالب میں مسلمانوں کی مشکلات و پریشانی کی یاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رنجیدہ کر دیتی، بدر و احد و تبوک کا ذکر ہوتا تو آپ کو عبیدہ، حمزہ و جعفر یاد آتے اور آپ غمزدہ ہو جاتے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا فراق پدر میں گریہ فرماتیں، امیرالمومنین علیہ السلام کو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا، اسی طرح عمار و مالک اشتر کی یاد بےچین کر دیتی۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام اس گلی سے نہ گذرتے جس میں آپ کے سامنے آپ کی والدہ ماجدہ پر ظلم ہوا۔ امام حسین علیہ السلام کو جب اپنے با وفا اصحاب یاد آئے تو تڑپ گئے، امام سجاد علیہ السلام پوری زندگی شام کو یاد کر کے اشک بہاتے رہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی جناب عبداللہ بن عباس جمعرات کو یاد کر کے گریہ فرماتے۔ آخر جمعرات کو کون سی عظیم مصیبت پڑی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عظیم صحابی اور چچیرے بھائی تا حیات جمعرات کو یاد کر کے گریہ فرماتے تھے؟

جناب ابن عباس کا یہ غم اتنا عظیم اور آپ کے اشک اتنے اہم تھے کہ اسے بلا تفریق فرق و مذاہب تمام مسلمان مورخین و محدثین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا۔ حتی صحاح ستہ میں بھی جناب ابن عباس کا یہ نوحہ موجود ہے۔

محمد بن سعد نے الطبقات الکبرى میں و شهاب الدین نویرى نے نهایة الأرب میں نقل کیا:عن بن عباس قال: اشتکى النبی صلى الله علیه وسلم یوم الخمیس فجعل ـ‌یعنی بن عباس‌ـ یبکی ویقول: یوم الخمیس وما یوم الخمیس ! اشتد بالنبی صلى الله علیه وسلم وجعه فقال: «ائتونی بدواة وصحیفة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا». قال: فقال بعض من کان عنده: إن نبی الله لیهجر. قال: فقیل له: ألا نأتیک بما طلبت؟ قال: أوبعد ماذا؟ قال: فلم یدع به.

ابن عباس سے منقول ہے کہ جمعرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیماری شدید ہو گئی۔ ابن عباس گریہ کرتے اور کہتے جمعرات اور جمعرات کا کیسا دن تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ شدید بیمار تھے۔ آپ نے فرمایا۔ دوات و صحیفہ (قلم و کاغذ) لے آو تا کہ تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں کہ جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہو۔ وہاں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو ہذیان ہو گیا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ کچھ دوسرے لوگوں نے کہا کہ آپ نے جو مانگا ہے ہم لے آئیں ؟ تو آپ نے فرمایا: کیا اب اس (انکار) کے بعد لاو گے؟ پس لوگ منصرف ہو گئے۔

(الزهری، محمد بن سعد بن منیع ابوعبدالله البصری (متوفای۲۳۰هـ)، الطبقات الکبرى، ج۲، ص ۲۴۲، ناشر: دار صادر – بیروت)

(النویری، شهاب الدین أحمد بن عبد الوهاب (متوفای۷۳۳هـ)، نهایة الأرب فی فنون الأدب، ج ۱۸، ص ۲۴۵، تحقیق مفید قمحیة وجماعة، ناشر: دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة: الأولى، ۱۴۲۴هـ – ۲۰۰۴م.)

صحیح بخاری میں معمولی فرق کے ساتھ سات مقامات پر یہ روایت نقل ہوئی ہے۔

1 – کتاب «العلم» میں: قال عمر: ان النبي ‏صلي الله عليه وآله وسلم غلبه الوجع و عندنا کتاب اللَّه‏ حسبنا، فاختلفوا…

جناب عمر کہتے ہیں کہ درد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر غلبہ کیا اور ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ پس لوگوں میں اختلاف ہوا۔

(باب کتابة العلم، ص 25، ح 114. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ قَالَ ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ قَالَ عُمَرُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ قَالَ قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ)

2 – کتاب الجهاد و السير میں روایت ہے کہ ابن عباس نے بہت گريه کیا کہ خاک انکے اشکوں سے تر ہو گئی۔

نيز اسی روايت میں ہے کہ حاضر لوگوں میں اختلاف ہوگیا «فتنازعوا».

(باب جوائز الوفد، ص 504، ح 3053.«حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى خَضَبَ دَمْعُهُ الْحَصْبَاءَ فَقَالَ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ يَوْمَ الْخَمِيسِ فَقَالَ ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا هَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ وَأَوْصَى عِنْدَ مَوْتِهِ بِثَلَاثٍ أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ وَقَالَ يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ سَأَلْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ فَقَالَ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ وَالْيَمَامَةُ وَالْيَمَنُ وَقَالَ يَعْقُوبُ وَالْعَرْجُ أَوَّلُ تِهَامَةَ».)

3 – کتاب الجزية و الموادعة کی روایت گذشتہ روایت کی طرح ہے۔

(باب اخراج اليهود، ص 527، ح 3168.«حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الْأَحْوَلِ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى قُلْتُ يَا أَبَا عَبَّاسٍ مَا يَوْمُ الْخَمِيسِ قَالَ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ فَقَالَ ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا مَا لَهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ فَقَالَ ذَرُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ فَأَمَرَهُمْ بِثَلَاثٍ قَالَ أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ وَالثَّالِثَةُ خَيْرٌ إِمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا وَإِمَّا أَنْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا قَالَ سُفْيَانُ هَذَا مِنْ قَوْلِ سُلَيْمَانَ)

4 – کتاب «المغازي» کی روایت تھوڑے فرق کے ساتھ دوسری روایت کی طرح ہے۔

(باب مرض النبي ‏صلي الله عليه وآله وسلم و وفاته، ص 754، ح 4431.«حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ فَقَالَ ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ فَذَهَبُوا يَرُدُّونَ عَلَيْهِ فَقَالَ دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ وَأَوْصَاهُمْ بِثَلَاثٍ قَالَ أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ وَسَكَتَ عَنْ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَ فَنَسِيتُهَا».)

5 – کتاب «المغازي» کی روایت دوسری روایت کی طرح ہے۔

(باب مرض النبي ‏صلي الله عليه وآله وسلم و وفاته، ص 754، ح 4432.« حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمُّوا أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمْ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ قَرِّبُوا يَكْتُبُ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ غَيْرَ ذَلِكَ فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُومُوا قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَكَانَ يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ لِاخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ».)

6 – کتاب «المرض» میں روایت ہے کہ

«لمَّا حُضِرَ رسول اللَّه ‏صلي الله عليه وآله وسلم و في البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب، قال النبي‏ صلي الله عليه وآله وسلم «هَلُّمَ اکتب لکم کتاباً لاتضلّوا بعده» فقال عمر: ان النبي ‏صلي الله عليه وآله وسلم قد غلب عليه الوجع و عندکم القرآن حسبنا کتاب اللَّه فاختلف اهل البيت فاختصموا…».

لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس حاضر تھے کہ اس میں جناب عمر بن خطاب بھی تھے۔ آپ نے فرمایا: "میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہو۔” تو جناب عمر نے کہا کہ درد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر غلبہ کیا۔ تمہارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے۔ تو حاضر لوگوں میں اختلاف و بحث ہوئی۔

7. کتاب "الاعتصام بالکتاب و السنة” کی روایت گذشتہ روایت کی طرح ہے۔

(باب کراهة الاختلاف، ص 1266، ح 7366.«حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا حُضِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ قَالَ عُمَرُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمْ الْقُرْآنُ فَحَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلَافَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُومُوا عَنِّي قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ مِنْ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ».)

اسی طرح اہلسنت کی دیگر کتابوں جیسے صحیح مسلم، مسند احمد، سنن بیهقی اور طبقات ابن سعد وغیرہ کے علاوہ شیعہ کتب ( الارشاد، اوائل المقالات، الغیبة نعمانی، المناقب ابن شهر آشوب) میں بھی یہ واقعہ نقل ہوا ہے۔

مذکورہ روایات میں چند نکات قابل غور ہیں۔

1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی نافرمانی جب کہ قرآن کریم نے آپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔

2: گویا جناب عمر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے زیادہ قرآن سمجھتے تھے۔

3: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی جانب ہذیان کی نسبت دینا۔ یعنی آپ کی عصمت، نبوت و رسالت کو زیرسوال لانا۔ اور یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ جس طرح ابتدائے بعثت میں کفار مکہ نے آپ کی جانب مجنون کی نسبت دی تھی اسی طرح آپ کی زندگی کے آخری ایام 25 صفر 11 ہجری کو آپ پر ہذیان کا الزام لگایا گیا۔ دونوں الزامات ایک جیسے ہیں فیصلہ خود قارئین فرمائیں۔

اہلسنت علماء نے اس روایت سے انکار نہیں کیا لیکن جس طرح حدیث غدیر میں لفظ مولا کے مختلف معنی بیان کئے اسی طرح یہاں بھی اپنے مرشد کے قول کے مختلف مفاہیم بیان کئے۔ لیکن جس طرح حدیث غدیر میں "الست اولی بکم من انفسکم” (کیا میں تم پر تمہارے نفسوں سے زیادہ اولی نہیں ہوں) نے تمام توجیہات پر پانی پھیر دیا اسی طرح یہاں "لن تضلوا بعدہ” (اسکے بعد تم گمراہ نہ ہو گے۔) نے تمام مفاہیم پر پانی پھیر دیا۔

بعض علماء جیسے مولوی شبلی نعمانی صاحب نے اپنے مرشد کے دفاع میں یہ نکتہ بیان کیا کہ ابن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی وفات کے وقت کم سن تھے لہذا انکے اس وقت کا بیان قابل قبول نہیں تو اگر یہ واقعہ صرف ابن عباس نے بیان کیا ہوتا تو مولوی شبلی صاحب کی بات مانی جا سکتی تھی لیکن اسے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے دوسرے اصحاب جیسے جناب جابر بن عبداللہ نے بھی بیان کیا ہے۔

عن جابر ان النبی صلی اللہ علیه و سلم دعا بصحیفه عند موته فکتب لهم فیها شیئا لا یضلون و لا یضلون، و کان فی البیت لغط، فتکلم عمر فرفضها

جناب جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی وفات کے وقت صحیفہ طلب کیا اور اس میں کچھ لکھا کہ نہ وہ خود گمراہ تھا اور نہ گمراہ کرنے والا۔ اس وقت بیت الشرف میں شور ہنگامہ ہوا جناب عمر نے کچھ کہا اور وہ تحریر ترک کر دی گئی۔

(کتاب الثقات، الامام الحافظ محمد بن حیان بن احمد ابی حاتم، جلد 1)

اس روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے وہ تحریر لکھ دی تھی۔ لیکن شور ہنگامہ اور جناب عمر کے کہنے پر اسے ترک کر دیا گیا۔

اس سے قطع نظر کہ تحریر لکھی گئی یا نہیں لیکن ایک بات تو صاف ہے کہ جناب عمر نے ہی اس سے انکار کیا۔ نہیں معلوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کیا لکھنا چاہتے تھے یا کیا لکھا۔ ائے کاش وہ تحریر لکھ جاتی اور اگر لکھ گئی تھی تو اسے چھوڑا نہ جاتا۔

مجھے نہیں معلوم کہ جناب عمر نے اس تحریر کی کیوں اتنی مخالفت کی کہیں وہ تحریر غدیر کی تاکید تو نہ تھی کہ جس کے بعد ثقیفہ کے انعقاد کا کوئی معنی نہ ہوتا۔

لیکن ائے کاش وہ تحریر لکھ جاتی تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے حکم پر عمل ہو جاتا، آپ کی آخری خواہش پوری ہو جاتی اور قیامت تک امت گمراہی سے بچ جاتی۔ اب یہ سوال جواب طلب ہے کہ اس کے بعد امت کی گمراہی کا ذمہ دار کون ہے؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .