۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
عزاداری

حوزہ/٨ربیع الاول ایام عزا کا آخری دن ہے ۔اس کے بعد سوگ کے ایام اگلے برس تک کے لئے ملتوی ہو جا تے ہیں، اور لوگ پھر عید زہرا کے عنوان سے عید منانا شروع کر دیتے ہیں اور پھر ہم سمجھتے ہیں کہ آزاد ہیں جو چاہیں کریں ، لیکن ایسا نہیں ہے ٨ربیع الاول کو صرف کالے کپڑے اتاریں مقصد حسین نہیں، دینداری نہیں۔

تحریر : سید محمد مجتبیٰ علی رضوی

حوزہ نیوز ایجنسی| ٨ربیع الاول ایام عزا کا آخری دن ہے ۔اس کے بعد سوگ کے ایام اگلے برس تک کے لئے ملتوی ہو جا تے ہیں، اور لوگ پھر عید زہرا کے عنوان سے عید منانا شروع کر دیتے ہیں اور پھر ہم سمجھتے ہیں کہ آزاد ہیں جو چاہیں کریں ، لیکن ایسا نہیں ہے ٨ربیع الاول کو صرف کالے کپڑے اتاریں مقصد حسین نہیں، دینداری نہیں۔

جیتے رہے تو اگلے برس روئیں گے مولا

با حال پریشان خدا حافظ و ناصر

کچھ حق نہ ادا آپ کا ہم سے ہوا مولا

ہیں سخت پشیمان خدا حافظ و ناصر

آج ایام عزا ختم ہو رہے ہیں ہم ہر جگہ الوداع منا رہے ہیں پتہ نہیں ہم سے اگلے برس یہ محرم یہ ایام عزا کس کس کو نصیب ہو اور کس کس کا یہ آخری محرم ہو، خداوند عالم ہماری عزاداری کو قبول فرمائے۔ جہاں ایک طرف یہ ایام عزا کا آخری دن ہے وہیں یہ ایک روز حساب بھی ہے ہم سب عزاداروں کو اپنا اپنا حساب کرنا چاہیئے کہ ہم نے پہلی محرم سے ٨ربیع الاول تک تقریبا دو مہینے اور ٨دنوں کی عزاداری میں کیا سیکھا ہے، کیا واقعا کربلا سے کچھ سبق لیا ہے، کچھ سیکھا ہے، یا صرف ایک سالانہ رسم ادا کی ،تبرک کھائے، مختلف جگہوں پر زیارت کے لئے گئے، کہیں کا تابوت ، کہیں کا جلوس ، کہیں کا ماتم کچھ نہ کچھ مشہور ہے ہم نے سب کی زیارت کی یا کسی سے بھی کچھ سبق لیا، اگر سبق نہیں لیا تو بس ایک رسم ادا ہوئی ہے، ہم نے کیا سیکھا ہے ؟؟؟ کبھی ہم نے سوچا، ذرا غور کریں خود سے سوال کریں کہ اتنی بڑی عزاداری میں ہم نے کتنی کربلا اپنے دل میں اتاری، کیا سیکھا،کیا حر جیسا جذبہ پیدا ہوا، کیا حبیب جیسی صفت پیدا ہوائی، کیا ظہیر قین جیسا کردار اپنایا؟؟؟؟

ہم نے کیا سیکھا کربلا سے، کبھی اس پر غور کریں پھر ایام عزا کو رخصت کریں،اگر کل تک دینداری میں کمی تھی تو ٦٨دنوں کی عزاداری میں اس میں کچھ سدھار آیا کہ نہیں، اگر بھائی بھائی میں ناراضگی تھی تو عباس جیسے بھائی کا تذکرہ سن سن کر ناراضگی دور ہوئی کہ نہیں، نمازوں سے لگاؤ ہوا کہ نہیں، ایمان داری میں اضافہ ہوا کہ نہیں، حلال روزی کمانے کا رجحان بڑھا کہ نہیں؟ یا بس وقت گزارا ہے اور تبرک کھایا ہے ؟؟؟؟؟

اور جو کچھ سیکھا ہے اس پر عمل کریں تاکہ اگلے سال تک ہمارا کردار کربلا والوں کے کردار سے تھوڑا قریب ہو سکے۔ ہمیں اپنا حساب کرنا چاہیئے کہ عزاداری سے ہم نے کیا سیکھا ہے کیا حاصل کیا ہے کیا حق و باطل کو سمجھنے میں کچھ آسانی ہوئی کہ نہیں، کیا حق کو حق کہنے کی جرات آئی کہ نہیں، باطل اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت ہوئی کہ نہیں۔ یقینا جو حلال روزی کماتے ہیں اور سال بھر تھوڑا تھوڑا پیسا جمع کرتے ہیں تا کہ ایام عزا میں اپنے مولا کے نام پر خرچ کریں ان کی عزاداری کی شان الگ ہے ان لوگوں سے کہ جو جیسے بھی سیدھا الٹا جو بھی جیسا بھی ملے اس سے عزاداری کرے۔

کیا ہم نے صرف بریانی کھائی ہے، یا کچھ سبق بھی لیا ہے، اپنا حساب کریں اگر کچھ نہیں سیکھا ہے تو اب بھی وقت ہے اپنے وقت کے امام سے مدد مانگیں اور حسینی کردار کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کریں حضرت امام حسین سے وفادار ہو جا ئیں دینداری خود بخود آجائے گی۔

جب جب امام حسین کا سجدہ آخر یاد آئے گا خود بخود سجدوں سے محبت ہو جائے گی، جب جب صبح عاشور کی جناب علی اکبر کی اذان یاد آئے گی نمازوں سے لگاؤ ہونے لگے گا۔ جناب زینب کی بے ردائی کے درد کو دل سے لگالو تو قوم کی خواتین بے پردہ خواتین باحجاب ہو جا ئیں گی اور جو کمی ہے حجاب کی وہ دور ہو جائے گی۔ دوسروں پر طنز نہ کریں ہر ایک خود کو دیکھے اور اپنے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے۔

ہر ایک خود کو ٹٹولے کہ اس نے کربلا سے کیا سیکھا ہے بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے عزاداری کو مقابلہ آرائی ،مسابقہ گیری اور خود نمائی کا ذریعہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ نہ تبرکات عزا کا احترام رہا اور نہ مقصد حسین کا پاس و لحاظ رہا ہر کوئی خود کو بڑا اور دوسروں کو کمتر دکھانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ بات سب کے لئے نہیں ہیں آج بھی بہت سے مومنین اور عزادار ایسے ہیں جو عزاداری سے متعلق جو بھی کرتے ہیں خلوص دل سے صرف اپنے مولا کے لئے کرتے ہیں۔ ان سے میرا خطاب نہیں ہے بلکہ ان سے معذرت کے ساتھ ان لوگوں سے خطاب ہے جو مقصد حسین سے دور ہو تے جا رہے ہیں۔ جن کی نظر میں عزاداری صرف ایک عمل ہے جو ہر سال انجام دینا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ عزاداری منزل نہیں بلکہ ایک ذریعہ ہے خود کو مقصد حسین سے جوڑنے کا۔ خود کو دیندار بنانے کا ۔

ماتمی انجمنیں

عام طور سے ہر علاقہ، ہر بستی اور ہر شہر میں بہت سی ماتمی انجمنیں ہو تی ہیں جن کا آغاز تو عزاداری میں فروغ کے لئے ہوتا ہے لیکن ان میں سے اکثر آہستہ آہستہ عزاداری کے لئے سر درد بن جاتی ہیں جب وہ اپنے مقصد سے دور ہو کر لڑائی جھگڑے میں پڑ جا تی ہیں مقابلہ آرائی ہو نے لگتی ہے ۔ماتمی دستوں میں مقابلہ، عشرۂ مجالس میں مقابلہ، جلوسوں میں مقابلہ، مجلسوں میں مقابلہ، تبرک میں مقابلہ، نوحہ خوانی میں مقابلہ یہ عزاداری ہے کوئی سالانہ اولمپک نہیں ہے ۔ جبکہ ہر انجمن کا مقصد خدمت عزا ہونا چاہیئے، زیادہ تر انجمنیں ٨ ربیع الاول کے بعد کالے کپڑوں سے ساتھ پیک کرکے رکھ دی جا تی ہیں کہ اب اگلے برس پھر محرم کا چاند دیکھ کر انہیں صندوق سے نکالا جائے گا۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ٨ ربیع الاول کے بعد اب انجمنیں اپنی حیثیت بھر قوم کی خدمت کریں دیندار، پڑھے لکھے،قابل، محترم ، با شعور، سنجیدہ عزادار تیار کریں، انجمنیں اس کا خیال رکھیں کہ سماج میں کسی کو پڑھائی میں مدد چاہیئے ، کسی کو علاج میں مدد چاہیئے کسی کو بیٹی کی شادی میں مدد کی ضرورت ہو تو انجمنیں اس کا خیال رکھیں اور خدمت کریں تا کہ سماج مضبوط ہو سکے۔ کوشش کریں اہل بیت کی سیرت کو زندگی میں عملی کریں انہیں اپنا ئیں ۔ انجمن صرف ماتم اور عزاداری تک محدود نہ رہے بلکہ ایسی انجمن ہو کہ جو سماج کے ہر فرد کے لئے مفید ہو سکے۔

امام باڑے اور اوقاف

شاید ہماری ہی لا پرواہی اور بے رخی رہی ہے جس کا حکومت بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے اور وقف کے سلسلہ میں بل بنا نے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم نے تمام اوقاف سے لا تعلقی رکھی جس کا فائدہ کچھ لوگوں نے اٹھایا اور اب کے حالات سب کو پتہ ہیں۔جب کہ اسلام نے وقف بنایا ہی اسی لئے تھا کہ پوری قوم کی اقتصادی حالات بہتر ہو سکے۔ لیکن ہم نے اپنی غلطیوں سے اپنے اوقاف کو دوسروں کے لئے مفید اور اپنے لئے لڑائی جھگڑے کی چیز بنا کر چھوڑا ہے۔ اگر سوچیں تو یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ امام باڑوں کے نام پر اتنی بڑی بڑی عمارتیں ، کیا سال بھر میں صرف ایام عزا کے لئے بنائی گئیں ہیں؟ کیا کربلائیں جو تقریبا ہر شہر میں ہے کیا صرف عشرہ محرم کے لئے بنائی گئیں تھیں؟؟ کیا بزرگوں کے پاس پیسے اتنے فالتو تھے؟؟ نہیں ایسی بات نہیں ہے بلکہ امام باڑے اور کربلا اس لئے بنائے گئے تھے کہ ہر مومن اور شیعہ اس سے سال بھر جڑا رہے، مسجد کے کچھ خاص قوانین ہیں خاص پروٹوکول ہے لیکن امام باڑے میں تھوڑا آسانی ہے اس لئے بزرگوں نے اہل بیت علیہم السلام خصوصا ً امام حسین سے ہمیشہ کا تعلق رکھنے کے لئے امام باڑے، ضریح خانہ اور کربلائیں بنوائیں تا کہ پورے سال ہم اس سے جڑے رہیں اور امام حسین کے نام پر دین سیکھتے رہیں، امام باڑوں میں سال بھر کوئی نہ کوئی کلاس، درس و تدریس کا سلسلہ رہے ، شادی بیاہ کے پروگرام ہو سکیں، مجالس ، محافل ہو سکے، تاریخی مناسبتوں کا خیال رکھا جا سکے، اور اس طرح دین سے جڑے رہیں، امام باڑوں میں ورکشاب کا انعقاد ہو، ٹریننگ سینٹر کھلیں تا کہ قوم کو روزگار سے جڑ نے کا ہنر سکھا ئیں۔ دوسری قوموں کے پاس ، دوسرے فرقوں کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں وہ پوری قوم کو بلا سکیں،اور قومیں بلا جھجھک وہاں جا سکے ،صرف ہمارے پاس امام باڑوں کے نام سے ایسی نایاب اور عظیم چیز ہے کہ جہاں جانے میں نہ کسی کو شرم اور تکلف محسوس ہو تا ہے اور نا بلانے میں کسی کو جھجھک ہو تی ہے ۔ تو ایسے حسینی مرکز کا استعمال ہم قوم کی ترقی میں کریں تو مقصد حسین بھی سمجھ میں آئے گا اور یہ چیزیں محفوظ بھی رہیں گی کسی کی بری نظر بھی ان پر نہیں بڑے گی۔

قوم کی غفلت ہی ہے جس سے خراب اور برے متولوں نے فائدہ اٹھا کر اوقاف میں خرد برد کی، اور کر رہے ہیں۔ انہیں بھی معلوم ہے کہ قوم صرف دس دن آئے گی اس کے بعد قوم سو جائے گی۔ لیکن اگر قوم بیدا رہے اور اپنا ہر پروگرام امام باڑوں میں کریں تو باہر جا کر پروگرام کرنے کا پیسہ بھی بچے اور قوم کی غیرت اور عزت بھی بچے۔

صرف شادی کو ہی دیکھ لیں ہم بڑے شوق سے شادیوں میں ایک شب کی دعوت کے لئے لاکھ دو لاکھ کے میرج ہال بک کر لیتے ہیں جہاں زمانہ کی دوڑ میں شامل ہو کربے پردگی عام ہو تی جا رہی ہے وہیں اگر یہ شادیاں امام باڑوں میں ہوں تو ایک تواپنا پیسہ بلا وجہ باہر جا نے سے بچے، لاکھ دو لاکھ کے بجائے اگر ہر شادی کا دس ہزار بھی امام باڑوں کے فنڈ میں دیا جائے تا کہ غریبوں کی مدد ہو سکے تو سماج سے غریبی ختم ہو سکتی ہے وہیں امامباڑے کے صدقہ میں قوم کی غیرت بھی بیدار رہے گی بے پردگی میں بھی کمی آئے گی اور قوم امام باڑوں سے جڑی بھی رہے گی۔ محفل کریں ، جشن منائیں، کلاسیں کریں ہنر سکھائیں سب امام حسین کے صدقہ میں آپ کے نام پرقوم کو دیں پھر دیکھیں کیا معجزہ ہوتا ہے قومیں آبادی ہوں گی ترقی کریں گی اور پھر عزاداری کی شان بھی بڑھے گی۔

یوم حساب

٨ ربیع الاول کو ہم اپنا حساب کریں کہ ہم نے کربلا سے کیا سیکھا ہے، کیا حاصل کیا ہے ہر کوئی اپنا حساب کرے دوسروں کا نہیں،

علماء، ذاکرین ،خطباء اور اہل ممبر اپنا حساب کریں کہ ایام عزا میں جو مجلسیں پڑھی ہیں وہ کس لئے؟ اپنے نام کے لئے ،لفافے کے لئے، شہرت کے لئے ؟؟ یا مقصد امام حسین کے لئے ؟ دین کی تبلیغ کے لئے ؟؟

نوحہ خواں، سوز خواں ، مرثیہ خواں اپنا حساب کریں کے ایام عزا میں کس لئے مرثیہ ،سوز و سلام و نوحہ پڑھا ہے ، انجمنیں اپنا حساب کریں کہ شب داریاں، عشرے، جلوس، وغیرہ کس لئے کئے ہیں ، ادارے اپنا حساب کریں، کیا ایام عزا میں کیا کیا متولیان اپنا حسان کریں کہ کیا کیا اس دو مہینہ اور آٹھ دن کی عزاداری میں کیا سب امام حسین کے لئے کیا یا اپنے مقاصد کے لئے اپنی شہرت کے لئے ۔ اور کیا سیکھا اتنی مجلسوں سے اپنے لئے کیا درس لیا؟ ماتم اور نوحہ سے کتنا دل میں کربلا کو اتارا؟ عزاداری سے اس سال کیا سبق لیا؟ کربلا والوں سے کیا سیکھا؟اگر کچھ نہیں سیکھا تو وقت اور عمر دونوں برباد کی ؟نسلوں کو خراب کیا ؟ اور اگر کچھ سیکھا ہے تو اس پر عمل کریں تا کہ اگلے سال کچھ اور سیکھنے کو ملے۔ عزاداری بہتر ہو سکے۔

پروردگار ہمیں خود کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .