منگل 22 اپریل 2025 - 11:32
موت سے متعلق امام صادق (ع) کی تعلیمات

حوزہ/امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: موت کو زیادہ یاد کیا کرو، کیونکہ جو انسان بھی اسے زیادہ یاد کرتا ہے وہ دنیا سے بے رغبت ہو جاتا ہے۔

تحریر: علی عباس حمیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| الإمامُ الصادق ع في قولهِ تعالى :قُلْ إنّ المَوتَ الّذي : تَعُدُّ السِّنينَ ، عمّ تَعُدُّ الشُّهورَ ، عمّ تَعُدُّ الأيّامَ ، عمّ تَعُدُّ السّاعاتِ ، عمّ تَعُدُّ النّفَسَ ۔ فإذا جاءَ أجَلُهُمْ لا يَسْتَأخِرونَ ساعَةً و لا يَسْتَقدِمونَ .(الأعراف : ۳۴)(الكافي : ۳ / ۲۶۲ / ۴۴)

امام جعفر صادق ع نے،اللہ تعالیٰ کے اس قول(ترجمہ): کہہ دیجئیے! کہ جس موت سے تم فرار کرتے ہو وہ تمہیں مل کر رہے گی کے متعلق فرمایا:پہلے تم سال شمار کرتے ہو پھر مہینے ،پھر دن،پھر گھڑیاں،اور آخر میں سانسیں -پس جب ان کی اجل(مقررہ مدت) آجاتی ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

عنه ع : إنّ قَوما فيما مَضى قالُوا لنَبيٍّ لَهُم : اُدعُ لَنا ربَّكَ يَرفَعْ عنّا المَوتَ ، فدَعا لَهُم فرَفَعَ اللهُ عنهُمُ المَوتَ ، فكَثُروا حتّى ضاقَت علَيهِمُ المَنازِلُ وكَثُرَ النَّسلُ ، ويُصبِحُ الرّجُلُ يُطعِمُ أباهُ وجَدَّهُ واُمَّهُ وجَدَّ جدِّهِ ويُوَضِّيهِم ويَتَعاهَدُهُم ، فشُغِلوا عن طَلَبِ المَعاشِ ، فقالوا : سَلْ لَنا ربَّكَ أن يَرُدَّنا إلى حالِنا الّتي كُنّا علَيها ، فسألَ نَبيُّهُم ربَّهُ فَرَدَّهُم إلى حالِهِم .(بحارالانوار : ۱۴ / ۴۶۳ / ۳۰)

امام جعفرصادق ع:گذشتہ دور میں ایک قوم اپنے پیغمبر ص کے پاس آکر عرض گزار ہوئی کہ آپ اپنے رب سے ہمارے لیے دعا فرمائیں کہ ہم سے موت اٹھا لے!! چنانچہ پیغمبر نے دعا کی اور اللہ نے ان سے موت کو اٹھا لیا اور وہ آبادی کے لحاظ سے بڑھتے چلے گئے یہان تک کہ مکانات کی قلت پیدا ہو گئی اور نسلیں کثرت اختیار کرنے لگیں چنانچہ ہر شخص اس حالت میں صبح کرتا کہ اسے ضروت ہوتی کہ اپنے باپ کو اپنی ماں کو دادی دادے پڑدادی پڑدادے تک کو کھانا کھلائے اور ان کی رضا و خوشنودی حاصل کرے، ان کی صفائی ستھرائی کرے اور سارا دن ان کی دیکھ بھال کرتا رہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ اپنی روزی کمانے اور دیگر معاشی امور کو چلانے سے باز رہ گئے۔پھر وہ دوبارہ اپنے پیغمبر کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے کہ اپنے رب سے سوال کیجئے کہ وہ ہمیں اپنی سابقہ عمروں کی طرف پلٹا دے چنانچہ پیغمبر علیہ السلام نے دعا کی اللہ نے ان کو سابقہ حالات زندگی کی طرف پلٹا دیا۔

الإمامُ الصادق ع : ما خَلقَ اللهُ عز و جل يَقينا لا شَكَّ فيهِ أشبَهَ بشَكٍّ لا يَقينَ فيهِ مِن المَوتِ .(الفقيه : ۱ / ۱۹۴ / ۵۹۶)

امام جعفرصادق ع:اللہ تعالیٰ نے موت سے بڑھ کر کوئی ایسی یقینی چیز پیدا نہیں کی کہ جو مشابہ ہے ایسے شک کےجس میں یقین نہیں ہے۔(از مترجم:خدا نے یقینی صورت میں موت کو پیدا کیا ہے۔لیکن بندے اپنی غفلت کی وجہ سے اسے ایسا شک سمجھتے ہیں جس میں ان کو یقین نہیں ہے۔)

الإمامُ الصادق ع في قولهِ تعالى :-لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ -(يونس : ۶۴)هُو أن يُبَشِّراهُ بالجَنّةِ عِند المَوتِ ، يَعني محمّدا و عليّا عليهماالسلام . (بحارالانوار : ۶ / ۱۹۱ / ۳۶)

امام جعفرصادق ع سےاس آیۃ: -لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ - یعنی ان کے لیے دنیوی زندگی میں خوشخبری ہے کے متعلق فرماتے ہین کہ اسے وہ دونوں یعنی حضرت محمد مصطفی ص اور حضرت علی مرتضی ع مرتے وقت جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔

الإمامُ الصادق ع : ذِكرُ المَوتِ يُميتُ الشَّهَواتِ في النَّفسِ ، ويَقلَعُ مَنابِتَ الغَفلَةِ ، ويُقَوّي القلبَ بمَواعِدِ الله ، ويُرِقُّ الطَّبعَ ، ويَكسِرُ أعلامَ الهَوى ويُطفِئُ نارَ الحِرصِ ، ويُحَقِّرُ الدُّنيا [. (بحارالانوار : ۶ / ۱۳۳ / ۳۲)

امام جعفرصادق ع:موت کی یاد نفسانی شہوتوں کو مارتی ہے ،غفلت کی کھیتی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے ،دل کو خدائی وعدوں کے ساتھ تقویت بخشتی ہے،طبیعت کو رام کرتی ہے ،خواہشات کے جھنڈوں کو سرنگوں کرتی ہے اور دنیا کو حقیر بنادیتی ہے۔

عنہ ع : أكثِروا ذِكرَ المَوتِ ؛ فإنّهُ ما أكثَرَ ذِكرَ المَوتِ إنسانٌ إلاّ زَهِدَ في الدُّنيا . (بحارالانوار : ۸۲ / ۱۶۸ / ۳)
۔امام جعفرصادق ع:موت کو زیادہ یاد کیا کرو،کیونکہ جو انسان بھی اسے زیادہ یاد کرتا ہے وہ دنیا سے بے رغبت ہو جاتا ہے۔

الإمامُ الصادق ع لمّا سُئلَ : هل يُكرَهُ المؤمنُ على قَبضِ رُوحِهِ: لا والله ، إنّهُ إذا أتاهُ ملَكُ المَوتِ لقَبضِ رُوحهِ جَزِعَ عِندَ ذلكَ ، فيَقولُ لَهُ ملَكُ المَوتِ : يا وَليَّ الله لا تَجزَعْ ، فوالّذي بَعَثَ محمّدا لَأنا أبَرُّ بِكَ وأشفَقُ علَيكَ من و الِدٍرَحيمٍ لو حَضَرَكَ ، افتَحْ عَينَكَ فانظُرْ ۔ قالَ : و يُمَثَّلُ لَهُ رسولُ الله ﷺو أميرُ المؤمنينَ وفاطمةُ والحسنُ والحسينُ والأئمةُ من ذُرِّيتِهِم عليهم السلام فيقالُ لَهُ : هذا رسولُ الله و ۔۔۔ رُفَقاؤكَ ۔۔۔ فما شيءٌ أحَبَّ إلَيهِ مِنِ استِلالِ رُوحِهِ واللُّحوقِ بالمُنادي . (الكافي : ۳ / ۱۲۷ / ۲)

امام جعفر صادق ع سے پوچھا گیا کہ آیا مومن اپنی روح قبض ہونے کو ناپسند کرتا ہے ؟تو آپ ع نے فرمایا:،نہیں بخدا جب اس کے پاس ملک الموت اس کی روح قبض کرنے کے لیے آتا ہے تو وہ اس وقت فریاد کرنے لگتا ے تو ملک الموت اسے کہتا ہے:اے دوست خدا! فریاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ص کو مبعوث برسالت فرمایا ہے اگر تم سمجھو تو میں تمہارے لیے رحیم باپ سے بھی زیادہ شفیق اور مہربان ہوں،اپنی آنکھ کو کھولو اور دیکھو امام فرماتے ہیں تو اس وقت اس کے لیے حضرت رسول خدا ص امیر المؤمنین ،فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا امام حسن و حسین علیھما السلام اور ان کی معصوم اولاد میں سے ائمہ علھم السلام مثالی صورت میں تشریف لائے ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے اور یہ رسول پاک ص ہیں یہ مولا علی ع ہیں اور یہ۔۔۔(تمام ائمہ کانام بتایا جاتا ہے) یہ سب تمہارے مہربان ہیں ،تو اس وقت ا سکے نزدیک اور کوئی چیز محبوب نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ اس کی روح نکال لی جائے اور آواز دینے والے کے ساتھ جا ملے۔

عنه ع : ما يَموتُ مُوالٍ لَنا مُبغِضٌ لأعدائنا إلاّ ويَحضُرُهُ رسولُ اللهﷺو أميرُالمؤمنينَ والحسنُ والحسينُ عليهم السلام فَيَسُرُّوهُ ويُبَشِّروهُ ، وإن كانَ غيرَ مُوالٍ لَنا يَراهُم بحَيثُ يَسوؤهُ ۔ والدّليلُ على ذلكَ قَولُ أميرِالمؤمنينَ ع لحارثِ الهَمْدانيِّ : يا حارَ هَمْدانَ مَن يَمُتْ يَرَني مِن مؤمنٍ أو مُنافِقٍ قُبُلا. (تفسير القمّيّ : ۲ / ۲۶۵)

امام جعفرصادق ع:جب بھی ہمارا کوئی موالی اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی رکھنے والا مرتا ہے تو اس کے پاس حضرت رسول خدا ص حضرت امیر المؤمنین اور حسنین شریفین علیہم السلام تشریف لاتے ہیں وہ اسے دیکھتے ہیں اور خوشخبری سناتے ہیں اور اگر ہمارا موالی نہیں ہوتا تو وہ انہیں دیکھ کر دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے اس بات کی دلیل حارث ہمدانی سے حضرت علی ع کا یہ قول ہے:یا حار ہمدان من یمت یرانی مومنا کان او منافقا قبلا،(حارث ہمدانی ،جو شخص بھی مرتا ہے وہ مجھے ضرور دیکھتا ہے خواہ وہ مومن ہو یا منافق )

الإمامُ الصّادقُ ع : أوّلُ ما يُتحَفُ بهِ المؤمنُ يُغفَرُ لِمَن تَبِعَ جَنازتَهُ .(الكافي : ۳ / ۱۷۳ / ۳)

امام جعفرصادق ع:مومن کو سب سے پہلے جو تحفہ ملتا ہے وہ یہ کہ اس کے جنازہ کی مشایعت کرنے والوں کو بخش دیا جاتا ہے۔

۔عنہ ع: يَـنبَغي لأولياءِ المَيّتِ أن يُـؤْذِنوا إخـوانَ المَيّتِ بمَوتهِ ، فيَشهَدونَ جَنازَتَهُ ويُصَلُّونَ علَيهِ ، فيُكسِبُ لَهُمُ الأجرَ ويُكسِبُ لِمَيّتهِ الاستِغفارَ .(علل الشرائع : ۳۰۱ /۱) انظر:الزّواج : باب ۸۷۸ ۔

۔امام جعفرصادق ع:میت کے ورثاء کو چاہئیے کہ وہ اس کے مرنے کی اس کے بھائیوں(دوستوں) کو خبر کریں تا کہ وہ اس کے جنازہ میں شریک ہوں اور اس پر نماز پڑھیں،پس ان کے لیے تو اجر ہو گا اور میت کے لیے استغفار ہو گی۔ملاحظہ ہو:شادی: باب۸۷۸

الإمامُ الصّادقُ ع : سِـتّـةٌ يَلحَقنَ المؤمنَ بعدَ وَفاتِهِ : ولدٌ يَستَغفِرُ لَهُ ، ومصحَفٌ يُخَلِّفُهُ ، وغَرسٌ يَغرِسُهُ ، وصَدَقَةُ ماءٍ يُجريهِ ، وقَليبٌ يَحفِرُهُ ، وسُنّةٌ يُؤخَذُ بها مِن بَعدِهِ .(الفقيه : ۱ / ۱۸۵ / ۵۵۵)

امام جعفرصادق ع: چھ چیزیں ایسی ہیں کہ انسان کے مرنے کے بعد ان کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے۱۔فرزند جو اس کے طلب مغفرت کرے۔۲۔قرآن مجید جو اپنے پیچھے چھوڑ جائے۔ ۳۔کوئی درخت کاشت کرکے جائے۔۴۔جاری پانی صدقہ کے طور پر چھوڑ جائے۔ ۵۔کنواں کھود جائے۔ ۶۔ایسے نیک کام کی بنیاد رکھ جائے جس پر اس کے بعد عمل ہوتا رہے۔ملاحظہ ہو: عمل: باب۱۳۶۹، سن:باب۹۷۶، قیامت: باب۱۳۲۰

قالَ عليه السلام: من ماتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عارِفابِحَقِّناعُتِقَ مِنَ النّارِ وَ كُتِبَ لَهُ بَرائَةٌ مِنْ عَذابِ الْقَبْرِ.
جو شخص روز جمعہ انتقال کرجائےاور اس کےدل میں ہم اہل بیت عصمت و طہارت کی معرفت ہو وہ جہنم کی آگ سے امان میں اور قبر کے عذاب سے محفوظ ہوگا۔

قالَ عليه السلام: اذااوَيْتَ الى فِراشِكَ فَانْظُرْ ماسَلَكْتَ فى بَطْنِكَ وَ ماكَسَبْتَ فى يَوْمِكَ وَاذْكُرْ انَّكَ مَيِّتٌ وَ انَّ لَكَ مَعادا.

جب تم بستر میں جاتے ہو دیکھو کہ اس روز کیاکھایااور کیاپیاہے اور جو کچھ کھایااور پیاہے وہ کہاں سے آیاہے، اور اس روز تم نے کونسی چیزیں کن راستوں سے حاصل کی ہیں. اور ہر حال میں توجہ کرو کہ موت تم کو اٹھالے جائے گی اور اس کے بعد تمھیں صحرائے محشر کاسامنا کرناہوگا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha