تحریر: مولانا حافظ ذہین علی نجفی
حوزہ نیوز ایجنسی| ہمارا معاشرہ آج جن مسائل کا شکار ہے، ان میں سب سے سنگین مسئلہ بدگمانی، تہمت، خود غرضی اور خوفِ خدا سے خالی رویے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر اجتماعی نقصان کو نظر انداز کرے، وہ کبھی پائیدار ترقی، امن یا بھائی چارے کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔
معاشرے میں کچھ افراد اپنی انا، ضد، اور اقتدار کی ہوس میں دوسروں پر جھوٹے الزامات لگا کر ان کی عزت خاک میں ملانے کے درپے رہتے۔ بغیر تحقیق کے کسی پر تہمت لگانا، کردار پر حملہ کرنا، اسے بدنام کرنا نہ صرف انسانی اخلاقیات کے خلاف ہے بلکہ قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کے برعکس بھی ہے۔
قرآن کریم ہمیں بار بار تاکید کرتا ہے: > "یٰۤاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اجْتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ۫"(سورہ الحجرات، آیت 12) "اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔"
معاشرے میں فساد، بدامنی اور بے چینی تب جنم لیتی ہے جب افراد خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے لگتے ہیں، اور اپنی ذاتی رائے یا فائدے کو اجتماعی مفاد پر فوقیت دینے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود کو برباد کرتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو زہر آلود کرتے ہیں۔
اہلبیتؑ کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ:
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: > "جس نے کسی مؤمن پر تہمت لگائی، اس نے گویا کعبہ کو ڈھا دیا۔"
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: > "مؤمن وہ ہے جو دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالے، ان کی عزت کی حفاظت کرے، نہ یہ کہ ان کی لغزشوں کو اچھالے اور انہیں ذلیل کرے۔"
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی انا، مفادات، اور وقتی فائدوں کو پیچھے رکھ کر قومی یکجہتی، سچائی، دیانت، اور بھائی چارے کو فروغ دیں۔ اگر ہر شخص صرف اپنی ذات کے گرد ہی سوچے گا تو قوم کبھی ترقی نہیں کرے گی، نہ ہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن پائے گا۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ:
- دوسروں پر تہمت لگانے سے باز رہیں
- بدگمانی کے بجائے حسنِ ظن کو اپنائیں
- خوفِ خدا کو دلوں میں زندہ رکھیں
- اور سب سے بڑھ کر، قومی مفاد کو اپنی ذاتی ترجیحات پر مقدم رکھیں۔
یاد رکھیں! ایک فرد کی اصلاح سے پورے معاشرے کی اصلاح ممکن ہے، بشرطیکہ ہم خود کو بدلنے کا عزم کریں۔









آپ کا تبصرہ