منگل 8 اپریل 2025 - 23:46
ہنر مند علماء کرام: خود کفالت کی جانب ایک انقلابی قدم

ہنر مند علماء کرام پروگرام" محض ایک سوچ نہیں بلکہ ایک ایسی تحریک بن سکتی ہے جو علماء کو محتاجی کے احساس سے نکال کر خود کفالت اور قیادت کی طرف لے جائے۔ ہمیں اس نظریے کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ مستقبل میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں علماء کی عزت، خود داری، اور دین کی خدمت دونوں محفوظ رہیں۔

تحریر: مولانا حافظ سید ذہین علی نجفی

حوزہ نیوز ایجنسی | کسی بھی کام کی اصل روح رضائے الٰہی کا حصول ہونا چاہیے، اور یہی مقصد کامیابی کی معراج ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ علمائے کرام نے ہمیشہ دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں، مشکلات کے باوجود اپنے عزم پر قائم رہے، اور مشکل ترین حالات میں بھی بہترین خدمات انجام دیتے رہے۔ لیکن وقت کے ساتھ حالات بدلتے گئے، ضروریات بڑھتی گئیں، اور زندگی کے تقاضے مزید پیچیدہ ہوگئے۔ آج کے دور میں دینی خدمات کے ساتھ ایک مستحکم ذریعہ معاش کا ہونا ناگزیر بن چکا ہے تاکہ علماء کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ دین دار اور مسجد سے وابستہ شخص، جو خود ایک عام ملازم کو تیس ہزار تنخواہ دیتا ہے، وہی مسجد کے امام کی پندرہ ہزار تنخواہ پر مطمئن بیٹھا ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ قرآن پڑھانے والے اساتذہ کے لیے چند ہزار دینا مشکل محسوس ہوتا ہے، جبکہ بچوں کی دیگر ٹیوشنز کے لیے ہزاروں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہ رویہ ہمارے معاشرتی اور دینی شعور کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

وقت آگیا ہے کہ علماء کرام بھی خود انحصاری کی طرف قدم بڑھائیں تاکہ وہ دینی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو بھی مستحکم کر سکیں۔ اس سے نہ صرف ان کی عزتِ نفس محفوظ رہے گی بلکہ آزادیٔ بیان اور دین کی سربلندی کے لیے بہتر انداز میں کام کرنے کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

ہنر مند علماء کرام پروگرام: ایک نئی امید

علماء کرام کسی بھی معاشرے کی فکری اور روحانی بنیاد ہوتے ہیں، ان کا کردار ایک مضبوط اور متوازن سماج کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جب تک عالم دین خود کفیل نہیں ہوگا، وہ دوسروں پر انحصار کی وجہ سے نہ صرف آزادیٔ اظہار سے محروم رہے گا بلکہ اپنے بنیادی فرائض بھی کماحقہٗ ادا نہیں کر سکے گا۔ عزتِ نفس مجروح ہوگی، اور وہ اپنے مسائل میں الجھ کر دین اور معاشرے کی خدمت کا حق ادا کرنے میں مشکلات محسوس کرے گا۔

علماء کرام وہ طبقہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایک منفرد حیثیت عطا کی ہے، انہیں روحانی قیادت دی گئی ہے تاکہ وہ احکامِ دین کی روشنی میں معاشرے کی رہنمائی کریں۔ مگر بدقسمتی سے عملی طور پر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی عدم استحکام ہے۔ علماء کی ضروریات چند مخصوص افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئیں، اور یوں وہ معاشی مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑتے چلے گئے۔ اس صورت حال نے دین کی دعوت و تبلیغ پر بھی گہرا اثر ڈالا، کیونکہ جب کسی طبقے کی معیشت دوسروں کے ہاتھ میں ہو، تو وہ دبنگ انداز میں اپنی بات نہیں کہہ سکتا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا موجودہ نظام علماء کو نذرانوں، ہدایا اور نیازوں پر منحصر رکھتا ہے، اور بعض صورتوں میں اس پر انحصار کی عادت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے دینی فریضہ پوری قوت اور جوش و جذبے سے ادا نہیں ہو پا رہا۔ جب تک علماء کی معیشت مستحکم نہیں ہوگی، دین کی خدمت میں وہ اعتماد، استقامت اور آزادی نظر نہیں آئے گی جو ہونی چاہیے۔

خود کفالت: وقت کی سب سے بڑی ضرورت

ھنر مند علماء کرام پروگرام اسی ضرورت کا ایک عملی حل ہے، جس کے تحت علماء کو ہنر مند بنانے اور خود کفیل کرنے کے منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد علماء کی معاشی ترقی کو یقینی بنانا ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنے ذاتی اخراجات پورے کر سکیں بلکہ دین کی خدمت بھی مؤثر انداز میں کر سکیں۔ ایک معاشی طور پر مضبوط عالم، ایک مضبوط معاشرے کی علامت ہوتا ہے، اور اسی کے ذریعے سماجی و دینی بہتری کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اپنی معیشت کو خود اپنے کنٹرول میں لائیں، تاکہ ان کی بات میں اثر ہو، ان کا وقار بحال ہو، اور وہ اپنے حقیقی منصب پر فائز ہو کر دین کی خدمت کر سکیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دین کا کام کسی پر انحصار کے بغیر بھی ممکن ہے، اور اس کے لیے علماء کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ علماء کرام اپنی معاشی خود مختاری کے لیے سنجیدہ کوشش کریں، تاکہ وہ آزاد ہو کر دین کی خدمت انجام دے سکیں اور حقیقی معنوں میں معاشرے کے رہنما بن سکیں۔۔۔

خود انحصاری: علماء کے لیے ایک ناگزیر ضرورت

اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ قدیم زمانے میں علماء کرام نہ صرف دینی علوم کے ماہر ہوتے تھے بلکہ وہ کسی نہ کسی ہنر میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ہمارے اسلاف نے ہمیشہ خود کفالت کو ترجیح دی اور اپنے ہاتھ کی محنت کو باعثِ برکت سمجھا۔ امام ابو حنیفہؒ ایک تاجر تھے، امام شافعیؒ شکار کے ماہر تھے، اور دیگر کئی بزرگ بھی اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش اختیار کرتے تھے۔

آج جب ہم جدید دور میں قدم رکھ چکے ہیں، جہاں ہر شعبہ زندگی میں ترقی ہو رہی ہے، وہاں علماء کا صرف مدرسوں اور مسجدوں تک محدود رہنا اور معاشی مسائل سے دوچار ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ جب ایک عالم دین کی اپنی ضروریات پوری نہ ہوں، جب اسے اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا پڑے، تو اس کی عزت نفس بھی متاثر ہوتی ہے اور اس کا علمی و فکری دائرہ بھی محدود ہو جاتا ہے۔

معاشی استحکام کے بغیر آزادی ممکن نہیں

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب تک ایک عالم معاشی طور پر آزاد نہیں ہوگا، وہ دباؤ سے نکل کر کھل کر بات نہیں کر سکے گا۔ اگر اس کی روزمرہ زندگی کے معاملات دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے تو وہ بے باکی سے سچ کہنے سے قاصر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی علماء عوام کے مالی تعاون پر انحصار کی وجہ سے مکمل آزادی کے ساتھ دینی فریضہ انجام نہیں دے پاتے۔

یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ جب علماء کا معاش دوسروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو وہ اپنے نظریات پر بھی مکمل طور پر قائم نہیں رہ سکتے۔ دین کا جو پیغام انہیں کھل کر عام کرنا چاہیے، وہ بعض اوقات حالات کے جبر کی وجہ سے مکمل بیان نہیں کر پاتے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ علماء کو خود انحصاری کی طرف لے جایا جائے تاکہ وہ نہ صرف اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں بلکہ دین کی خدمت کے لیے بھی زیادہ توانائی کے ساتھ میدان میں اتر سکیں۔

"ہنر مند علماء کرام" پروگرام: عملی اقدامات کی ضرورت

یہ خوش آئند بات ہے کہ "ھنر مند علماء کرام پروگرام" کے ذریعے علماء کو خود انحصاری کی طرف لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اس پروگرام کو صرف ایک نظریہ تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ عملی طور پر مؤثر اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔

کچھ ممکنہ اقدامات:

1. کاروباری تربیت: علماء کو چھوٹے اور بڑے کاروبار شروع کرنے کے لیے تربیت دی جائے تاکہ وہ ایک مستحکم ذریعہ معاش حاصل کر سکیں۔

2. آن لائن تعلیم اور مہارتوں کا فروغ: ڈیجیٹل دور میں آن لائن تدریس، ترجمہ، خطاطی، ایڈیٹنگ،گرافک ڈیزائننگ ،کمپوزنگ ،اور دیگر ہنر سیکھ کر علماء خود کفیل بن سکتے ہیں۔

3. علماء کے لیے مالیاتی منصوبے: علماء کے لیے ایسے مالیاتی منصوبے بنائے جائیں جہاں وہ کم سود یا بلا سود قرضے حاصل کر کے اپنا کوئی ہنر اپنا سکیں۔

4. مدارس میں پیشہ ورانہ تربیت: مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سکھانے والے کورسز کو بھی شامل کیا جائے تاکہ فارغ التحصیل علماء کے پاس معاشی خود کفالت کے لیے کوئی عملی راستہ موجود ہو۔

5. مشترکہ کاروباری ماڈل: مختلف علماء مل کر کوئی ایسا منصوبہ بنا سکتے ہیں جس سے ان کے لیے مستقل آمدن کا ذریعہ پیدا ہو، جیسے کہ اسلامی پبلشنگ ہاؤس، ہربل میڈیسن، آن لائن اسلامی سروسز، یا کسی اور صنعت میں شراکت داری۔

ایک خود مختار عالم، ایک مضبوط معاشرہ

یہ وقت کی پکار ہے کہ علماء کرام اپنی معیشت کو دوسروں کے سہارے کے بجائے خود سنبھالنے کی کوشش کریں۔ جب علماء مالی طور پر مستحکم ہوں گے تو وہ زیادہ آزادی اور بے خوفی کے ساتھ دین کی خدمت کر سکیں گے۔ اس سے نہ صرف ان کی عزت نفس بحال ہوگی بلکہ وہ پوری توانائی کے ساتھ ایک مضبوط اور بامقصد اسلامی معاشرے کے قیام میں بھی اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔

"ہنر مند علماء کرام پروگرام" محض ایک سوچ نہیں بلکہ ایک ایسی تحریک بن سکتی ہے جو علماء کو محتاجی کے احساس سے نکال کر خود کفالت اور قیادت کی طرف لے جائے۔ ہمیں اس نظریے کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ مستقبل میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں علماء کی عزت، خود داری، اور دین کی خدمت دونوں محفوظ رہیں۔

علمائے کرام کی خود کفالت اور خود انحصاری کی ضرورت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ نبی اکرم ص اور اہل بیتؑ نے ہمیشہ محنت اور خود انحصاری کی تعلیم دی اور اسے باعث عزت و برکت قرار دیا۔

اہل بیتؑ کے اقوال اور عملی نمونے:

1. محنت اور خود انحصاری کی اہمیت:

نبی اکرم ص نے فرمایا:

"أفضلُ الكَسبِ كَسبُ العَمَلِ بِيَدِهِ"

"سب سے بہترین کمائی وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کمائے۔" (مسند احمد)

2. سوال سے بچنے کی تاکید:

امام علیؑ فرماتے ہیں:

"اُطلُبُوا الرِّزقَ بِالعِفَّةِ"

"رزق کو عزتِ نفس اور محنت کے ذریعے تلاش کرو۔" (غرر الحکم)

3. کام کرنے میں شرم نہ کرنا:

امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:

"اَلمُؤمِنُ یَأکُلُ مِن عَمَلِ یَدِهِ"

"مؤمن وہ ہے جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتا ہے۔" (الکافی)

4. سوال اور محتاجی کی مذمت:

نبی کریم ص نے فرمایا:

"مَنِ افتَقَرَ فَلَم یُبدِ فَقرَهُ لِلنّاسِ فَعلَی اللّهِ رِزقُهُ بِحَلالٍ"

"جو فقیر ہو مگر لوگوں کے سامنے اپنی فقیری ظاہر نہ کرے، اللہ اس کے لیے حلال رزق کے دروازے کھول دیتا ہے۔" (مکارم الاخلاق)

5. امام علیؑ کی کھجوروں کی تجارت:

تاریخ میں آتا ہے کہ امام علیؑ مدینہ میں محنت و مشقت کرتے، کھجوروں کے باغات میں کام کرتے، کنویں کھودتے اور اپنی محنت کی کمائی سے خود کو خود کفیل رکھتے۔ آپؑ نے جو بھی مال حاصل کیا، اسے یا تو فقراء پر خرچ کیا یا اسلامی مقاصد کے لیے وقف کر دیا۔

خلاصہ :

اہل بیتؑ کی ان تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ خود کفالت اور محنت صرف ایک دنیاوی ضرورت ہی نہیں، بلکہ ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ علماء کرام، جو امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اگر خود کفیل ہوں گے تو وہ زیادہ آزاد، بے باک اور مؤثر انداز میں دین کی تبلیغ کر سکیں گے۔ لہٰذا، "ھنر مند علماء کرام" پروگرام کا قیام نہ صرف ایک سماجی اور معاشی ضرورت ہے بلکہ سنتِ نبویؐ اور تعلیماتِ اہل بیتؑ کے عین مطابق بھی ہے۔

یہی وقت ہے کہ علماء کرام اس روایت کو زندہ کریں اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو ذریعہ عزت بنائیں، تاکہ وہ بغیر کسی دباؤ کے دین کی خدمت انجام دے سکیں اور امت کی حقیقی رہنمائی کر سکیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • رضی زیدی IN 18:52 - 2025/04/09
    سلام وعرض ادب قبلہ کی فکر اچھی ہی نہیں بہت اچھی فکر اور اچھا منصوبہ ہے ۔ بندہ ناچیز نے اقتصادیات اور معیشت کو پڑھا اور پڑھایا نیز عملی جامہ پہنایا ہے اگر میری کہیں ضرورت ہے تو رابطہ فرمائیں 9568146232