تحریر: مولانا سید ذہین علی نجفی
حوزہ نیوز ایجنسی| ہر عمل کا بنیادی مقصد اور اصل ہدف صرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول ہونا چاہیے، کیونکہ یہی حقیقی کمال اور بلند ترین منزل ہے کہ انسان کا ہر قدم خالص اللہ کی رضا کے لیے اٹھے۔
علم دین کا حصول اور اس کی خدمت ہمیشہ سے صبر آزما رہی ہے۔ صدیوں سے علمائے کرام اور اساتذہ دین نے بے شمار مشکلات کا سامنا کیا، مگر اس کے باوجود دین کی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں آنے دی۔ البتہ وقت کے ساتھ حالات میں تبدیلی آئی ہے، اور آج کے دور میں جہاں دینی فعالیت کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے، وہیں علمائے کرام کے لیے معاشی خود کفالت بھی ناگزیر ہو چکی ہے، تاکہ وہ کسی پر انحصار کیے بغیر آزادانہ طور پر دین کی خدمت انجام دے سکیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار شخص بھی، جو ہمیشہ اول وقت نماز ادا کرتا ہے اور اپنے ملازم کو تیس ہزار روپے ماہانہ دیتا ہے، وہی شخص پیش نماز کو پندرہ ہزار دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ جو لوگ بچوں کی ٹیوشن پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں، وہی دین اور قرآن کی خدمت کے لیے چند سو روپے دینے سے بھی گریزاں نظر آتے ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ علمائے کرام خود میدان میں آئیں، تاکہ وہ نہ صرف دین کی خدمت جاری رکھ سکیں بلکہ اپنی معاش کو بھی مضبوط بنا کر آزادانہ تبلیغِ دین کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے "ہنرمند علمائے کرام" پروگرام، جسے "خود عالم پروجیکٹ" بھی کہا جاتا ہے، علمائے کرام کی معاشی ترقی کو ایک لازمی امر سمجھتا ہے۔ کیونکہ ایک مضبوط عالم ہی ایک مضبوط معاشرتی بنیاد رکھ سکتا ہے، اور یہی بنیاد آگے چل کر مؤثر دینی اور سماجی خدمات کی ضامن بنتی ہے۔
جب تک عالم دین خود کفیل نہیں ہوگا، وہ دوسروں پر انحصار کرے گا، جس سے اس کی آزادیِ بیان متاثر ہوگی، عزت نفس مجروح ہوگی اور دین کی خدمت کے ساتھ معاشرتی فرائض کی ادائیگی میں بھی مشکلات پیش آئیں گی۔ لہٰذا، علمائے کرام کی معاشی استحکام کی جانب عملی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں، تاکہ وہ خود کفیل بن کر اپنے دینی اور سماجی فرائض بہتر انداز میں ادا کر سکیں۔
21:10 - 2025/03/10









آپ کا تبصرہ