تحریر: مولانا حافظ سید ذہین علی نجفی
حوزہ نیوز ایجنسی| گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے میں ایک خطرناک رجحان پروان چڑھ رہا ہے، جہاں توہین کے نام پر بنا سوچے سمجھے انارکی پھیلائی جا رہی ہے۔ اس رجحان کی جڑیں درحقیقت تکفیری مزاج میں ہیں، جو نہ صرف دین کے حقیقی فہم سے عاری ہے بلکہ ملک میں بدامنی پھیلانے والے عناصر کے ایجنڈے کو بھی تقویت دیتا ہے۔
یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بعض عناصر اپنے مخصوص مقاصد کے تحت مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہیں اور عوام کو مشتعل کرکے معاشرے میں انتشار پیدا کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ ہم قرآن کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل مرتب کریں، کیونکہ قرآن ہر دور کے لیے ہدایت ہے اور قیامت تک رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔
قرآن کا واضح مؤقف
قرآن میں ایسے لوگوں کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا ہے:> "اور جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ سن لو: بیشک یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) شعور نہیں۔" (البقرہ: 11-12)
یہ آیات آج بھی اتنی ہی حقیقت پر مبنی ہیں جتنی نزول کے وقت تھیں۔ کچھ لوگ جو خود کو اصلاح کنندہ کہتے ہیں، درحقیقت فتنہ و فساد کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے عزائم صرف اور صرف انتشار اور بدامنی کو فروغ دینا ہوتے ہیں۔
اسلام کی دعوت: حکمت اور نرمی
اگر کسی کو ہدایت دینی ہے، کسی کو گمراہی سے نکالنا ہے تو اس کے لیے قرآن نے واضح اصول دیے ہیں:> "لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت سے اور موعظہ حسنہ سے، اور اگر بات جدال تک پہنچے تو بھی اچھے طریقے سے بات کرو۔" (النحل: 125)
یہ آیت اسلامی دعوت کے بنیادی اصول فراہم کرتی ہے:
حکمت سے بات کرنا
نرمی سے سمجھانا
اگر اختلاف ہو بھی جائے تو اچھے انداز میں مکالمہ کرنا
اسلام کسی بھی حالت میں مار دھاڑ، شدت پسندی، اور تکفیر کی اجازت نہیں دیتا۔ جو لوگ مذہب کے نام پر قتل و غارت کو جائز سمجھتے ہیں، وہ درحقیقت فرعونی سوچ کے حامل ہیں، کیونکہ قرآن کی تعلیمات اس کے برعکس رحمت، بردباری اور انصاف پر مبنی ہیں۔
توہین کی حقیقت اور اس کا دائرہ کار
سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ توہین کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ کیا ہر اختلافی بات توہین کے زمرے میں آتی ہے؟ کیا اسلامی کتب میں درج تاریخی واقعات کا بیان بھی توہین ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ان کتب کو ہی ختم کرنا ہوگا۔ اگر نہیں، تو پھر کسی بات کو محض اپنے نظریے کے خلاف سمجھ کر اسے توہین قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟
یہ مسئلہ کسی ایک فرقے کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا ہے۔ اگر آج اس مسئلے کو حکمت اور انصاف کے ساتھ حل نہ کیا گیا تو تکفیری ذہنیت کو کھلی چھوٹ مل جائے گی، جس کے نتیجے میں ملک دشمن عناصر مزید مضبوط ہوں گے۔
قانون و انصاف کی بالادستی
اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر کوئی جرم سرزد ہو تو اس کے لیے ایک منظم عدالتی نظام موجود ہے۔ ہر شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ خود ہی مدعی، منصف، اور جلاد بن جائے۔ قرآن عدل و انصاف کی بات کرتا ہے، نہ کہ ہجوم کے ذریعے فیصلے کرنے کی۔
لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم حدود و قیود کا تعین کریں، قانون کے مطابق معاملات کو نمٹائیں، اور اسلام کی اصل روح کو سمجھیں۔ اگر ہر کوئی اپنی عدالت خود لگانے لگے گا، تو پھر نہ صرف معاشرتی استحکام خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ خود مذہب کی ساکھ بھی مجروح ہوگی۔
توہین کے نام پر شدت پسندی، تکفیری سوچ، اور انارکی کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بحیثیت ریاست ،قرآن و سنت سے رہنمائی لیں اور کسی خاص سوچ فکر یا نظریہ کو تقویت دینے کی غلطی ہرگز نہ کریں ،عقل و دانش سے کام لیں۔ اصلاح کے نام پر فساد پھیلانے والوں کو پہچاننا ہوگا اور ان کے خلاف متحد ہونا ہوگا، تاکہ ایک پرامن، مستحکم، اور حقیقی اسلامی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔۔
توہین کے نام پر انارکی: محمد و آلِ محمد (ع) کے فرامین کی روشنی میں
اسلام کی بنیاد عدل، حکمت اور صبر پر رکھی گئی ہے۔ رسول اللہ (ص) اور اہلِ بیت (ع) کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ دین کے نام پر انتشار اور انارکی کو فروغ دینا قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ آج کے دور میں بعض عناصر توہین کے نام پر عوام کو اشتعال دلا کر شدت پسندی اور فساد برپا کرنا چاہتے ہیں، جبکہ اہلِ بیت (ع) کے فرامین اس کے برعکس بردباری، علم، اور عدل کا سبق دیتے ہیں۔
1. رسول اکرم (ص): نرمی اور حکمت سے بات کرو
رسول اللہ (ص) نے فرمایا:> "إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ".
(نرمی جس چیز میں ہو، اسے خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے نکال دی جائے، اسے بدصورت کر دیتی ہے۔)(الکافی، جلد 2، صفحہ 119 | بحارالانوار، جلد 68، صفحہ 389)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اسلام میں سختی اور شدت پسندی کی گنجائش نہیں، بلکہ نرمی، حکمت اور حسن اخلاق کو اپنانا ہی دین کی اصل روح ہے۔
2. امام علی (ع): اختلاف کے باوجود صبر اور حکمت اختیار کرو
امام علی (ع) فرماتے ہیں:> "الْحِلْمُ غِطَاءٌ سَاتِرٌ، وَ الْعَقْلُ حِصْنٌ حَامٍ، فَاسْتُرْ خَلَلَ خُلُقِكَ بِحِلْمِكَ، وَ قَاتِلْ هَوَاكَ بِعَقْلِكَ."(بردباری ڈھال ہے، اور عقل مضبوط قلعہ ہے۔ اپنی خامیوں کو بردباری سے چھپاؤ، اور اپنی خواہشات سے عقل کے ذریعے جنگ کرو۔)(نہج البلاغہ، حکمت 113)
یہ قول اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر کوئی اختلاف ہو بھی جائے تو بھی اس کا حل شدت پسندی میں نہیں، بلکہ صبر اور حکمت سے معاملات سلجھانے میں ہے۔
3. امام حسین (ع): دشمن کے ساتھ بھی عدل کرو
امام حسین (ع) نے یزیدی لشکر کے سامنے فرمایا:> "إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دِينٌ وَكُنْتُمْ لَا تَخَافُونَ الْمَعَادَ فَكُونُوا أَحْرَارًا فِي دُنْيَاكُمْ"
(اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور تم قیامت سے نہیں ڈرتے، تو کم از کم دنیا میں آزاد مرد بن کر جیو۔)(لہوف، صفحہ 91)
یہ قول اس بات پر زور دیتا ہے کہ حتیٰ کہ ظالم کے ساتھ بھی عزت و وقار کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے، نہ کہ اندھی شدت پسندی اور انارکی کو ہوا دی جائے۔
4. امام زین العابدین (ع): انتقام کے بجائے اخلاق کو اپناؤ
امام سجاد (ع) نے فرمایا:> "إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَكُونَ بَيْنِي وَبَيْنَ النَّاسِ سِتْرٌ، لَا يَظْلِمُنِي أَحَدٌ وَلَا أَظْلِمُهُ."(میں چاہتا ہوں کہ میرے اور لوگوں کے درمیان ایک پردہ ہو، نہ کوئی مجھ پر ظلم کرے اور نہ میں کسی پر ظلم کروں۔)(تحف العقول، صفحہ 282)
یہ تعلیمات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ بدلہ لینے کے نام پر شدت پسندی کو فروغ دینا اہل بیت (ع) کی سیرت کے خلاف ہے۔
5. امام جعفر صادق (ع): انصاف کے بغیر سزا دینا حرام ہے
امام صادق (ع) فرماتے ہیں:> "إِيَّاكُمْ أَنْ تَقْضُوا عَلَى أَحَدٍ قَبْلَ أَنْ تَسْمَعُوا مِنْهُ، فَرُبَّمَا كَانَتْ لَهُ حُجَّةٌ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ"(کسی پر فیصلہ صادر کرنے سے پہلے اس کی بات ضرور سنو، ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس کوئی دلیل ہو جس سے تم بے خبر ہو۔)(وسائل الشیعة، جلد 18، صفحہ 167)
یہ اصول آج کے دور میں بھی انتہائی اہم ہے، جہاں اکثر لوگ بغیر تحقیق کے دوسروں کو توہین کا مرتکب قرار دے کر شدت پسند رویہ اپناتے ہیں۔
محمد (ص) و آلِ محمد (ع) کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ:
نرمی، حکمت اور صبر کو اپنایا جائے۔
شدت پسندی، ہجوم کے ذریعے فیصلے، اور تکفیر سے اجتناب کیا جائے۔
اگر کسی پر الزام ہو تو قانون کے مطابق اور انصاف کے اصولوں کے تحت کاروائی کی جائے۔
اختلاف کے باوجود عزت اور وقار کے ساتھ بات کی جائے۔
لہٰذا، جو لوگ توہین کے نام پر انارکی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ درحقیقت اہل بیت (ع) کی تعلیمات کے خلاف عمل کر رہے ہیں۔ دین کی اصل روح عدل، انصاف، اور صبر میں ہے، نہ کہ جذباتی شدت پسندی میں۔ ہمیں ان تعلیمات کو اپنا کر ایک پُرامن اور مستحکم اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہوگا۔
آپ کا تبصرہ