بدھ 16 جولائی 2025 - 19:37
غلطیوں کا ڈر: وہ خاموش دشمن جو ہماری زندگی نگل جاتا ہے

حوزہ/ یہ مضمون جذبات کے اُس کردار کا جائزہ لیتا ہے جو انسان کے اندر ہر کام کو حد سے زیادہ مکمل اور بے عیب کرنے کی ضد میں ہوتا ہے، اور اس رویے سے پیدا ہونے والی منفی کیفیتوں کو سنبھالنے کے لیے کئی عملی مشورے پیش کیے گئے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، منفی جذبات پر قابو پا کر حد سے بڑھتی کمال پسندی کا مقابلہ کریں!غلطیوں کے خوف کو کم کرنے سے لے کر جذباتی سمجھ بوجھ بڑھانے تک، یہ راستہ آپ کو سکون اور بہتر کارکردگی کی طرف لے جاتا ہے۔

جذبات انسان کے وجود میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور بعض اوقات یہ انتہا پسند کمال پسندی (Perfectionism) کے پیدا ہونے میں براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح، کمال پسندی کے بعض منفی اثرات انسان کے جذباتی پہلو پر بھی مرتب ہوتے ہیں، یہاں تک کہ جذباتی بےچینی خود اسی کمال پسندی کا نتیجہ بن جاتی ہے۔

لہٰذا، ایک طرف اگر منفی جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت نہ ہو تو یہ افراطی کمال پسندی کو جنم دے سکتی ہے، اور دوسری طرف جب کمال پسندی کی وجہ سے ذہنی دباؤ بڑھنے لگے، تو اس کے جذباتی اثرات سے نجات کی کنجی "جذباتی خود نظم و ضبط" (Emotional Self-regulation) میں پوشیدہ ہے۔ اسی پہلو سے چند اہم نکات پیش کیے جا رہے ہیں:

1. ممکنہ غلطیوں کے بارے میں فکرمندی کو کم کریں

کمال پسند افراد کی ایک بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ ممکنہ غلطیوں کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ یا تو کسی کام کو شروع ہی نہیں کرتے، یا بہت مشکل سے کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ منفی سوچ، باریکیوں میں الجھنا، اور ہر چھوٹی خامی کو بڑا سمجھنا ان کے ذہن میں خوف اور پریشانی کو بڑھا دیتا ہے۔

اس فکرمندی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور مستقبل کے لیے اُمید کو دل میں زندہ کریں۔

کاموں کو مجموعی نظر سے دیکھنا اور تھوڑی نرمی سے لینا بھی ایسے طریقے ہیں جنہیں مسلسل مشق کے ذریعے اپنایا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، کسی کام کو بہت زیادہ اہمیت دینا بھی ہماری فکرمندی اور خوف کو بڑھا دیتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر ہم کسی کام کی اہمیت کو کم تصور کریں، تو اس سے ہماری غلطی کا خوف بھی کم ہو جاتا ہے۔

مثلاً، اگر آپ کوئی تھیسس یا مقالہ لکھنے جا رہے ہیں، تو خود سے کہیں:"یہ تھیسس بس میرے علم و مہارت کا ایک چمچ بھر اظہار ہے۔"(ایسے جملوں میں واضح، عملی اور مثال پر مبنی الفاظ استعمال کریں۔) کہیں: "یہ تھیسس میرے کئی تحقیقی کاموں میں سے ایک ہے۔"

ایسا تصور ہمارے ذہن سے بوجھ ہٹاتا ہے، غلطی کا خوف کم کرتا ہے، کام سے بھاگنے کا رجحان کم ہوتا ہے، اور اس طرح ہم ٹال مٹول (Procrastination) سے بچ جاتے ہیں۔

ہماری شخصیت کا اندازہ صرف ایک کام سے نہیں، بلکہ ہمارے تمام کاموں اور کوششوں کے مجموعے سے لگایا جاتا ہے۔

2. رد کیے جانے کے ڈر پر قابو پائیں

کمال پسند افراد اکثر اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی تو رشتہ دار یا دوست انہیں رد کر دیں گے یا ان کی قدر گھٹ جائے گی۔ یہ منفی سوچ، انسان کے اندر گہری فکری اور جذباتی بےچینی پیدا کرتی ہے۔

ایسے لمحوں میں ضروری ہے کہ ہم خود کو یاد دلائیں کہ معصومینؑ کے سوا کوئی انسان مکمل نہیں۔ ہم سب سیکھنے اور بہتر ہونے کے سفر میں ہیں۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے، تو میں اس کا ازالہ تین گنا زیادہ مثبت رویوں سے کر سکتا ہوں۔ یہ رویے میرے روزمرہ کے اچھے کاموں کے ساتھ جُڑ کر دوسروں کی نظر میں میرے بارے میں مثبت تاثر پیدا کرتے ہیں۔

ہمیں ہمیشہ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ غلطی کے باوجود ہم ایک مثبت شخصیت ہیں۔ غلطی کرنا انسان کا وصف ہے، نہ کہ ہار ماننے کی دلیل۔

3. فکر و پریشانی کم کریں

کچھ کمال پسند افراد کام شروع کرنے کے بعد بھی ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ وہ اپنی منصوبہ بندی کو بار بار سوچتے ہیں، بےچین رہتے ہیں اور کام میں خوشی محسوس نہیں کر پاتے۔

اس پریشانی سے نجات کا ایک کارآمد طریقہ یہ ہے کہ دل میں یہ نعرہ بٹھائیں:"اگر ہو گیا تو بہتر، نہ ہو سکا تو بھی کوئی بات نہیں!"

یہ سوچ ذہن کو آزادی دیتی ہے، فکر کو روکتی ہے اور انسان کو اضطراب سے بچاتی ہے۔

4. اندر کی خودبینی کا اعتدال

کمال پسند افراد اپنی اندرونی کیفیت، خیالات اور جذبات پر حد سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ وہ ہر احساس کی جڑ تک پہنچنا چاہتے ہیں اور مسلسل خود کو ٹھیک کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، جو اکثر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

اس کے بجائے، ہمیں اپنی توانائیاں واضح اہداف کے تعین اور عملی اقدامات پر صرف کرنی چاہیے۔ جب ہم باہر کی دنیا میں کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمارے خیالات اور احساسات خودبخود بہتر ہونے لگتے ہیں۔

5. اپنی صلاحیتوں پر بھروسا بڑھائیں

احساسِ توانمندی یعنی یہ یقین کہ میں چیلنجز سے نمٹ سکتا ہوں اور مسائل پر قابو پا سکتا ہوں۔

یہ محض مہارت یا قابلیت کا دوسرا نام نہیں، بلکہ خود اعتمادی کا ایک زاویہ ہے۔

یہ احساس خودپسندی یا غرور کا باعث نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اللہ کی مدد و توفیق کے ساتھ جُڑا ہوا ہونا چاہیے۔ ایسا یقین انسان کو زندگی کے نشیب و فراز میں پر اُمید اور متحرک رکھتا ہے۔

6. عزتِ نفس کو مضبوط کریں

کمال پسند اکثر اس خوف کا شکار ہوتے ہیں کہ اگر ان سے کوئی کمی رہ گئی تو لوگ ان پر تنقید کریں گے، جس سے وہ مزید سست، بے عمل اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ کیفیت اکثر عزت نفس کی کمزوری کا نتیجہ ہوتی ہے۔

ضروری ہے کہ ہم خود کو یہ باور کرائیں کہ: "میری قدر ایک کام سے نہیں، میرے مجموعی وجود سے ہے۔"

اگر میری تھیسس اچھی ہو تو یہ میری قدر کا صرف ایک ذرہ ہے؛ اور اگر نہ ہو، تو اس سے میری حقیقی قدر میں کوئی خاص کمی نہیں آتی۔

کمال پسند افراد اکثر "اچھا" اور "بہتر" کو ملا کر "برا" سمجھتے ہیں، حالانکہ دونوں اچھے ہی ہوتے ہیں۔

7. خود میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کی صلاحیت (Self-Motivation)

جو لوگ کمال پسندی کے باعث ٹال مٹول (procrastination) کا شکار ہوتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ خود کو جانیں: کیا مجھے علمی نتائج سے زیادہ جذباتی وابستگی متحرک کرتی ہے؟

اگر میں جذباتی ہوں، تو خود سے پوچھوں: "میری پڑھائی سے میرے والدین، شریکِ حیات یا دوستوں کو کیسا محسوس ہوگا؟ اگر میں کوتاہی کروں تو وہ کیا سوچیں گے؟" یہ طریقہ شاید بظاہر اخلاص سے دور محسوس ہو، لیکن نیک عمل خود بخود اخلاص کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔

8. غلط ضرورتوں کا دھوکا

کئی بار ہم ایسی چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جن کی ہمیں اصل میں ضرورت نہیں ہوتی، لیکن سوشل میڈیا اور سماجی تقابل ہمیں مجبور کر دیتا ہے۔

ماضی میں لوگ اپنے والد، رشتہ داروں یا پڑوسیوں سے موازنہ کرتے تھے، مگر آج ہم خود کو دنیا کے کامیاب ترین افراد سے موازنہ کرتے ہیں۔

یہ تقابل ہمیں ایک معمولی انسان بننے سے بھی ڈراتا ہے۔

مثال کے طور پر، تحقیق کے مطابق امریکہ میں سیاہ فام خواتین گورے طبقے کی عورتوں سے زیادہ خوش ہیں، کیونکہ وہ تقابل اپنی جیسی عورتوں سے کرتی ہیں۔

9. جذباتی توازن اور منطقی سوچ

زیادہ جذباتی لوگ دوسروں کی رائے سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ وہ جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں اور اکثر ان کا ردِ عمل حد سے زیادہ ہوتا ہے۔

ایسے افراد کا موڈ اکثر اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتا ہے، جو کارکردگی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ ہم اپنے جذباتی فیصلوں کی فہرست بنائیں اور دیکھیں کہ ان کے نتائج کیا نکلے۔

پھر خود کو تصور میں ایک پُرسکون حالت میں رکھ کر فیصلہ کریں کہ اگر میں اس وقت ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کرتا تو کیا ہوتا؟

10. منفی جذبات کو قبول کریں

کمال پسند اکثر منفی احساسات کو یا تو دبانے کی کوشش کرتے ہیں یا بار بار اس کا تجزیہ کرتے ہیں، جو بے فائدہ ذہنی الجھن (rumination) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

بہتر ہے کہ ہم ان احساسات کو قبول کریں، ان سے فرار نہ اختیار کریں اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ تجزیہ کریں۔

مثلاً:"میں مانتا ہوں کہ اپنے دوست کے رویے سے مجھے دکھ پہنچا۔"0قبولیت کے ساتھ وقت گزرنے سے ان جذبات کی شدت بھی کم ہو جاتی ہے۔

11. جذباتی اظہار (Emotional Release)

کمال پسند افراد اپنی پریشانی کو اندر ہی اندر رکھتے ہیں، جس سے خوشی اور توانائی میں کمی آ جاتی ہے۔

اس کے حل کے لیے اپنے جذبات کو کسی قریبی دوست سے بانٹیں یا انہیں لکھ لیں۔

تحریر میں واقعے کی تفصیل اور اپنے جذبات کو بیان کریں، اور پھر یہ بھی لکھیں کہ اب کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اس سے ذہنی بوجھ کم ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے اثرات واضح ہوتے ہیں۔

12. جذباتی ذہانت کو مضبوط کریں

جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) یہ ہے کہ ہم اپنے اور دوسروں کے جذبات کو پہچانیں، سمجھیں اور اس پر مناسب ردِ عمل دیں۔

مثلاً: اگر کوئی ہمیں ناراض کر رہا ہے تو ہم غصے کے بجائے اپنے احساس کو مؤدبانہ انداز میں بیان کریں، اور شخصیت پر نہیں بلکہ رویے پر تنقید کریں۔

ایسی جذباتی بلوغت ہمیں دوسروں سے بہتر جوڑتی ہے، اور ہماری خود اعتمادی میں اضافہ کرتی ہے۔

13. دوسروں سے بھی غیر ضروری کمال پسندی ترک کریں

کبھی کمال پسندی صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ دوسروں سے غیر حقیقت پسند توقعات کی صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے افراد دوسروں کی چھوٹی غلطیوں پر شدید غم یا غصہ محسوس کرتے ہیں۔

اس کا حل یہ ہے کہ ہم اپنے تعلقات میں نرمی، برداشت اور لچک پیدا کریں۔ہمیں دوسروں پر اتنا ہی وقت اور توانائی صرف کرنی چاہیے جتنی ہماری استطاعت ہو، ورنہ توقعات بڑھیں گی اور دل شکنی ہو گی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha