تحریر :محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی| تعلیم ہر معاشرے کی ترقی کی روح ہے۔ لداخ میں، جو زمین وہ اپنے خوبصورت مناظر کے ساتھ ساتھ شدید چیلنجز سے بھی بھری ہوئی ہے، ہر بچے تک معیاری تعلیم پہنچانا محض پالیسی کا ہدف نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ افسوس کہ بہت سے بچے ثانوی تعلیم (Secondary School) کے بعد تعلیم ترک کر دیتے ہیں اور اس میں اساتذہ کی کمی، غیر منصوبہ بند تبادلے اور بغیر سوچے سمجھے اسکول مرجر (School Mergers) کی پالیسی مزید رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ مسائل، جو بظاہر انتظامی دکھائی دیتے ہیں، دراصل ان نوجوان ذہنوں کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، جو اس علاقے کا مستقبل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لداخ کے ہر بچے کے حق تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع اور شفاف ایجوکیشن اینڈ ٹرانسفر پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔
تعلیم صرف کتابوں کا مطالعہ نہیں، بلکہ وہ روشنی ہے جو کردار، حوصلہ اور زندگی سے جڑنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ نصاب میں صرف ریاضی اور سائنس نہیں بلکہ لداخ کی زبان، تاریخ، ثقافت اور ماحولیات شامل ہونا ضروری ہے۔ جب بچے اپنی زندگی کو اپنے مطالعے میں دیکھیں گے تو تعلیم ان کے لیے معنی خیز اور متاثر کن بن جائے گی۔ امتحانات کا شیڈول مقامی موسم کے مطابق ترتیب دینا، اور اسکولوں میں بنیادی سہولیات جیسے ہیٹنگ، بجلی اور صاف پانی فراہم کرنا والدین کے اعتماد کو بڑھاتا ہے اور بچوں کی تعلیم کے تسلسل کو یقینی بناتا ہے۔
حقیقی تعلیم بچوں کو نہ صرف امتحانات پاس کرنے کے قابل بناتی ہے بلکہ عملی زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار کرتی ہے۔ لداخی طلبہ کو ہنر پر مبنی تعلیم (Skill-based Education)، جدید ٹیکنالوجی (Modern Technology) اور ICT Labs (آئی سی ٹی لیبز) فراہم کرنی چاہیے، تاکہ وہ نہ صرف تعلیم یافتہ ہوں بلکہ عملی زندگی میں بھی کامیاب ہوں۔ اساتذہ کی تربیت اور طلبہ کے لیے ایکسچینج پروگرام (Exchange Programs) انہیں قومی سطح کے تجربات سے روشناس کرواتے ہیں اور وسیع وژن عطا کرتے ہیں۔ عملی علم اور فکری تربیت کے امتزاج سے طلبہ خود اعتماد اور قابل بن جاتے ہیں۔
ہر اسکول کو اپنی منفرد ضروریات کے مطابق School Development Plan (ترقیاتی منصوبہ) تیار کرنا چاہیے اور ضلعی سطح پر اس کا باقاعدہ جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ اس کی پیشرفت یقینی بنائی جا سکے۔ کامیاب تعلیمی ماڈلز کو پورے علاقے میں نافذ کرنا چاہیے تاکہ بہترین عمل ہر اسکول کا معیار بن جائے۔ والدین اور کمیونٹی کو School Management Committees (ایس ایم سی) کے ذریعے شامل کرنا چاہیے تاکہ تعلیم صرف حکومت کی ذمہ داری نہ رہے بلکہ ایک اجتماعی سماجی مشن بن جائے۔
اگر یہ تجاویز عملی طور پر نافذ ہو جائیں تو لداخ میں تعلیمی معیار بلند ہوگا، طلبہ کی تعداد اسکولوں میں بڑھے گی، اور نوجوان ہنر مند، بااعتماد اور اپنی ثقافت پر فخر کرنے والے بنیں گے۔ تعلیم ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا؛ یہ وہ روشنی ہے جو مستقبل کا راستہ روشن کرتی ہے۔ ہمیں بطور سماج یہ عہد کرنا چاہیے کہ لداخ کا کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے اور یہ خطہ تعلیم کا ایک روشن مینار (Beacon of Education) بنے، جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں۔









آپ کا تبصرہ