تحریر: محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی | لداخ اپنی بلند و بالا پہاڑوں، منفرد ثقافت اور جغرافیائی اہمیت کے لیے دنیا میں ممتاز ہے، مگر حالیہ برسوں میں یہ خطہ سیاسی اور سماجی چیلنجز کا بھی مرکز رہا ہے۔ 24 ستمبر 2025 کو ہونے والے احتجاج میں پانچ افراد کی جانیں ضائع اور درجنوں زخمی ہوئے، جس سے یہ واضح ہوا کہ مسائل صرف انتظامی نوعیت کے نہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی پیچیدگیوں سے جڑے ہیں۔ صرف سکیورٹی اقدامات یا پولیس کارروائیاں مسائل کا مستقل حل نہیں ہیں، بلکہ جامع سیاسی حکمت عملی، مقامی نمائندگی اور عوامی شراکت ضروری ہے۔
2019 میں جموں و کشمیر سے علیحدگی کے بعد مقامی عوام میں ابتدا میں امید تھی، مگر اسمبلی اور مقامی نمائندگی کی کمی نے اہم فیصلے مرکز میں کیے جانے کا احساس پیدا کیا۔ زمین، وسائل، روزگار اور ثقافتی شناخت کے تحفظ کے لیے کوئی مؤثر آئینی یا عملی ڈھانچہ موجود نہیں۔ یہ محرومی نہ صرف روزگار اور سرمایہ کاری کی کمی کا سبب بنی بلکہ مقامی شمولیت کی غیر موجودگی نے دیرینہ بے چینی پیدا کی۔ آج عوام کے مطالبات ریاستی درجہ، چھٹے شیڈول کے تحت آئینی تحفظ اور مقامی خودمختاری تک محدود ہیں۔
نوجوانوں کی بھڑکتی ہوئی بے چینی
لداخ کے نوجوان احتجاج اور کشمکش کے قلب میں ہیں۔ نوجوان اپنی ثقافت، زبان اور مقامی شناخت کے محافظ ہیں اور غیر مقامی اثرات یا تیزی سے بدلتی آبادی کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ سیاسی نمائندگی کی کمی اور سنی نہ جانے والی شکایات انہیں بے چینی اور غصے کی طرف لے جاتی ہیں۔
اقتصادی محرومی بھی ایک اہم عنصر ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے مقامی سطح پر روزگار کے محدود مواقع انہیں احتجاج یا بعض اوقات تشدد کی طرف لے جاتے ہیں۔ مقامی سرمایہ کاری، ہنر مندی اور ترقیاتی منصوبوں کی کمی نوجوانوں میں سماجی بغاوت یا نقل مکانی کے امکانات بڑھاتی ہے، کیونکہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی محنت اور قابلیت کا کوئی مناسب فائدہ نہیں مل رہا۔
سیاسی نمائندگی کی کمی بھی نوجوانوں میں بے چینی پیدا کرتی ہے۔ مقامی لوگ اہم فیصلوں میں براہِ راست شامل نہیں کیے جاتے، جس سے غیر محفوظ اور محروم ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ان تمام عوامل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے مسائل صرف جذباتی نہیں بلکہ گہرے سماجی، اقتصادی اور سیاسی جڑوں سے جڑے ہیں۔
تشدد بمقابلہ پرامن جدوجہد
24 ستمبر کے واقعات نے واضح کیا کہ جائز مطالبات پر طویل عرصے تک ردعمل نہ ملنے سے نوجوانوں میں جذباتی پھٹنا پرتشدد شکل اختیار کر سکتا ہے۔ تاہم نوجوانوں کے غصے کو صرف “غیر قانونی” قرار دینا درست نہیں۔ اس کے پیچھے اقتصادی محرومی، نمائندگی کی کمی اور مستقبل کی غیر یقینی شامل ہیں۔ تشدد مسائل کا حل نہیں، بلکہ پرامن جدوجہد دیرپا، مؤثر اور اخلاقی طور پر قابل قبول راستہ ہے۔
حکومتِ ہند سے خطاب:
محترم حکومتِ ہند، لداخ کے مقامی عوام آپ سے چند فوری اور اہم اقدامات کی توقع رکھتے ہیں:
1. ریاستی درجہ اور آئینی تحفظ: لداخ کے عوام کے مطالبات، چھٹے شیڈول کے تحت مقامی خودمختاری اور ریاستی درجہ پر شفاف مکالمے کے ذریعے حل کیے جائیں۔
2. معاشی مواقع اور روزگار: فوری روزگار کے پروگرام، ہنر مندی کی تربیت اور مقامی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے تاکہ نوجوان معاشی طور پر خودمختار ہوں۔
3. زخمیوں اور شہداء کے اہلِ خانہ کی مدد: احتجاج کے دوران زخمی ہونے والے نوجوانوں اور شہداء کے اہلِ خانہ کو فوری مالی، طبی اور سماجی معاونت فراہم کی جائے۔
4. پر امن مکالمہ اور فلاحی اقدامات: احتجاج کو صرف قانون و نظم کا مسئلہ نہ سمجھا جائے بلکہ سیاسی و سماجی بحران کے طور پر حل کیا جائے۔
یہ اقدامات عوام میں اعتماد اور سکون پیدا کریں گے اور لداخ میں دیرپا امن اور ترقی کے راستے کھولیں گے۔
نتیجہ
لداخ کے جوان خطے کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ ان کی توانائی اگر پرامن جدوجہد کے ذریعے استعمال کی جائے تو یہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی ترقی کی ضمانت بن سکتی ہے۔ حکومت اور مقامی کمیونٹی دونوں کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو رہنمائی، شفاف نمائندگی اور معاشی مواقع فراہم کریں۔
اب وقت ہے کہ ہم سب مل کر لداخ کو ایسا خطہ بنائیں جہاں امن، انصاف اور ترقی سب کے لیے یقینی ہوں، اور نوجوان اپنی توانائی کو تعمیر و ترقی کے لیے وقف کریں۔ پرامن جدوجہد اور نوجوانوں کی مثبت شمولیت ہی لداخ کے روشن مستقبل کی کنجی ہیں۔









آپ کا تبصرہ