تحریر : محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی | خطے لداخ کو یونین ٹیریٹری کا درجہ مل گیا ہے جو لداخی عوام کے دیرنہ مانگ تھی، تو اب کیوں ان کے نمائندے آئینی شق کے دائرے میں لانا چاہتے ہیں اور کیوں خصوصی اختیارات کے ساتھ خود مختار کونسلوں کے قیام کی مانگ کررہے ہیں؟ ان کے مطالبات کیا ہیں ؟ انکے آئینی حقوق کیا ہے ؟ چھٹا شیڈول کیا ہے اور کیا لداخ کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے؟
لداخ ہندوستان کے شمال میں واقع ایک کوہستانی علاقہ ہے ۔جوجغرافیائی لحاظ سے منفرداورکافی دشوارگذارسرینگرسے 418کلومیٹرکی مسافت پرشمال میں قراقرم کے سلسلہ کوہستان اوردریائے سندھ ، جنوب میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں گھرا ہوادواضلاع لہیہ اورکرگل پرمشتمل خطہ لداخ 9,800فٹ سطح مرتفع پرواقع ہے ۔ جس کا کل زمینی رقبہ 59,146مربع کلو میٹریعنی22,836مربع میل پرمشتمل ہے۔لداخ کی حدود مشرق میں چین کے علاقے تبت، جنوب میں بھارت کی ریاست ہماچل پردیش، مغرب میں جموں اور شمال میں چین سے اور جنوب مغرب میں پاکستان سے ملتی ہیں۔واضح رہے کہ لداخ کے ان دو اضلاع کو پہلے سے ہی وادی کشمیرکی انتظامیہ سے کاٹ دیاگیاتھااور 1993میں''لداخ خود مختار ہل ترقیاتی کونسل'' (Ladakh Autonomous Hill District Councils)قائم ہوئی اوراسی کے ذریعے سے لداخ خطے کوچلایا جا رہا تھا۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاؤن کے دوران موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی اور پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اور قرار داد اکثریت کی بنیاد پر منظور کرلی گئی۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟۔
26 اکتوبر 1947 کو مہاراجا ہری سنگھ اور بھارت کی حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ طے پایا تھا کہ کشمیر کو آئینی طور پر خصوصی حیثیت دی جائے گی، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے 17 اکتوبر 1949 کو آرٹیکل 370 نافذ کردیا گیا حالانکہ اس وقت بھارت کا وفاقی آئین ابھی تیاری کے مراحل میں تھا جو بعد ازاں 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا اور اسی کی مناسبت سے ہندوستان میں ہر سال 26 جنوری کو ری پبلک ڈے منایا جاتا ہے۔
ہندوستان کے آئین میں کشمیر کے حوالے سے دو بنیادی آرٹیکل شامل تھے جن میں آرٹیکل ون کہتا ہے کہ جموں وکشمیر ہندوستان کی ایک ریاست ہے اور دوسرا آرٹیکل 370 تھا جس کی حیثیت عارضی قرار دی گئی تھی لیکن وہ مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا تھا، بعد ازاں 14 مئی 1954 کو ایک صدارتی آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کو دی کانسٹی ٹیوشن ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر 35 اے کا نام دیا گیا اور بھارتی آئین میں شامل کردیا گیا، اس وقت بھارت کے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد تھے۔
آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں کے شہریوں کو کشمیر میں مستقل شہریت سے محروم کردیا گیا اور اسی کے تحت واضح کیا گیا تھا کہ جموں کشمیر کا مستقل شہری کون ہے اور کون زمین خرید سکتا ہے۔خیال رہے کہ بھارت نے 17 نومبر 1956 کو جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا تھا اور آرٹیکل 35 اے کو اس کا حصہ بنایا گیا، جموں و کشمیر کا آئین بھی ریاست کو بھارت کا حصہ قرار دیتا ہے،۔
آرٹیکل 370 کے اہم نکات یہ ہیں:-
- جموں و کشمیر کو بھارت کا آئینی حصہ قرار دیا گیا۔
- جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے اور کشمیری اپنے لیے قوانین خود بنائیں گے اور ریاست پر بھارتی قوانین لاگو نہیں ہوں گے۔
- جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت عارضی ہے۔
- آرٹیکل 370 میں اس کی منسوخی کا بھی طریقہ کار وضع کیا گیا اور کہا گیا تھا کہ صدر چاہے تو ایک حکم جاری کرکے اس کو ختم کرسکتا ہے مگر اس کے لیے انہیں جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی سے اجازت لینا ہوگی۔
جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی 1957 میں بھی ختم ہوگئی تھی اور انتخابات کے نتیجے میں جو اسبملی سامنے آئی اس کو قانون ساز کہا گیا تھا اور بھارتی حکام اس آرٹیکل کے خاتمے میں اس شق کو رکاوٹ قرار دے رہے تھے اور کہا جاتا تھا کہ اس شق کی موجودگی میں آرٹیکل کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
آرٹیکل 35 اے :
اس خصوصی قانون کے خاتمے کے بعد اب بھارت بھر کے رہائشی جموں و کشمیر میں جائیداد خرید کرکشمیر کے وادی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کر سکیں گے۔
کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ اب بڑی تعداد میں ہندو مقبوضہ کشمیر کا رخ کریں گے اور یہاں رہائش اختیار کریں گے جس کے نتیجے میں مسلم اکثریتی خطے میں جغرافیائی تبدیلیاں آئیں گی اور کشمیر ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل ہو جائے گا۔
لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے 5 اگست 2019 کو راجیا سبھا میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے بل پیش کیا اور کہا کہ صدر نے بل پر دستخط کر دیے ہیں۔
آرٹیکل 370 کو ختم کرکے وہاں کانسٹی ٹیوشن (ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر) آرڈر 2019 خصوصی آرٹیکل نافذ کردیا ۔ اور جموں و کشمیرکو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا، لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔اس لئے 2019 سےخطے لداخ کے عوام اور نمائندے پچھلے تین سالوں سے زمین، وسائل اور روزگار کے تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں ایک طرف سے یہ بھی خدشہ ہے کہ بڑے بڑے کاروباری ادارے مقامی لوگوں سے زمینیں اور نوکریاں چھین لے جسکی وجہ سے لداخیوں کو اپنے وطن میں رہنا بھی دشوار ہوسکتا ہے۔
اس لئے لداخ کے دو مشہور سیاسی ، سماجی اور مذہبی نمائندوں کے گروہ، لیہہ ایپکس باڈی(LAB) اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس(KDA) مسلسل تین سالوں سے حکومت سے چار اہم مطالبات لے کر مظاہرے کررہےہیں جن میں لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنا کامطالبہ، لداخ کو مکمل ریاستی درجہ دینے کا مطالبہ ،مقامی لداخیوں کے لیے ملازمت میں ریزرویشن، لداخ کے لیے ایک علیحدہ پبلک سروس کمیشن، اور مرکز میں ان کی نمائندگی کے لیے لیہہ اور کرگل کے لیے دو پارلیمانی نشستیں شامل ہیں۔
لداخ کے جغرافیائی محل وقوع اور Strategic اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے کی منفرد ثقافت اور زبان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا اور اسکی ترقی کے لئے حکمت عملی بنانا اور لیہہ اور کرگل کی لداخ خود مختار پہاڑی ضلع کونسلوں کو بااختیار بنانے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کرنا اس وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے ۔ان مطالبات میں سب سے پہلا مطالبہ لداخ کو مکمل ریاستی درجہ دینے کا ہے تاکہ لداخ میں رہنے والے افراد کو ترجیحات میں شامل کیا جا سکے اور لداخ کو جب تک ریاست کا درجہ نہیں ملے گا تب تک لداخ میں رہنے والے افراد کی مشکلیں آسان نہیں ہو پائیں گی کیونکہ لداخ ایک منفرد نوعیت کا علاقہ جہاں کی تہذیب و ثقافت، زبان اور ادب سبھی سے مختلف ہے۔اس لئے لداخی عوام زمین اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت شامل کرنے کے مطالبے پر زور دے رہے ہیں۔
چھٹا شیڈول کیا ہے؟
- آرٹیکل 244:آرٹیکل 244 کے تحت چھٹا شیڈول خود مختار انتظامی ڈویژنز - خود مختار ڈسٹرکٹ کونسلز (ADCs) - کی تشکیل کے لیے میدان فراہم کرتا ہے جس کے تحت وہ ریاست کے اندر کچھ قانون سازی، عدالتی اور انتظامی خود مختاری رکھتے ہیں۔اس مادہ کے تحت چھٹے شیڈول میں چار شمال مشرقی ریاستیں جیسے آسام، میگھالیہ، تریپورہ اور میزورم کے قبائلی علاقوں کے انتظام کے لیے خصوصی دفعات شامل ہیں۔
- خود مختار اضلاع(Autonomous Districts): ان چار ریاستوں کے قبائلی علاقوں کو خود مختار اضلاع کے طور پر تشکیل دیا گیا ہے۔ گورنر کو خود مختار اضلاع کو منظم اور رد و بدل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔لیکن پارلیمنٹ یا ریاستی مقننہ کے قانون خود مختار اضلاع پر لاگو نہیں ہوتے ہیں یا مخصوص ترمیمات اور مستثنیات کے ساتھ لاگو ہوتے ہیں۔
- ضلع کونسل(District Council): ہر خود مختار ضلع میں 30 اراکین پر مشتمل ایک ضلع کونسل ہوتی ہے، جن میں سے چار گورنر نامزد کرتے ہیں اور باقی 26 بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔منتخب اراکین پانچ سال کی مدت کے لیے عہدہ رکھتے ہیں (جب تک کہ کونسل پہلے تحلیل نہ ہو جائے) اور نامزد اراکین گورنر کی خوشنودی کے دوران عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔اور ہر خود مختار علاقے کی ایک الگ علاقائی کونسل بھی ہوتی ہے۔
- کونسل کے اختیارات(Powers of the Council): ضلعی اور علاقائی کونسلیں اپنے دائرہ اختیار کے تحت علاقوں کا انتظام کرتی ہیں۔ وہ کچھ مخصوص معاملات جیسے زمین، جنگلات، نہری پانی، منتقلی کاشت، گاؤں کا انتظام، جائیداد کی وراثت، شادی اور طلاق، سماجی رسم و رواج وغیرہ پر قانون بنا سکتے ہیں۔ لیکن ان تمام قوانین کے اجراءکے لیے گورنر کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
یہ کونسلرز قبائل کے درمیان مقدمات کی سماعت کے لیے ویلج کونسل یا عدالتیں تشکیل دے سکتے ہیں۔ ان کی طرف سے اپیلیں سنتے ہیں۔ لیکن ان مقدموں اور مقدمات پر ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار گورنر کے ذریعے متعین کیا جاتا ہے۔اور یہ کونسل ضلع میں پرائمری اسکول، ڈسپنسریاں، بازار، فشریز، سڑکیں وغیرہ قائم، تعمیر یا ان کا انتظام کر سکتی ہے۔اور انہیں زمین کی آمدنی کا اندازہ لگانے اور جمع کرنے اور کچھ مخصوص ٹیکس لگانے کا اختیار حاصل ہے۔
لداخ کیوں چھٹے شیڈول کا حصہ بننا چاہتا ہے؟
لداخ کو تاریخی طور پر ایک کاسموپولیٹن خطہ سمجھا جاتا ہے جس میں صدیوں کی متعدد ثقافتی ترتیبات موجود ہیں۔یہ ایک ایسا خط ہے جہاں کے لوگ متنوع ثقافت اور خیالات کے مالک ہیں ، لداخ کے ۹۰ %آبادی قبائلی ہے اور یہ سارے قبائل جیسے بلتی ، بٹو،برقپا،درد، شنا ، چانگپا، گررا ، من اور پرکی وغیرہ یہ سب (STs) کے معیار ات میں شامل ہوتے ہیں۔
لداخ کی قبائلی آبادی (Tribal populations)کو دیکھا جائے تو لداخ ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے بھی مختلف باشندوں کی جگہ ہے جسمیں برقپا، بلتی ، چانگپا اور دوسرے تہذیب اور ثقافت کے لوگ زندگی بسر کرتے ہیں جنکی حفاظت اپنے آپ میں ایک ضروری امر ہے ۔اس بناپر لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے ۔
لداخی عوام UT کے ساتھ مقننہ کی بھی درخواست کررہے تھے لیکن حکومت نے ان کو صرف یونین ٹیریڑی بنا کر باقی حقوق پائمال کردیئے جس ناانصافی کو لیکر خطے کے سبھی عوام رنجیدہ نظر آرہے ہیں اس لئے کہ یونین ٹیریٹری بنے سے پہلے لداخی عوام کے علاوہ کسی کوبھی زمین خرید نے کاحق نہیں تھا لیکن یونین ٹیریٹری کے بعد یہ امکان ہوا ہے کہ غیر لداخی بھی زمین خرید سکے۔ یہ خدشہ بھی ان کو چھٹے شیڈول کے مطالبہ پر مجبور رکررہاہے ۔
ایک طرف سے ڈومیسائل کا نیا معیار(New domicile criteria) جموں و کشمیر میں تبدیل شدہ ڈومیسائل پالیسی نے خطے میں اپنی زمین، روزگار، آبادی اور ثقافتی شناخت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے اس نے بھی چھٹے شیڈول کے مطالبہ میں ایک کردار نبھایا ہے ۔اس بناپر ریاستی حیثیت کا مطالبہ(Statehood demands) لیہہ اور کرگل میں سماجی، مذہبی اور سیاسی نمائندوں کے بنیادی نعراہ ہے ان حقوق کے رعایت کئے بغیر لداخی عوام کو بہترین زندگی میسر نہیں ہوسکے گی اس لئے انکے مطالبات اور حقوق کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری بن چکی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت نے کوئی عکس العمل نہیں دیکھایا ہےاس لئے خطے لداخ کے تمام سیاسی ، اجتماعی اور مذہبی نمائندے کبھی لداخ ، کبھی جموں اور کبھی دہلی میں مظاہرے کرتے ہیں تاکہ حکومت انکے مانگوں کو سنکر خاظر خواہ جواب دے سکے ۔