جمعہ 22 اگست 2025 - 20:11
صلح امام حسن (ع)؛ دین کی حفاظت

حوزہ/امام حسن علیہ السلام کی زندگی کے متعلق وه سوال کہ جو غیروں سے زیادہ اپنوں کی طرف سے پوچھا جاتا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کیوں کی؟ اگر کوئ یہ کہے کہ امام حسن علیہ السلام معاویہ سے جنگ کے مخالف تھے تو تاریخ اسکی بات کو غلط ثابت کرتی نظر آتی ہے، حضرت کی پوری زندگی اور آپکے خطبوں کا انداز اس بات کی گواہی نہیں دیتا۔

تحریر : محترمہ سیدہ عزیزہ فاطمہ نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی| امام حسن علیہ السلام کی زندگی کے متعلق وه سوال کہ جو غیروں سے زیادہ اپنوں کی طرف سے پوچھا جاتا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کیوں کی؟ اگر کوئ یہ کہے کہ امام حسن علیہ السلام معاویہ سے جنگ کے مخالف تھے تو تاریخ اسکی بات کو غلط ثابت کرتی نظر آتی ہے، حضرت کی پوری زندگی اور آپکے خطبوں کا انداز اس بات کی گواہی نہیں دیتا۔

آپ نے بہت صاف الفاظ میں اہل عراق کے سامنے اپنے موقف کا اعلان کیا اور فرمایا کہ معاویہ ہم کو ایسے کام کے لئے بلا رہا ہے جس میں نا عزت ہے نا کوئ فائدہ. اگر تم جان دینے کے لئے تیار ہو تو ہم اس پیشنہاد کو رد کرکے اپنی تلواروں چلائں اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دیں اور اگر تم لوگ زندگی چاہتے ہو تو ہم اس صلح کو مان لیں جس کےنتیجے میں تم لوگ سکون سے رہو! حضرت کے جواب میں ہر طرف سے لوگوں کی آوازیں جو بلند ہوئں وہ یہی تھیں کہ ہم صلح چاہتے ہیں۔

امام حسن کی صلح تاریخ کے ان واقعات میں سے ہے جسکی خبر وقوع سے پہلے رسول اکرم دے چکے تھے. ان الفاظ کے ساتھ کہ یہ میرا فرزند سردار ہے اور یہ میری امت کے دو گروہوں میں صلح کا سبب بنےگا.

آئیے دیکھیں کہ جب یہ سوال خود امام حسن سے پوچھا گیا کہ آپنے کیوں صلح کی؟؟؟ تو حضرت نے اسکا کیا جواب دیا؟

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر عالم کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ پوچھنے والے کو مد نظر رکھتے ہوۓ سوال کا جواب دیتا ہے. ہم کو نظر آتا ہے کہ امام حسن بھی پوچھنے والوں کی نیت اور معیار فکری کو مد نظر رکھتے اپنے اقدام کی مختلف وجہیں بتاتے ہیں. ان جوابوں پر نظر ڈالنے سے کسی حد تک اس زمانے میں امام کو جو حالات درپیش تھے اس کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.

جاں نثاروں کی کمی اور اپنے کمانڈروں کی خیانت

ایک حکومت کو چلانے کے لئے سب سے پہلے ساتھ دینے والے افراد کی ضرورت ہے. تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے نظر آتا ہے کہ اکثریت نے امام حسن کا ساتھ نہیں دیا تھا. عوام جنگ سے گریزاں تھی اور خواص اپنے مفاد کو ترجیہ دے رہے تھے. امام کے لشکر کے بڑے کمانڈر اور افسر معاویہ کی دی ہوئ رشوت اور وعدوں کے بہکاوے میں آگۓ تھے. یہ وہ درد تھا کہ جسکا ذکر بارہا امام کی زبان مبارک سے بیان ہوا کہ اگر میرے پاس با وفا انصار ہوتے تو میں شب و روز معاویہ سے جنگ کرتا.

ساباط میں امام کے خیمےکے اندرلوٹ مچانے والوں نے یہ سب پر ثابت کر دیا کہ امام کے قریبی لوگوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جن پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا. امام کبھی عمومی خطبوں میں، کبھی خصوصی جلسوں میں اپنے چاہنے والوں کے درمیان عوام کی سستی اور خواص کی عافیت طلبی کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں. ایک خطبے میں امام اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ تم ہی لوگ تھے کہ میرے والد بزرگوار کا ساتھ نہیں دیا اور صفین حکمیت پر ختم ہوئ! یا کبھی فرمایا کہ اگر میں معاویہ سے جنگ کروں تو تم لوگ وہ ہو کہ جو مجھے دست بستہ اسیر کرکے معاویہ کے حوالے کر دوگے! ایک اور جگہ اس وقت کےعراقیوں کے بارے میں یوں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جس نے ان پر بھروسا کیا وہ مغلوب ہوا!

یقینا ایسے لوگوں پر کس طرح اعتماد کیا جا سکتا تھا جو اگر امام کے گرد جمع نظر آرہے تھے مختلف اغراض اورتو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر، بس. وہ بھی اس لشکر کے مقابلہ میں جو ایک ہدف کے تحت جمع ہوۓ ہوں کہ انہیں ہر حال میں اپنے امیر کی اطاعت کرنا تھی. جس کے سرداروں میں بسر بن ارطاة جیسے شقی القلب موجود تھے!!! شاید یہی وجہیں تھیں کہ امام نے زيد بن وهب جهنى سے فرمایاکہ ان (جیسے) لوگوں کے لئے معاویہ مجھ سے بہتر ہے. یہ دعوی کرتے ہیں کہ میرے شیعہ ہیں جبکہ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں، میرے مال کو غارت کرتے ہیں.

ایک بڑی تعداد جنگ سے بچنا چاہتی تھی

جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا، یہ وہ وقت تھا کہ اکثر افراد جنگ سے گریزاں تھے. ایک طرف تقریبا ایک سال تک چلنے والی صفین اور اسکے علاوہ جمل اور نہروان کی جنگیں جن میں ہزاروں سپاہی جان دے چکے تھے. دوسری طرف لوگوں میں ایمان کی کمی تھی جو اتنی قربانیاں دینے کی اجازت نہیں دیتی تھی. جسکی طرف امام علیہ السلام نے عدی بن حاتم کے جواب میں اشارہ کیا کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کی اکثریت صلح کرنا چاہتی ہے اور جنگ کو پسند نہیں کرتی تو میں نے بھی ان پر زبردستی کرنا پسند نہیں کی۔

دین کی حفاظت کے لئے

اس صلح کی ایک وجہ جو خود امام علیہ السلام نے بیان فرمائ وہ خود مسلمانوں کی حفاظت تھی. آپ نے فرمایا: "مجھے ڈر تھا کہ کہیں زمین سے مسلمانوں کا وجود ختم نہ ہو جاۓ تو میں نے صلح کا ارادہ کیا".

اگر امام حسن علیہ السلام ان حالات میں معاویہ سے جنگ کرتے تو اصل دین خطرے میں پڑ جاتا. یہ کون سا خطرہ تھا جسکی طرف امام علیہ السلام اشارہ فرما رہے تھے؟؟ در حقیقت یہ وہ زمانہ تھا کہ اسلام کو دو طرفہ خطرے کا سامنا تھا. ایک باہری دشمن اور ایک داخلی دشمن. اگر اسلامی ممالک میں انتشار جاری رہتا تو حکومت روم یقینا اس فرصت سے فایدہ اٹھاتی اورتا حد امکان اپنے نقصانات کی تلافی کے لئے کوشش کرتی. مسلمانوں کی سالوں سال کی قربانیاں اور محنتیں رایگاں چلی جاتیں اور روم منطقہ میں دوبارہ اپنے قدم جما لیتا.

شیعوں کی حفاظت

ایک اور مہم نکتہ جسکی طرف توجہ ضروری ہے کہ اس جنگ کے لئے معاویہ نے کافی تیاری کی تھی. اگر ان حالات میں امام جنگ فرماتے کہ اکثریت جنگ سے گریزاں تھی اس وقت میدان میں امام کا ساتھ دینے کے لئے کون باقی رہتا؟ یقینا امام کے مخلص شیعہ ہی امام کے ساتھ ہوتے اور باقی فرار کر جاتے. اس نابرابر جنگ میں فتح کا امکان بہت کم تھا. اس صلح کے زریعہ امام نے شکست کی ذلت سے مومنین کو بچا لیا.جسکی طرف خود ان الفاظ میں اشارہ کیا کہ میں مومنین کے لئے سبب عزت ہوں نہ ذلت، میں نے جب تمہارے اندر جنگ کی سکت نہیں پائ تو حکومت کو تسلیم کیا تا کہ میں بھی باقی رہوں اور تم لوگ بھی محفوظ رہو. یقینا اس جنگ میں امام کے حقیقی چاہنے والے، سب ایک ساتھ شہید ہو جاتے، کہ جنکی تعداد کوئ زیادہ نہ تھی.ایسے حالات میں شیعت کی حفاظت کے لئے بہترین اقدام جنگ سے گریز تھا.

امام باقر علیہ السلام سدیر صیرفی کے جواب میں اس طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ بس کرو!! (یہ نہ کہو کہ کیوں امام حسن نے خلافت معاویہ کے حوالے کر دی!) وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کررہے ہیں!!! اور اگر یہ نہ کرتے تو شیعہ ختم ہو جاتے اور اک عظیم حادثہ پیش آتا.

یہاں پر صرف ایک سادہ لوح شخص کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ آخر معاویہ نے قدرت ہاتھ میں آتے ہی سب سے پہلا کام جو کیا وہ یہی کہ شیعیان امیرالمومنین کو چن چن کے قتل کرنا شروع کر دیا. یہاں تک کہ حجر بن عدی اور رشید ہجری جیسے ذھاد اور خود امام حسن! تو اگر اسی وقت جنگ ہو جاتی اور یہ اصحاب میدان کارزار میں جام شہادت نوش کرتے تو کیا بہترنہ ہوتا؟؟!.

مگریہ کہنا صحیح نہیں کیوںکہ اگراس وقت چاہنے والوں کی کمی کے باوجود جنگ ہو جاتی اور یہ حضرات شہید ہو جاتے تو وہ چند سال کی مہلت جو تبلیغ دین کے لۓ امام کو حاصل ہوئ وہ ہاتھ نہ آتی. جسکا نتیجہ ہمیں سنہ 61 ہجری میں نظر آگیا. تاریخ گواہ ہے کہ کربلا میں امام حسین کے ساتھ سو سے زیادہ جان نصار اصحاب موجود تھے جن میں ہر ایک جانباز ایک معمولی سپاہی نہیں، بلکہ اگر حالات ساتھ دیتے، تو ایک لشکر کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے. انہوں نے اس جان فرصا حالات میں بھی امام حسین کا ساتھ نہیں چھوڑا. مگر امام حسن کے پاس ایسے انگشت شمار افراد ہی تھے. کربلا میں اس عزم و ارادہ کے افراد کا اتنی تعداد میں جمع ہو جانا اسی فرصت کا نتیجہ تھا جو صلح سے حاصل ہوئی تھی.

دوسرا پہلو یہ کہ اس وقت جنگ میں شہید ہونے کی با نسبت بعد میں معاویہ کے کارندوں کے ہاتھوں مظلومیت کے ساتھ شہید ہونا، معاویہ کی ناانصافی اور اسکی حکومت کی جارحیت کو برملا کرتا ہے. مثلا حجر بن عدی اگر امام کے ساتھ میدان جنگ میں شہید ہوتے تو اسکی نوعیت کچھ اور ہوتی لیکن اس صلح کے بعد جس طرح وہ اور انکے ساتھی شہید کئے گئے اسکی مظلومیت کی داستان تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوئ. یہ، اور اس طرح کے دیگر دردناک واقعات نے معاویہ کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھایا. جسکے بعد شیعہ ہی نہیں بلکہ معاویہ کے ساتھیوں کی بھی صداۓ اعتراض بلند ہوئ حتی زوجہ رسول عایشہ! بھی اس ظلم پر خاموش نہ رہ سکیں.

پسر ابو سفیان صلح کے شرائط پر پابند نہ رہے اور شیعیان امیرالمومنین (کہ جن میں سے اکثر کو اصحاب رسول ہونے کا شرف بھی حاصل تھا) پر ظلم و ستم نے معاویہ کی شخصیت کو لوگوں کی نظر میں گرایا ساتھ ہی حقانیت امام حسن علیہ السلام کی روشن دلیل بنے.

ہر معصوم کی ذمہ داری دوسرے معصوم سے الگ ہوتی ہے

امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل پیامبر اکرم (ص) پر نازل ہوۓ آپکے ساتھ ایک مہر کیا ہوا خط تھا. جسے پیامبر کے حوالےکیا اور کہا کہ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ اسکو آپ اپنے ورثا کو دیں. چنانچہ امیرالمومنین نے ایک مہر کھولی اور اس کاغز پر جو لکھا تھا اس پر عمل کیا. امام حسن نے دوسری مہر کھولی اس پر جو لکھا تھا تو آپنے صلح کی. اسی طرح ہر معصوم نے اپنے زمانے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کیا. یہ سبب امام حسن نے ابو سعید کو بتایا جب انہوں نے عرض کیا کہ جب آپ حق پر ہین تو کیوں اس طرح باطل سے صلح کی؟

امام نے فرمایا: کیا میں حجت خدا اور امام نہیں ہوں؟ کہا : ہاں! آپ بےشک امام ہیں. تو امام نے فرمایا: پھر اعتراض کی کوئ گنجائش نہیں. چاہے میں قیام کروں یا صلح کروں.

یہاں پر اپنے چاہنے والوں کے بےقرار دل کواس طرح سمجھایا:" اے ابو سعید! رسول اکرم نے کفار سے صلح کی!، ان کفار سے جو تنزیل کے منکر تھے... میں نے ان کفار سے صلح کی جو تاویل کے منکر ہیں.ہماری صلح کے راز سے لوگ واقف نہیں ہیں ورنہ اعتراض نہ کرتے! جب بندہ خدا خضر نے کشتی میں سوراخ کیا تو (حضرت) موسی نے اعتراض کیا مگر جب راز سے پردہ اٹھ گیاتو موسی راضی ہو گۓ. اسی طرح سے جب ہماری صلح کا راز سمجھ میں آجاۓگاتو لوگ راضی ہو جائنگے.

خلاصہ یہ کہ اس وقت کے حالات کچھ اس طرح تھے کہ امام حسن کے پاس 3 راستے تھے:

اس تھکے ہوۓ لشکر کو لیکر میدان میں آتے اور جنگ کرتے... چاہے اس کے لئے جو قیمت بھی چکانا پڑتی. اورچاہے تمام چاہنے والوں کو کھونا پڑتا۔

یا جب یاور و مددگار موجود نہیں تھے تو سب کچھ معاویہ کے حوالے کر دیتے اور خاموشی سے مدینے چلے جاتے۔

یا پھروقتی طور صلح کر کے فی الحال اپنے حقیقی چاہنے والوں کی حفاظت کریں. ساتھ ہی عوام کو یہ موقع دیں کہ وہ معاویہ کی سیاست اور اسکی فریب کاریوں کو سمجھ سکیں.

اب یہاں بظاھر ہماری گفتگو ختم ہو سکتی ہے کہ کسی حد تک اس زمانے کے شرایط اور عوام و خواص کی جو حالت تھی اس کو مد نظر رکھا جاۓ تو تیسرا راستہ یعنی امام مجتبی کا صلح کرنا بہترین سیاست اور عالی ترین درایت کا نمونہ ہے.

مگر اس صلح کا دوسرا پہلو جو خود امام حسن کی طرح مظلوم واقع ہوتا ہے اور ہماری علمی مجالس میں کم توجہی کا شکار ہے وہ یہ غور طلب پہلو ہے کہ: امام حسن اور حاکم شام کے درمیان صلح ہوئ اس طرح کہ امیر معاویہ نے امضا کیا ہوا سادہ کاغذ امام کی خدمت میں بھیحا اور امام علیہ السلام نے اس صلح کے شرائط مرقوم فرماۓ. اب زرا ان شرائط کو دیکھیں اور کچھ لمحوں کے لئے یہ تصور کریں کہ اگر حکومت شام نے ان شرائط کو جس طرح وقتی طورپر قبول کیا تھا اسی طرح ظاہر ہی میں صحیح، اس پر عمل بھی کر لیتا تو کیا ہوتا....؟

یقینا آج نہ تاریخ اسلام اس طرح لکھی ہوتی، جیسے ہے... اور نہ مسلمانوں میں یہ پراکندگی اور انتشار پایا جاتا، جو مشہود ہے.

بلکہ اگر یہ کہا جاۓ توغلط نہ ہو کہ وہ تمام اختلافات اور انحرافات جو بعد وفات رسول اکرم، سقیفہ سے شروع ہوۓ تھے، وہ اس صلح کو اجرا کرنے سے ختم ہو جاتے اور اسکے بعد امت مسلمہ در حقیقت امت واحدہ ہوتی. کیوںکہ معاویہ کو قرآن و سنت کا پایبند رہنا پڑتا اور اسکو اپنے بعد کے لئے جانشین مقرر کرنے کا حق نہیں تھا. یعنی سنہ 60 ہجری میں، معاویہ کی وفات کے بعد، کربلا کا دلخراش واقعہ پیش آنے کے بجاۓ حکومت اسلامی اسکے حقیقی حقدار اور ولی برحق امام حسین علیہ السلام کے پاس ہوتی کہ جو عدل و انصاف سے مالامال رہتی.

اس منرل میں ہم کہ سکتے ہیں امام حسن علیہ السلام کا، ان شرائط کے ساتھ، صلح کرنا رسول اکرم کی تاسی تھی .. اسی طرح جس طرح پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ یہ علم رکھتے تھے کہ انکے بعد امت امیرالمومنین کے دامن کو چھوڑ دےگی اور خود رسول کا جانشین مقرر کر لےگی مگر اسکے باوجود آن حضرت نے ہر ممکن طریقے سے اپنے وصی کو پہچنوایا یہان تک کہ غدیر خم میں اک جمع غفیر کے درمیان صرف اعلان نہیں کیا بلکہ بیعت بھی لی.

اسی طرح سے امام حسن علیہ السلام بھی جانتے تھے کہ معاویہ صلح پر پابند نہیں رہےگا مگراسکے باوجود امام نے ہر ممکن کوشش کی کہ حقیقت سب کے لئے روشن ہو جائے اور کسی کے لئے کوئی بہانہ باقی نہ رہے.

اگر یوں کہا جاۓ تو شاید غلط نہ ہو کہ رسول اکرم کی تبلیغی زندگی میں جو حیثیت غدیر خم کی ہے وہی حیثیت نواسہ رسول کی زندگی میں اس صلح کی ہے. جو بھی اقدامات رسول کو سمجھ سکے وہ ہی یہ سمجھ پاۓگا کہ حضرت امام نے صلح کیوں کی!

اللَّه‏ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالَتَه…. اللہ تعالی اچھی طرح جانتا ہے کہ اپنا عہدہ کس کو عطا کرے!‏

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha