حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں گزشتہ روز نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد شہادت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم اور شہادت سبط اکبر امام حسن مجتبیٰ علیہ السّلام کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ 28 صفر المظفر سن 11 ہجری تاریخ آدم و عالم کا وہ پہلا غم انگیز دن ہے کہ جس دن نہ صرف اہل زمین نے غم منایا بلکہ اہل آسمان نے بھی نوحہ کیا۔ تاریخ کائنات کا یہ وہ پہلا دن ہے کہ جس دن نہ صرف مدینہ بلکہ تمام موجودات نے لباس عزا زیب تن کیا اور گریہ و زاری کی، انسان ہی نہیں بلکہ جنات بلکہ ملائکہ مقربین نے بھی گریہ کیا۔ اگر زمین و آسمان اس غم میں خون روئیں تو حق ہے کیونکہ یہ انبیاء و مرسلین کے قافلہ سالار کا ماتم ہے؛ جانے والی کوئی معمولی شخصیت نہ تھی بلکہ ایک جملے میں کہہ دیا جائے کہ خدا کے بعد اگر کوئی فضیلت، رتبہ عزت، کرامت، شرافت کا مالک ہے تو وہ ذات مصطفیٰ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ غم کوئی حادثاتی طور پر رونما نہیں ہوا، بلکہ ١٣ دن پہلے ١٥ صفر المظفر سن ١١ ہجری سے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم بستر شہادت پر تھے، بیماری میں اضافہ ہوا اور طولانی ہوتی گئی یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے۔
خطیب جمعہ تاراگڑھ حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے مزید کہا کہ شیعہ علماء کے مطابق رسول اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کو زہر دے کر شہید کیا گیا جس کا تذکرہ شیعہ علماء کے بیانات میں مسمومیت اور شہادت رسول اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کا اس طریقہ سے ہے: 1. شیخ مفید (رضوان الله علیه): رسول خدا صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم پیر کے دن ۲۸ صفر کو مدینہ میں اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ مسموم تھے۔ 2. شیخ طوسی (رضوان الله علیه): حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے دن ۲۸ صفر سنہ ۱۰ ہجری کو اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ مسموم تھے۔ 3. شیخ طبرسی (رضوان الله علیه): اسی وجہ سے مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبوت کی فضیلت کے ساتھ ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فوزِ شہادت بھی نصیب ہوا۔ 4. ابن فتال نیشابوری (رضوان الله علیه): جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۲۸ صفر سنہ ۱۱ ہجری کو مدینہ میں ۶۳ سال کی عمر میں مسموم حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ وفات ربیع الاول میں ہوئی لیکن پہلا قول معتبر ہے۔ 5. علامہ حلی (رضوان الله علیه): حضرت محمد بن عبداللہ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم پیر کے دن ۲۸ صفر سنہ ۱۰ ہجری کو اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ مسموم تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواسۂ پیغمبر امام حسن مجتبیٰ علیہ السّلام اپنے جد امجد رسول خدا صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم، والد امیر المومنین حضرت علی علیہ السّلام اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللّہ علیہا کی طرح اعلیٰ اخلاق و خصائل کا مجموعہ تھے۔ آپ اعلیٰ اخلاقی اوصاف جن میں جود و سخا، جس کے سبب آپ کو کریم اہل بیت کے لقب سے پکارا جاتا تھا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا، مہربانی سے پیش آنا، صبر و تحمل، عفو و درگزر جس کے دشمن بھی معترف تھے، ان تمام اوصاف کا کامل نمونہ تھے۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے مزید کہا کہ البدایہ والنہایہ میں ابن کثیر علمائے اہل سنت سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسن علیہ السّلام نے ایک غلام کو دیکھا جس کے پاس ایک روٹی تھی جس سے وہ ایک لُقمہ خود کھا رہا تھا اور ایک لقمہ پاس بیٹھے کُتے کو کھِلا رہا تھا۔ امامؑ نے جب یہ منظر دیکھا تو پوچھا: "اِس کام کا تجھے کس نے حکم دیا ہے؟" غلام جواب دیتا ہے: مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں خود کھاؤں اور اسے نہ کھلاؤں۔ امام حسن علیہ السّلام نے اس سے کہا: "کہیں جانا نہیں جب تک میں واپس نہ آؤں۔" امام اُس غلام کے مالک کے پاس گئے اور اُس غلام کو اس باغ سمیت جس میں وہ رہتا تھا، خریدا اور پھر اُس کو آزاد کر دیا اور وہ باغ بھی اُسے بخش دیا۔ دیلمی "اَعلام الدین" میں ابنِ عباس سے روایت کرتے ہیں: میں امام حسن ابن علی علیہما السلام کی خدمت میں تھا اور آپؑ مسجد الحرام میں معتکف تھے اور طواف میں مشغول تھے۔ شیعوں میں سے ایک شخص امام علیہ السّلام کے پاس آیا اورعرض کی: اے فرزندِ رسولِ میں فلاں شخص کا مقروض ہوں اگر آپؑ مصلحت سمجھیں تو میرا قرض ادا فرما دیں۔ امامؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! اِس گھر میں میرے پاس کچھ نہیں ہے۔" اُس نے کہا: اگر مصلحت سمجھیں تو اس شخص سے مجھے مہلت لے دیں، کیونکہ اس نے مجھے زندان بھیجنے کی دھمکی دی ہے۔ امامؑ نے طواف چھوڑا اور اُس شخص کے ساتھ چل پڑے۔ میں نے عرض کی: اے فرزندِ رسولِ کیا آپؑ بھول گئے کہ آپؑ حالتِ اعتکاف میں ہیں؟ فرمایا:"نہیں، لیکن میں نے اپنے والدِ محترم سے سنا ہے کہ رسولِ خدا فرماتے تھے: جس نے بھی اپنے مومن بھائی کی کوئی حاجت پوری کی گویا وہ ایسے ہے جیسے اُس نے نو ہزار سال تک، دن حالتِ روزہ میں اور رات عبادت میں بسر کی ہو"۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام دوست و دشمن سب کے ساتھ کریمانہ سلوک روا رکھتے تھے۔ ایک دفعہ امام حسنؑ ایک خوبصورت گھوڑے پر سوار تھے کہ ایک شاعر جس نے امامؑ کی ہجو اور مذمّت کی تھی، سامنے آیا اور کہا: اے حسن! کیا خوبصورت گھوڑا ہے! امامؑ نے رکاب سے پاؤں نکالے اور گھوڑا اُسے بخش دیا۔ مشہور مورخ سیوطی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے : حسن ابن علی علیہما السلام بہت سارے اخلاقی امتیازات اور انسانی فضائل کے حامل تھے ، وہ عظیم شخصیت کے مالک تھے ، بُردبار، با وقار، متین، سخی، اور ہر ایک کی تعریف کا مرکز تھے۔ اور بالکل درست بھی ہے کہ پیغمبر اکرم صلیٰ اللّہ علیه وآلہ وسلّم کے سبط اکبر کو ایسا ہونا بھی چاہیئے۔ بخاری میں ابو بکر سے منقول ہے : میں نے نبی اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کو دیکھا کہ آپ منبر پر تشریف فرما تھے ا ور حسن بن علی علیہما السلام بھی آپ کی آغوش میں تھے، آپ کبھی لوگوں کو دیکھتے تھے اور کبھی حسن کواور فرماتے تھے: میرا یہ فرزند سید و سردار ہے۔
حجۃالاسلام مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ انہی ایام میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السّلام کی شہادت بھی واقع ہوئی جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام کے حقیقی وارث اور نجات دہندہ ہمیشہ قربانی اور صبر کی راہ دکھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کی امت کو امام حسن علیہ السّلام کی سیرت سے سبق لینا چاہیے۔ "ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السّلام کی سخاوت بے مثال تھی، آپؑ نے اپنا سارا مال راہِ خدا میں دے دیا۔ اسی طرح آپؑ نے معاشرتی عدل اور انسانی کرامت کو اپنی سیاست اور اپنے کردار کا بنیادی ستون بنایا۔"









آپ کا تبصرہ