حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری (ع) کے وصیت نامے کی شرح و تفسیر کے بیان میں حسد کے مہلک اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حسد صرف ایک اخلاقی بیماری نہیں، بلکہ انسان کے ایمان کو کھا جانے والا جیسا گناہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السّلام نے فرمایا: "ایَّاکُمْ وَ اَلْحِرْصَ وَ اَلْحَسَدَ فَإِنَّهُمَا أَهْلَکَا اَلْأُمَمَ اَلسَّالِفَةَ وَ إِیَّاکُمْ وَ اَلْبُخْلَ فَإِنَّهَا عَاهَةٌ لاَ تَکُونُ فِی حُرٍّ وَ لاَ مُؤْمِنٍ إِنَّهَا خِلاَفُ اَلْإِیمَانِ"، حرص(لالچ) اور حسد سے پرہیز کرو۔ کیونکہ ان دو صفتوں نے ہی پہلی امتوں کو نابود کیا اور بخل و کنجوسی سے بھی دور رہو کیونکہ بخل ایک بیماری ہے جو آزاد مرد اور مومن نے نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ بخل ایمان کی ضد ہے۔
حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ حسد یہ ایک ایسی برائی ہے جو کائنات کے آغاز سے چلی آرہی ہے۔تاریخی مطالعہ سے ہمیں حسد کی کچھ مثالیں ملتی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں اللہ سبحانہ نے کیا ہے۔
١۔ ابلیس کا انسان سے حسد: آسمان میں سب سے پہلا جو گناہ سرزد ہوا وہ حسد تھا، جو ابلیس نے جناب آدم علیہ السّلام سے کیا تھا۔ جب خداوند متعال نے فرشتوں کو جناب آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کہا، قرآن کے الفاظ یہ ہیں: "قالَ أَنا۠ خَيرٌ مِنهُ ۖ خَلَقتَنى مِن نارٍ وَخَلَقتَهُ مِن طينٍ"، کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیاہے اور اس کو مٹی سے تخلیق کیا ہے۔''اس نے سوچا کہ جو مقام جناب آدم علیہ السّلام کو عطا کیا گیا ہے وہ اصل میں تو میرا حق تھا۔ میں اعلیٰ عنصر یعنی آگ سے تخلیق کیا گیا ہوں اور آدم ؑ کو ادنیٰ عنصر یعنی مٹی سے بنایا گیا ہے تو تخلیقی اعتبار سے اور عبادت و ریاضت کے لحاظ سے میں اس مرتبہ کا حقدار تھا جس پر آدمؑ کو فائز کیا گیا ہے۔مجھ سے کمتر مخلوق کو مجھ پر برتری دی گئی ہے۔ اس نے تکبر بھی کیا اور احساس کمتری میں بھی مبتلا ہوا۔ لہٰذا حسد میں مبتلا ہوکر اس نے خالق بشر کو چیلنج کردیا کہ میں تیری اس مخلوق کو راہ راست سے بھٹکا کر رہوں گا جس صفت کی بنیاد پر آدم ؑ کو مجھ پر برتری دی گئی ہے اس کی اُسی صفت کو میں تیری نافرمانی میں استعمال کرواؤں گا، جناب آدم علیہ السّلام کو سجدہ نہ کرنے کے جرم میں اللّہ نے ابلیس لعین کو جنت سے نکل جانے کا حکم دیا، چنانچہ دنیا کے سب سے پہلے حاسد نے آدم ؑ و بنی آدم کو اُسی جنت سے نکالنے کا ہدف طے کیا تھا اور آج تک وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں مصروف عمل ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر یہ واقعہ بیان کیاگیا ہے۔ آج جو بھی مبتلائے حسد ہے وہ اوّلین حاسد ابلیس کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور ابلیس کی طرح وہ بھی اللّہ سے شکوہ کناں ہوتا ہے کہ نوازے جانے کا حق دار تو میں تھا تونے دوسرے کو یہ فضیلت کیوں عطا کی؟ فضیلت اور برتری کے خواہش مند ابلیس کے حسد نے اُسے کس انجام بد سے دوچار کیا تھا؟ یقیناً اس بر ے انجام سے انسان کو ڈرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٢۔ زمین پربھی سب سے پہلا گناہ حسد ہی کی وجہ سے ہوا۔ جس کے نتیجے میں قابیل نے اپنے سگے بھائی ہابیل کو قتل کردیا گویا پہلا قتل حسد کا نتیجہ تھا، کتب تفاسیر میں ہے کہ قابیل اور ہابیل دونوں نے اللّہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی۔ ہابیل کی قربانی عمدہ اور قابیل کی ردّی اور بے کار تھی۔ دونوں نے قربانیوں کو میدان میں رکھا تو ہابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلا دیا جو کہ قبولیت کی علامت تھی جبکہ قابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے نہیں جلایا چنانچہ اسی حسد میں کہ ''ہابیل کی قربانی کیوں قبول ہوئی ہے؟'' قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا حالانکہ کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرلیتا۔ سورہ مائدہ میں اللّہ نے اس واقعہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے: "وَاتلُ عَلَيهِم نَبَأَ ابنَى ءادَمَ بِالحَقِّ إِذ قَرَّبا قُربانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِما وَلَم يُتَقَبَّل مِنَ الءاخَرِ قالَ لَأَقتُلَنَّكَ ۖ قالَ إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ المُتَّقينَ"، اور ان کو آدم کے بیٹوں کا قصہ پڑھ کر سنائیے جب دونوں نے قربانی پیش کی تو ان دونوں میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی اُس (قابیل) نے کہا میں ضرور تمہیں قتل کردوں گا۔ اُس (ہابیل) نے کہا اللہ پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے۔قابیل کو یہ حسد محسوس ہوا کہ ہابیل کا درجہ و قبولیت بارگاہ الٰہی میں بڑھ گیا ہے حالانکہ ہابیل نے اس کی وجہ بیان کردی تھی کہ ''اللّہ پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے۔'' ہابیل کی عمدہ قربانی اور خالص نیت نے اُسے بارگاہ اِیزدی میں قرب و شرف عطا کیا تھا پیچھے رہ جانے اور ناکامی کے احساس نے قابیل کو ہابیل کے قتل پراُکسایا۔ حالانکہ کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کی اِصلاح کرلیتا۔ حسد کی یہ قسم ہمارے معاشرے میں اُس جگہ پائی جاتی ہے جہاں افراد کسی بااختیار ہستی کی نظر میں بلند مقام، قرب و شرف کے متلاشی ہوتے ہیں خواہ وہ کلاس روم ہو، دفتر ہو، ادارہ ہو یاگھر ہو اور قابیل کی طرح وہ اپنے ساتھی کو ترقی کرتا دیکھ کر احساس ناکامی و نامرادی میں گھر کر اُسے نقصان پہنچانے کے درپے ہوجاتے ہیں۔
خطیب جمعہ تاراگڑھ نے مزید کہا کہ ٣۔ تاریخ سے حسد کی ایک اور بڑی مثال برادرانِ یوسف کے حسد کی ملتی ہے۔ جناب یوسفؑ اپنی بہترین عادات، اعلیٰ کردار اور معصوم و بے مثال حُسن کی وجہ سے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کی آنکھ کا تارا تھے۔ بھائیوں کو اپنے والد کی جناب یوسف ؑ سے بے پناہ محبت ناگوار گزرتی تھی اور انہوں نے جناب یوسف کے قتل کا ارادہ کیا جو بعد میں بڑے بھائی کے مشورے پر بدل دیا اور انہوں نے جناب یوسف ؑ کو کنویں میں پھینکنے پر اکتفا کیا، سورہ یوسف میں اللّہ جل شانہ فرماتا ہے: "اقتُلوا يوسُفَ أَوِ اطرَحوهُ أَرضًا يَخلُ لَكُم وَجهُ أَبيكُم وَتَكونوا مِن بَعدِهِ قَومًا صـٰلِحينَ"، مار ڈالو یوسف کو یا کہیں پھینک آؤ تا کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو یوسف کے بعد تم لوگ اچھے رہو گے۔ مگر اس سب کے باوجود نہ تو وہ جناب یعقوب علیہ السّلام کی آنکھ کا تارا بن سکے نہ جناب یوسف ؑ کے مقام کو پہنچ سکے اور ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے بلکہ اللہ نے انہی اسباب سے جناب یوسف ؑ کو پیغمبری اور بادشاہی سے سرفراز کیا۔
امام جمعہ تاراگڑھ حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے یہود و نصاریٰ کا اسلام اور اہل اسلام سے حسد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہود ونصاریٰ اسلام، اہل اسلام، نبی معظم اور قرآن سے دلی طور پر بغض وحسد رکھتے ہیں اور ان کی باطنی خباثت خداوند عالم نے قرآن میں کئی جگہ بیان فرمائی ہے، علمائے یہود منتظر تھے کہ آخری نبی ہم میں یعنی بنی اسحق میں مبعوث ہوگا۔ مگر جب اللہ نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت آخری نبی بنی اسماعیل میں مبعوث فرمایا تو یہود بنی اِسماعیل کی برتری برداشت نہ کرسکے۔ وہ اپنی سرداری اور برتری کے گمان میں مبتلا تھے، لہٰذا نبی مرسل صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم پر ایمان لانے کی بجائے حسد کرنے لگے۔ قرآن اس کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے، "وَإِذا خَلَوا عَضّوا عَلَيكُمُ الأَنامِلَ مِنَ الغَيظِ ۚ قُل موتوا بِغَيظِكُم"، اور جب وہ اکیلے ہوتے ہیں تو غصہ کے مارے تم پراپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ آپ کہو کہ تم اپنے غصہ میں جل مرو۔ اسی حسد کی وجہ سے یہود نے نبی اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم پر کئی قاتلانہ حملے بھی کئے، جادو کیا۔ قرآن کو وحی ماننے سے انکار کیا، دین اسلام پر اعتراضات کئے، شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی اور اہل اسلام کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا۔ اہل کتاب آج تک اس حسد میں جل رہے ہیں اور جلتے رہیں گے۔ فضیلت اور برتری کا خود ساختہ گمان انہیں لے ڈوبا ہے۔
حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے مشرکین مکہ کا قرآن اور اہل قرآن سے حسد بیان کرتے ہوئے کہا کہ مشرکین مکہ بھی اپنی سرداری اور برتری کے گمان میں گرفتار تھے وہ اپنے سوا یا اپنے قبیلے کے کسی آدمی کے سوا کسی دوسرے شخص کا چراغ جلتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔اسی لیے جب نبی مکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے اعلان نبوت کیا تو وہ بنوہاشم کی برتری برداشت نہ کرسکے، ابوجہل رسول خدا صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی مخالفت کی وجہ خود بیان کرتا ہے کہ "ہمارا اور بنی عبدمناف کا باہم مقابلہ تھا۔ انہوں نے کھانے کھلائے توہم نے بھی کھلائے، انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی دیں، انہوں نے عطیے دیئے توہم نے بھی دیئے، یہاں تک کہ وہ اور ہم جب عزت و شرف میں برابر کی ٹکر ہوگئے تو اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا اس میدان میں ہم کیسے ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ خدا کی قسم ...! ہم ہرگز نہ اس کو مانیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے۔(ابن ہشام:جلد۱وّل) اس پر کفارِ مکہ نے اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں حد کردی انہوں نے نبی مکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے قتل کے منصوبے بنائے۔شعب ابی طالب میں محصور کیا۔ مسلمانوں پر مکہ کی سرزمین تنگ کردی۔ قرآن کا انکار کیا اور جنگیں لڑیں۔ ان سب افعال کا محرک "حسد" تھا۔









آپ کا تبصرہ