جمعہ 12 ستمبر 2025 - 20:53
مؤمنین آپس میں حقیقی بھائی ہیں، ان کے جھگڑوں میں صلح کرانا واجب ہے؛ خطیب جمعہ تاراگڑ

حوزہ/ تاراگڑھ اجمیر میں خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے اخوتِ اسلامی کے قرآنی و روائی اصول بیان کرتے ہوئے کہا کہ مؤمنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کے درمیان صلح و اتحاد قائم رکھنا سب پر واجب ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے پہلے خطبے میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السّلام کے وصیت نامے کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے حقوق بھائی کے حوالے سے بیان کیا کہ: بھائی کے حق کے متعلق امام زین العابدین علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ بھائی کا حق یہ ہے کہ:"و أَمّا حَقّ أَخِيكَ فَتَعْلَمُ أَنّهُ يَدُكَ الّتِي تَبْسُطُهَا وَ ظَهْرُكَ الّذِي تَلْتَجِئُ إِلَيْهِ- وَ عِزّكَ الّذِي تَعْتَمِدُ عَلَيْهِ وَ قُوّتُكَ الّتِي تَصُولُ بِهَا فَلَا تَتّخِذْهُ سِلَاحاً عَلَى مَعْصِيَةِ اللّهِ وَ لَا عُدّةً لِلظّلْمِ بِحَقّ اللّهِ وَ لَا تَدَعْ نُصْرَتَهُ عَلَى نَفْسِهِ وَ مَعُونَتَهُ عَلَى عَدُوّهِ وَ الْحَوْلَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ شَيَاطِينِهِ وَ تَأْدِيَةَ النّصِيحَةِ إِلَيْهِ وَ الْإِقْبَالَ عَلَيْهِ فِي اللّهِ فَإِنِ انْقَادَ لِرَبّهِ وَ أَحْسَنَ الْإِجَابَةَ لَهُ وَ إِلّا فَلْيَكُنِ اللّهُ آثَرَ عِنْدَكَ وَ أَكْرَمَ عَلَيْكَ مِنْهُ" اپنے بھائی کے حق کے سلسلے میں تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہارا دست و بازو ہے جس سے تم کام کرتے ہو اور تمہارے لئے پشت پناہ و تکیہ گاہ ہے جہاں تم پناہ لیتے ہو۔ وہ تمہاری عزت و آبرو ہے جس پر تم اعتماد کرتے ہو، اور تمہاری قوت وطاقت ہے جس کے ذریعہ تم حملہ کرتے ہو لہٰذا اسے خدا کی معصیت و نافرمانی کا وسیلہ وذریعہ نہ بناؤ۔ اس کے ذریعہ سے خدا کی مخلوق پر ظلم نہ کرو۔ تم اس کے حق میں اس کی مدد کرو اور اس کے دشمن کے خلاف اس کی نصرت کرو۔ اس کے اور شیطان کے درمیان حائل ہوجاؤ اور اسے نصیحت کرنے میں پورا حق ادا کرو اور اسے خدا کی طرف دعوت دو پھر اگر وہ اپنے پروردگار کا مطیع ہوجائے اور اس کے حکم کو تسلیم کرے تو بہت ہی اچھا ہے ورنہ تمہارے نزدیک خدا کو مقدم ہونا چاہئے۔ اور خدا ہی کا اکرام و اعزاز اوراس کا خیال ہونا چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ: ان حقوق میں امام زین العابدین علیہ السّلام نے بھائی کے حق کے سلسلے میں تین چیزوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

۱۔ بھائی ایک بازو ہے اور پشت پناہ ہے لہذا اسے گناہ معصیت کا علی کار نہ بناؤ۔

۲۔ شمن کے خلاف اس کی مدد کرو۔

۳۔ اسے شیطان کے تسلط سے نجات دلاؤ اسے خدا کی طرف بلاؤ اگر وہ اسے قبول نہ کرے تو تم خدا کے حکم کا پاس و لحاظ کرو نہ کہ سرکش بھائی کا۔

خطیب جمعہ تاراگڑھ نے اسلام میں اخوت کی قسمیں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ: اسلام و قرآن کے اہم مسائل میں سے اخوت و برادری بھی ہے اخوت کی تین قسمیں ہیں

۱۔ حقیقی اور سگا بھائی یہ دو انسانوں کا نزدیک ترین رشتہ سمجھا جاتا ہے اور ایک دوسرے سے میراث لینے کا باعث ہوتا ہے۔

٢۔ رضاعی بھائی یہ رشتۂ اخوت دودھ شریک بھائیوں کے درمیان قائم ہوتا ہے۔

٣۔ برادر ایمانی حقیقت میں ایمان و اسلام نے سارے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے یہ اسلام ہی ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے اتحاد وحدت کا باعث بن گیا ہے۔

خداوند متعال نے قرآن مجید میں اس بھائی چارے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ: "انَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ"، مومنین تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا تم لوگ اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

رسول خدا صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے بھى اسى آيت كى بنياد پر اپنے صحابہ كرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین كے درميان اخوّت و بھائی چارہ قائم كيا ، اور حضرت على عليہ السّلام كو اپنا بھائی بنايا۔

امام جمعہ تاراگڑھ حجۃالاسلام مولانا نقی مھدی زیدی نے مزید کہا کہ: آیت اُخُوَّت سورہ حجرات کی دسویں آیت ہے جسے خداوند عالم نے مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارہ برقرار کرنے کے لئے نازل فرمایا ہے۔ اس آیت کے مطابق مؤمنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کسی لڑائی جگڑے کی صورت میں دوسرے مسلمانوں اور مؤمنین پر ان کے درمیان صلح کرنا واجب ہے۔

حجۃالاسلام مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: آیت اخوت مسلمانوں کی اجتماعی مسئولیتوں میں سے ایک اہم وظیفے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اس میں مؤمنین کو ایک دوسرے کا بھائی بتایا گیا ہے اور ان کے آپ کے لڑائی جھگڑوں کو دو بھائیوں کے درمیان لڑائی کی طرح قرار دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے بقیہ مؤمنین کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ان کے درمیان لڑائی کی صورت میں ان کی صلح کی جائے۔ پس جس طرح دو سگے بھائیوں کے درمیان صلح برقرار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح ایک دوسرے سے لڑنے والے مؤمنین کے درمیان بھی صلح اور امن برقرار کرنے کیلئے سعی اور کوشش کی جانی چاہئیے. کیونکہ یہ برادری اور بھائی چارگی صرف باتوں کی حد تک نہیں ہونا چاہئے بلکہ عملی طور پر بھی ایک دوسرے کے بھائی اور بہن کی طرح معاشرے میں زندگی بسر کرنا چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ: امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں: "مؤمن مؤمن کا بھائی اور اس کی آنکھیں اور اس کا رہنما ہوا کرتا ہے۔ مؤمن کبھی بھی کسی مؤمن کے ساتھ خیانت نہیں کرتا نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے دھوکہ دیتا ہے اور اگر اس کے ساتھ کوئی وعدہ کیا ہے تو اسے ضرور نبھاتا ہے۔"

خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: مشہور مفسر آلوسی، اپنی تفسیر روح المعانی میں مؤمنین کے درمیان موجود بھائی چارگی کو ایک مجازی اور تشبیحی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے: دو اشخاص کا ایمان لانے میں ایک ہونا گویا ان دونوں کے تولد میں ایک ہونے کی طرح ہے کیونکہ جس طرح پیدائش اور تولد دنیا میں باقی رہنی کے لئے منشاء بقا ہے اسی طرح ایمان بھی بہشت میں باقی رہنے کیلئے سبب بقا ہوگا۔

اس کے علاوہ صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبایی رہ مؤمنین پر ایک دوسرے کی نسبت اخوت اور بھائی چارگی کے اطلاق کو حقیقی اور اعتباری قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اس آیت میں اخوت سے مراد دینی اور اعتباری ہے جس کے صرف اجتماعی آثار مترتب ہوتے ہیں ارث اور نکاح وغیرہ میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ چونکہ بسا اوقات اس طرح کے مسائل میں روابط، ضوابط اور قوانین کا جانشین بن جاتا ہے اسلئے خداوند عالم آیت کے آخر میں ایک بار پھر آگاہ فرماتا ہے کہ تقوای الٰہی اختیار کرو تاکہ اس کی رحمت شامل حال ہو جائے۔ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

حجۃالاسلام مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: حضرت امام جعفرصادق عليہ السّلام كى طرف سے مومن كے مندرجہ سات حق بتائے گئے ہيں :

۱۔جو كچھ تم اپنے لئے پسند كرتے ہو، اپنے مومن بھائی كےلئے بھى و ہى چيز پسند كرو اور جو اپنے لئے پسند نہيں كر تے اس كے لئے بھى پسند نہ كرو۔

۲۔جو با ت اس كى ناراضگى كا سبب ہو، اس سے پرہيز كرو، اور اس كى خوشنودى حاصل كرنے كى كوشش كرو اور اس كى باتوں پرعمل كرو۔

۳۔اپنى جان، مال، ہاتھ پاوں اور زبان كے سا تھ اس كى مدد كيا كرو۔

۴۔اس كى آنكھ كى مانند بنو اور اس كى راہنمائی كرو۔

۵۔ايسا نہ ہو کہ تم تو سيراب رہو اور وہ بھوكا اور پياسا رہ جا ئے، تم كپڑے پہنو اور وہ عريان ہو۔

۶۔ا گر تمہارے بھائی كى خدمت كر نے والا كو ئی نہيں، اس كے پاس اپنا غلام بھیجو جو اس كے كپڑے دھوئے، اس كے لئے كھانا تيار كرے اوراس كى زندگى كو سنوارے۔

۷۔اس كى قسم كا اعتبار كرو، اس كى دعوت كو قبول كرو، اس كى بيماری ميں عيادت كرو، اس كے جناز ميں شر كت كرو، اگر اسے كوئی ضرورت پيش ہوتو اسكے اظہار سے پہلے اسے پورا كرو اگر ايسا كرديا تو يقين كرو كہ تم نے اپنى دو ستى كو مضبوط اور مستحكم كر ديا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha