ہفتہ 6 ستمبر 2025 - 09:50
ہفتۂ وحدت صرف ایک مذہبی تقریب نہیں، بلکہ ایک اجتماعی تحریک ہے، مولانا سید نقی مہدی زیدی

حوزہ/امام جمعہ تاراگڑھ اجمیر ہندوستان نے نمازِ جمعہ کے خطبوں میں ہفتۂ وحدت کی ضرورت اور اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہفتۂ وحدت صرف ایک مذہبی تقریب نہیں، بلکہ ایک اجتماعی تحریک ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ تمام اسلامی مہینے اپنی اپنی خصوصیت رکھتے ہیں؛ مگر ربیع الاول کا مہینہ اس لیے زیادہ خاص ہے کہ خداوند عالم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کو یہ کہہ کر اس روئے زمین پر بھیجا کہ اب تا قیامت کوئی نبی نہیں آئے گا، نبوت کا سلسلہ اسی شافع محشر پر ختم ہوتا ہے۔ ربیع الاول کی دو تاریخیں مسلمانوں کے یہاں پیغمبر اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اہلسنت 12 ربیع الاوّل، جبکہ اہل تشیع 17 ربیع الاول کو حضور کا جشن ولادت مناتے ہیں۔ 12 اور17ربیع الاول کے درمیان فرق کو ختم کرکے مسلمانوں کو اور قریب لانے کے لیے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے "ہفتۂ وحدت" کا اعلان کیا جو 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امام خمینیؒ نے 27 نومبر 1981ء کو عالم اسلام کا تاریخی اور وحدت سے بھرپور قدم اٹھایا اور 12 سے 17 دونوں تاریخوں کو ملا کر پورے ہفتے کو ہفتہ وحدت کا نام دے دیا تاکہ پیغمبر اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت با سعادت کی برکت اور طفیل سے اہل تشیّع اور اہلسنت آپس کے اختلافات حتی کہ حضور اکرم کی تاریخ ولادت کے اختلاف کو بھی بھلا کر وحدت اور اتحاد کا مظاہرہ کر سکیں۔ وحدت اسلامی کے اس عملی اقدام نے مسلمانوں کے درمیان پیار و محبت، بھائی چارے اور وحدت کی نئی روح پھونک دی۔ اسی طرح ہفتہ وحدت کے بعد اسلامی دنیا میں اتحاد اور ہم بستگی کے لئے زمینہ ہموار کرنے اور علما اور دانشوروں کے مابین ہم فکری ایجاد کرنے کیلئے ہر سال ایران میں عظیم الشان بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ ہفتۂ وحدت؛ اخوت اور بھائی چارے کا درس ہے؛ ہفتۂ وحدت صرف ایک مذہبی تقریب نہیں، بلکہ ایک اجتماعی تحریک ہے۔ اس ہفتے کا پیغام یہ ہے کہ مسلمانوں کا اصل دشمن تفرقہ اور باہمی دشمنی ہے، ان تمام اختلافات کو ختم کرکے بھائی چارے میں بدلا جائے، نسل، رنگ، زبان اور قبیلے کے فرق کو چھوڑ کر سب کو ایک اللہ اور ایک رسول صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے زیرِ سایہ جمع ہو جائیں۔ اسی وحدت کی برکت سے مکہ و مدینہ کے مہاجر و انصار بھائی بنے، عرب و عجم، کالے اور گورے سب ایک صف میں اکٹھے ہوئے۔

خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ اسی ہفتہ میں پیغمبرِ اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کی ولادت باسعادت ہے اور یہ ایام ہفتہ وحدت اسلامی ہیں اور ان ایام میں اتحاد و وحدت اسلامی کے نمایاں ترین مظہروں میں سے ایک ہے جسے ہمیں مسلمان ہونے کے نقطہ نظر سے استفادہ کرنا چاہئے، آپسی اختلاف اور مسائل کو خدا اور رسول کی طرف لوٹا دینا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا محور خدا، پیغمبرِ اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کا کلام ہونا چاہیے، یعنی ہم یہ دیکھیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔

حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: "فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا" یعنی " نہیں، آپ کے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے۔ جب تک اپنے تمام باہمی جھگڑوں میں آپ کو حَکَم نہ مانیں اور پھر آپ جو فیصلہ کریں (زبان سے اعتراض کرنا تو کجا) اپنے دلوں میں بھی تنگی محسوس نہ کریں اور اس طرح تسلیم کریں جس طرح تسلیم کرنے کا حق ہے"۔

انہوں نے اتحاد و وحدت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ جشنِ میلاد النبی (ص) میں گلیوں کو سجانے، کھانا کھلانے اور تقریر وغیرہ کو اتحاد و یکجہتی کی طرف ایک قدم ہونا چاہیے، جس طرح اسلام کے آغاز میں جب ایک شخص مسلمان ہوتا تو اس کی اچھائی سے متاثر ہو کر دوسرے دن ایک اور فرد کو مسلمان کر کے اپنے ساتھ لاتا۔ اسی طرح جب ایک شخص کی پرورش اتحاد و وحدت کی فکر پر پروان چڑھی ہو تو وہ کل اپنے جیسا کوئی دوسرا شخص بھی اپنے ساتھ لائے تاکہ مسلمانوں میں اتحاد و وحدت کا جذبہ پھلے پھولے۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ خداوند متعال قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: "لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ" پیغمبر اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم تمہارے لئے علمی اور عملی نمونہ ہیں، لہٰذا تم ان کی تاسی کرو اور انہیں اپنا امام و مقتدیٰ قرار دو۔

انہوں نے کہا کہ نبی مکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی شخصیت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ "کانَ خُلقُهُ القُرآن" یعنی آپ کا اخلاق ہی قرآن ہے، یعنی قرآن کریم حضور صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی سیرتِ پاک کا نام ہے۔

حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ قرآن میں نبی مکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کو صرف بہترین نمونہ اور اسوۂ حسنہ ہی قرار نہیں دیا گیا، بلکہ ان کی کئی ایسی خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں جو ان کی عظمت اور بلند انسانیت کو نمایاں کرتی ہیں۔ کچھ خصوصیات تو ایسی تھیں جو صرف نبی مکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم میں ہی موجود تھیں جو انہیں بشریت میں ایک اعلیٰ مقام عطا کرتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر ہے کہ وہ امت کی ہدایت کے لیے بے حد کوشاں رہتے تھے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 128 میں ارشاد ہوتا ہے کہ " لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ" یعنی "(اے لوگو!) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک ایسا رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے جس پر تمہارا زحمت میں پڑنا شاق ہے، تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان والوں کے ساتھ بڑی شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔"

انہوں نے سورہ طہ کی آیت نمبر 2 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس آیت کریمہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے "مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ" یعنی "ہم نے قرآن کو اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ خود کو مشقت میں ڈالیں"۔ اسی طرح سورہ قصص کی آیات نمبر 55 اور 56 میں ذکر ہوا ہے کہ " وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ ‎/ ‏ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ" یعنی پیغمبر بے سود باتوں سے دور رہتے ہیں اور ہر شخص کو ہدایت دینا بھی ان کے اختیار میں نہیں۔

انہوں نے کہا کہ نبی مکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ان تمام مشقتوں کے باوجود ان پر "نمازِ شب" بھی پر واجب کی گئی تھی۔ سورہ اسراء کی آیت نمبر 79 میں ارشاد ہوا ہے کہ"وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا" یعنی "اور رات کے کچھ حصہ (پچھلے پہر) میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں (نمازِ تہجد پڑھیں) یہ آپ کے لئے اضافہ ہے۔ عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا"۔

خطیبِ جمعہ تاراگڑھ نے مزید کہا کہ حضرت محمد صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کو زیادہ ازواج کی بھی اجازت تھی جو ان کے لیے خاص حکم تھا۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر 50 میں ذکر ہوا ہے کہ " يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا" یعنی "اے نبی(ص)! ہم نے آپ کیلئے آپ کی وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جن کے مہر آپ نے ادا کر دیئے ہیں اور وہ مملوکہ کنیزیں جو اللہ نے بطورِ غنیمت آپ کو عطا کی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے (یہ سب بھی حلال ہیں) اور اس مؤمن عورت کو بھی (حلال کیا ہے) اگر وہ اپنا نفس نبی(ص) کو ھبہ کر دے بشرطیکہ نبی(ص) بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں یہ (اجازت) صرف آپ کیلئے ہے۔دوسرے مؤمنوں کیلئے نہیں ہے ہم جانتے ہیں جو (احکام) ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور مملوکہ کنیزوں کے بارے میں مقرر کئے ہیں، تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی نہ ہو اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ پیغمبرِ اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی یہ منفرد خصوصیات جن کا قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے، نہ صرف انبیائے کرام علیہم السّلام کے درمیان ان کے مقام کو مزید نمایاں کرتی ہیں، بلکہ بنی نوع انسان کی تاریخ میں ان کی عظمت اور خاص مقام کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔

آخر میں امام جمعہ تاراگڑھ نے عید میلاد النبی صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے موقع پر فرزندان توحید کو ہدیۂ تہنیت و مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ عشق رسولؐ صرف زبانی جمع خرچ کا نام نہیں، بلکہ دین و شریعت اور سیرت نبویؐ پر عمل کرنے کا نام ہے، اپنے کردار و عمل سے عشق رسول کا مظاہرہ کریں قرآن و سنت کی پیروی، باہمی اخوت و اتحاد کی آبیاری اور دین و ملت کے خلاف استکباری قوتوں کی منصوبہ بندیوں کے خلاف صف آرائی کا پیغام ہے۔

انہوں نے خصوصی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس سال ماہ ربیع الاول میں رسولِ اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کے پندرہ سو سال مکمل ہورہے ہیں؛ اس موقع پر سیرتِ مرسل اعظم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم اور وحدتِ امت کے فروغ کے لیے مشترکہ پروگرامز اور تقاریر کا انعقاد کریں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha