جمعہ 8 اگست 2025 - 18:42
جوانی سنہرا دور اور اللّہ کی عظیم نعمت ہے: مولانا سید نقی مہدی زیدی

حوزہ/مولانا سید نقی مہدی زیدی نے کہا کہ جوانی سنہرا دور اور اللّہ کی عظیم نعمت ہے، جب انسان کے پاس توانائی، ہمت اور علم حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان کے جسم میں طاقت، اس کے ارادوں میں پختگی اور اس کے ذہن میں نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔ جوانی میں انسان بڑے سے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے اور مشکل سے مشکل اہداف کو حاصل کرنے کی لگن رکھتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے پہلے خطبے میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السّلام کے وصیت نامے کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے حقوق اولاد کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے جوان اور جوانی کی عظمت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ: ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے ایک جامع حدیث میں ہمیں زندگی کی پانچ قیمتی نعمتوں کو ان کے زوال سے پہلے غنیمت جاننے کی تاکید فرمائی۔ اس حدیث کا پہلا نکتہ جوانی کے بارے میں ہے، اور یہی آج ہماری گفتگو کا محور ہو گا۔ آپ نے فرمایا:"اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ"، پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، اپنی خوشحالی کو غربت سے پہلے، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، اپنی فراغت کو مشغولیت سے پہلے، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔

خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ آج کے خطبے میں ہم اس حدیث کے پہلے اور اہم ترین جز، یعنی "جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو" پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جوانی سنہرا دور اور اللّہ کی عظیم نعمت جب انسان کے پاس توانائی، ہمت، اور علم حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان کے جسم میں طاقت، اس کے ارادوں میں پختگی اور اس کے ذہن میں نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔ جوانی میں انسان بڑے سے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے اور مشکل سے مشکل اہداف کو حاصل کرنے کی لگن رکھتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم اپنے مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں، چاہے وہ دنیاوی ہو یا اخروی۔

حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ مولا علی علیہ السّلام فرماتے ہیں:" شيئانِ لا يَعرِفُ فَضلَهُما إلاّ مَن فَقَدَهُما: الشَّبابُ، والعافِيَةُ"، دو چیزوں کی قدر ان کے چلے جانےکے بعد سمجھ میں آتی ہے ایک جوانی اور دوسری تندرستی۔

انہوں نے ایمان کی جوانی کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایک بہت اہم نکتہ قابلِ غور ہے کہ جوانی کو عام طور پر عمر کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے، جیسے 15 سال سے 40 سال کی عمر۔ لیکن قرآن اور احادیث میں جوانی کا ایک اور مفہوم بھی ہے، اور وہ ہے ایمان کی جوانی، روح کی تازگی اور عزم کی پختگی۔

اس کی بہترین مثال ہمیں اصحاب کہف کے واقعے میں ملتی ہے۔ جب قرآن ان کا ذکر کرتا ہے تو انہیں "فتيہ" یعنی جوان کہہ کر پکارتا ہے، حالانکہ ان میں سے بعض عمر رسیدہ افراد بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:"انَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى"، بے شک وہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا۔ اس آیت میں انہیں "جوان" کہا گیا، کیونکہ ان کا ایمان جوان تھا، ان کا عزم بلند تھا اور وہ اللّہ کی وحدانیت پر ایسے ثابت قدم تھے جیسے مضبوط ارادے والے نوجوان۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل جوانی جسم کی نہیں بلکہ ایمان کی جوانی، روح کی تازگی اور حق پر قائم رہنے کا جذبہ ہے۔ یہ ایک دائمی جوانی ہے جو عمر کے بڑھنے کے ساتھ ختم نہیں ہوتی، بلکہ مزید نکھرتی ہے۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حدیث ہےکہ آپ نے ایک شخص سے پوچھا: ما الفَتى عِندَكُم؟ تمہارے نزدیک جوان کون ہے؟ فقالَ لَهُ: الشابُّ، اس نے کہا: جوان، جوان ہی ہوتا ہے!فقالَ: لا، الفَتى: المُؤمِنُ، فرمایا: نہیں بلکہ مومن جوان إنَّ أصحابَ الكَهفِ كانوا شُيُوخا فَسَمّاهُمُ اللّٰهُ عز و جل فِتيَةً بِإيمانِهِم۔ کیونکہ اصحاب کہف بوڑھے تھے لیکن اللہ نے ان کے ایمان کی بنا پر ان کا نام جوان رکھا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جوانی میں نیک اعمال کی فضیلت ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کو وہ اعمال بہت پسند ہیں جو انسان اپنی جوانی میں خالص نیت سے انجام دیتا ہے۔ جوانی میں کی گئی عبادت، توبہ اور نیک کام کی فضیلت بڑھاپے میں کیے گئے انہی کاموں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں انسان کو بہت سی خواہشات اور فتنوں کا سامنا ہوتا ہے، اور ایسے وقت میں راہِ حق پر قائم رہنا ایک عظیم جہاد ہے۔ قرآن مجید میں ہمیں ایسے نوجوانوں کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے اپنی جوانی اللہ کی راہ میں صرف کی:"انَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى"، بے شک وہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا۔” نے (جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، یہاں جوانی سے مراد ایمانی اور روحانی جوانی ہے۔) اسی طرح، جب حضرت ابراہیم (ع) نے بتوں کو توڑا تو ان کے قوم نے کہا:"قالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ"، انہوں نے کہا: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (ع) کی جوانی میں ہی توحید کی یہ جرأت اور بتوں کے خلاف یہ اقدام ان کے مضبوط ایمان اور عملی پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے آئمہ اہل بیت (ع) نے بھی جوانی میں تربیت اور نیک اعمال کی فضیلت پر زور دیا ہے، امیر المومنینؑ فرماتے ہیں:"انّما قَلبُ الحَدَثِ كالأرضِ الخاليَةِ، ما اُلقِيَ فيها مِن شَيءٍ قَبِلَتهُ"، نوجوانوں کا دل خالی زمین کی مانند ہوتا ہے، اس میں جو چیز ڈال دی جائے اسے قبول کرلیتی ہے۔

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَ هُوَ شَابٌّ مُؤْمِنٌ جو شخص جوانی میں ایمان کی حالت میں قرآن پڑھے، اخْتَلَطَ الْقُرْآنُ بِلَحْمِهِ وَ دَمِهِ تو قرآن اس کے گوشت اور خون میں رچ بس جاتا ہے۔

وَ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ اور اللہ اسے معزز اور نیکو کاروں کے ساتھ قرار دیتا ہے۔

حجۃالاسلام مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: اسی طرح، امام علی علیہ السّلام نے نہج البلاغہ میں جوانی کے عزم و ہمت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: قَدْرُ الرَّجُلِ عَلٰى قَدْرِ هِمَّتِهٖ، وَ صِدْقُهٗ عَلٰى قَدْرِ مُرُوْٓءَتِهٖ، وَ شَجَاعَتُهٗ عَلٰى قَدْرِ اَنَفَتِهٖ، وَ عِفَّتُهٗ عَلٰى قَدْرِ غَیْرَتِهٖ۔ انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے، اور جتنی مروت اور جوانمردی ہو گی اتنی ہی راست گوئی ہو گی، اور جتنی حمیت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی، اور جتنی غیرت ہو گی اتنی ہی پاکدامنی ہو گی۔ یہ فرمان ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ ہم اپنی جوانی کی طاقت کو اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کریں۔

خطیب جمعہ تاراگڑھ مولانا نقی مہدی زیدی نے آخر میں جوانی میں علم حاصل کرنا پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ: رسول خدا صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں:"مَن تَعَلَّمَ في شَبابهِ كانَ بمَنزِلَةِ الرَّسمِ في الحَجَرِ، ومَن تَعَلَّمَ وهُو كبيرٌ كانَ بمَنزِلَةِ الكِتابِ على وَجهِ الماءِ"، جو جوانی کے ایام میں علم حاصل کرتا ہے وہ ایسے نقش کی مانند ہوتا ہے جو پتھر پر ہو (پتھر پر لکیر) اور جو بڑھاپے میں علم حاصل کرتا ہے وہ پانی پر تحریر کی مانند ہوتا ہے۔

امام محمد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے "لَو اُتِيتُ بِشابٍّ مِن شَبابِ الشِّيعَةِ لا يَتَفَقَّهُ (في الدِّينِ) لأََدَّبتُهُ"، اگرمومن جوانوں میں سے کوئی جوان میرے پاس لایا جائے جو علم دین حاصل نہیں کرتا تو میں اسے سختی کے ساتھ تنبیہ کروں گا۔

اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السّلام سے روایت ہے:"لَستُ اُحِبُّ أن أرى الشّابَّ مِنكُم إلاّ غاديا في حالَينِ:تمہارے جوانوں کو صرف دو حالتوں میں دیکھنا چاہتا ہوں، إمّا عالِما أو مُتَعَلِّما، یا تو وہ عالم ہوں یا پھر طالب علم، فإن لَم يَفعَلْ فَرَّطَ، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کوتاہی کے مرتکب ہوں گے، فإن فَرَّطَ ضَيَّعَ، جو کوتاہی کرتاہے وہ خود کو ضائع کر دیتا ہے وإنْ ضَيَّعَ أثِمَ، اور جو خود کو ضائع کردیتا ہے وہ گناہگار ہوتا ہے۔

وإن أثِمَ سَكَنَ النارَ والذي بَعَثَ مُحمّدا بِالحَقِّ"، اور گنہگار کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد مصطفیٰ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کو برحق بھیجا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha