حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے امام حسن عسکری علیہ السّلام اور یاد مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے عنوان سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السّلام امام علی نقی علیہ السّلام کے فرزند اور امام زمانہ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے والد ماجد ہیں۔ آپ 8 یا 10 ربیع الثانی 232 ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے۔ آپ کا نام حسن ہے اور لقب "عسکری" سے اس لیے زیادہ مشہور ہوئے کہ آپ جس محلہ میں بمقام ”سرمن رائے“ رہتے تھے اسے عسکر کہا جاتا تھا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام علیہ السّلام کو اسی مقام پر اپنی فوج اور لشکر کا معائنہ کروایا تھا اور امام نے اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا نظارہ کروادیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السّلام شیعوں کے آخری امام کے والد گرامی ہیں اور سامرہ شہر میں موجود تھے اور حتی اپنے زمانہ کی سختیوں کی وجہ سے انہوں نے حج بھی نہیں کیا تھا، چونکہ آپ علیہ السّلام نے پانچ سال کی عمر سے ہی سامرہ کی طرف مہاجرت کی اور اپنی عمر کے آخری حصہ تک اسی شہر میں رہے۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے دوران کلاس امام حسن عسکریؑ اور امام مہدیؑ کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السّلام نے اپنے فرزند امام مہدی عجلاللهفرجه کی امامت واضح کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے:
١۔ کبھی اپنے خاص صحابی کو فرزند دکھا دیتے، جیسا کہ احمد بن اسحاق قمی کو دکھایا۔ انہوں نے پوچھا: "آپ کے بعد امام کون ہوں گے؟" امام نے پردے کے پیچھے سے تین سالہ بچے کو لائے جس کا چہرہ ماہِ کامل کی طرح روشن تھا، اور فرمایا: "اگر تیرا مقام اتنا بلند نہ ہوتا تو میں تجھے اپنا یہ فرزند نہ دکھاتا۔" (کمال الدین، ج۲، ص۳۸۴)
٢۔ کبھی اپنے بیٹے کو اصحاب کی جماعت کے سامنے لاتے، تاکہ شک و شبہ ختم ہو۔ (بحار الانوار، ج۵۱، ص۶)
٣۔ کئی بار اپنے فرزند کے نام عقیقہ کیا، تاکہ زیادہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اللہ نے آپ کو فرزند عطا فرمایا ہے۔ (کمال الدین، ج۲، ص۴۳۱)
حجۃالاسلام مولانا نقی مہدی زیدی نے وکالت کا نظام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السّلام نے وکالت کے نظام کو مضبوط کیا، تاکہ شیعہ ہمیشہ امام سے رابطے میں رہ سکیں۔ یہ وکلاء واسطے کا کردار ادا کرتے اور شیعہ اپنے مسائل و سوالات انہی کے ذریعے امام تک پہنچاتے، مثلاً علی بن بابویہ قمی نے فرزند کے لیے دعا کی درخواست وکلاء کے ذریعے امام زمانہؑ تک پہنچائی۔ دعا کے نتیجے میں ان کے یہاں ں مشہور فقیہ شیخ صدوق (محمد بن علی بن بابویہ) پیدا ہوئے۔ (کمال الدین، ج۲، ص۵۰۳)
انہوں نے نیابت خاص (چار نواب خاص) کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دراصل شیعیان کو غیبت کبریٰ کے لیے تیار کرنے کا ذریعہ تھا، تاکہ وہ بتدریج براہِ راست امام سے محروم ہونے کے بعد نواب عام (یعنی فقہا و مراجع) کی طرف رجوع کریں۔
انہوں نے کلاس کے آخر میں امام حسن عسکریؑ کی احادیث بیان کیں:
حدیث ۱: خادم ابو حمزہ نصیر روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارہا دیکھا کہ امام ہر غلام سے اس کی زبان (ترکی، رومی، عربی) میں بات کرتے۔ میں حیران ہوا۔ امام نے فرمایا: "خدا اپنے حجت کو تمام زبانوں اور اقوام سے واقف بناتا ہے تاکہ وہ سب کے لیے دلیلِ روشن ہو۔ اگر یہ خصوصیت نہ ہو تو امام اور دوسروں میں فرق باقی نہیں رہتا۔" (الکافی، ج۱، ص۵۰۹)
حدیث ۲: مَن أنِسَ باللّه ِ اسْتَوحَشَ مِن النّاسِ. "جو شخص اللہ سے انس رکھتا ہے، وہ لوگوں سے وحشت کرتا ہے۔" (نزهة الناظر، ص۱۴۶، ح۱۱)
حدیث ۳: مَن رَکِبَ ظَهَر الباطِلِ نَزَلَ بِهِ دارَ النَّدامَةِ. "جو باطل پر سوار ہو گا، وہ پشیمانی کے گھر میں اترے گا۔" (نزهة الناظر، ص۱۴۶، ح۱۹)
حدیث ۴:لَا یُسْبَقُ بَطِیءٌ بِحَظِّهِ وَ لَا یُدْرِکُ حَرِیصٌ مَا لَمْ یُقَدَّرْ لَهُ. مَنْ أُعْطِیَ خَیْراً فَاللَّهُ أَعْطَاهُ وَ مَنْ وُقِیَ شَرّاً فَاللَّهُ وَقَاهُ. "کسی کا رزق چھوٹنے والا نہیں، چاہے وہ سست ہو۔ اور کوئی حریص شخص اپنی قسمت سے زیادہ نہیں پاتا۔ جسے خیر ملا وہ اللہ نے دیا اور جسے شر سے بچایا گیا وہ بھی اللہ کی حفاظت سے بچا۔" (نزهة الناظر، ص۱۴۶، ح۲۰)
حدیث ۵: خَصْلَتانِ لَیْسَ فَوْقَهُما شَیءٌ: الإیمانُ بِاللهِ وَ نَفْعُ الإخْوانِ. "دو عادتیں ایسی ہیں جن سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں: اللہ پر ایمان اور اپنے دینی بھائیوں کو فائدہ پہنچانا۔" (تحف العقول، ص۴۸۹)









آپ کا تبصرہ