حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صدرِ محبان الائمہ (ع) تعلیمی و فلاحی ٹرسٹ مولانا سید مراد رضا رضوی نے لکھنؤ میں مولانا سید کلب جواد نقوی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمدرد ملک وملت مولانا سید کلب جواد نقوی پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش ملک کی ساکھ کو کمزور بنانے کی گھناؤنی سازش ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ملک ہندوستان کی بدلتی صورت حال نہایت تشویشناک ہے۔ کل تک جو ہندوستان دنیا بھر میں گنگا جمنی تہذیب کا مرکز اور رام و رحیم کے ایک ساتھ سر جوڑ کر زندگی بسر کرنے کا کاشانہ واشیانہ شمار کیا جاتا تھا؛ دنیا کے جس گوشے میں بھی آپ سفر کیجئے ہمارے ملک کی تعریف و تمجید اسی عنوان سے ہوتی تھی کہ کثرت میں وحدت کا بہترین آفتابِِ عالم تاب ملک ہند ہے، لیکن اب اس شان وشوکت پر جیسے لگتا ہے زوال آرہا ہے۔ کچھ غدار وطن، بعض شر پسند عناصر کا ساتھ لے کر ملک کی شبیہ پر بدنما داغ لگانا چاہتے ہیں اور اس میں ہمارے ہندو بھائیوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ مسلم دشمن ہیں؛ جبکہ یہ بالکل غلط ہے بھارت کا ہندو اپنے اندر وہ قلبی اور شعوری وسعت رکھتا ہے جس میں ہر مذہب وملت سما جاتا ہے اور اس طرح وہ دنیا کو جیو اور جینے دو کا درس دیا کرتا ہے، لیکن افسوس کہ شر پسند عناصر اور صیہونزم کے آلۂ کار افراد اپنی گھناؤنی سازش سے اس ملک کی ساکھ بگاڑنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اسی گھناؤنی سازش کا ایک بڑا نمونہ: 13,اکتوبر2025 کو شہر تہذیبِ عشق و محبت، گنگا جمنی تہذیب کا مرقع شہر لکھنؤ میں اس وقت دکھائی دیا جب ایسی ذات والا صفات پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کی گئی جس کا پورا خاندان نفرتوں کی تاریکی کو مٹا کر محبت کا سورج روشن کرنے والا رہا ہے، ایسی عبقری شخصیت پر قاتلانہ حملے کی سازش اور ملک کی ساکھ بچانے کے لیے قیام کرنے والی ذات کی شان میں غنڈہ گردی اور گالی گلوج وہ بھی انتظامیہ کے اہل کاروں کی موجودگی میں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امام جمعہ لکھنؤ مولانا سید کلب جواد نقوی صاحب پر نہ تو کسی ہندو نے حملہ کیا ہے اور نہ ہی کسی مسلم نے، بلکہ ملک کے غدار دشمنانِ انسانیت لوگوں نے اپنے ناپاک عزائم کو ایک ملکی، بلکہ عالمی شخصیت کے خون ناحق میں اپنے ہاتھ رنگنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا سید کلب جواد نقوی کسی خاص مذہب اور قوم کی آبرو نہیں ہیں، بلکہ وہ ملک ہندوستان کا دمکتا ہوا ایسا آفتاب ہیں جن سے بیک وقت ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب کے سب اپنے اپنے ظرف وجود کے مطابق فیضیاب ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ جب کسی ہندو پر وقت پڑتا ہے تو وہی مرد میدان دکھائی دیتے ہیں؛ اہل سنت کے مسائل کے لیے بھی وہ اپنے بزرگوں کی سیرت پر عمل کرتے ہوے ہر وقت سینہ سپر رہےہیں اور شیعہ ہونے کے حوالہ سے وہ ایک خادم کی طرح شیعوں کے حقوق کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ اوقاف کی ملکیت یعنی امام زمانہؑ کے املاک کی حفاظت کی مہم میں ان کا کردار جہاں ایک طرف شیعوں کے حقوق کا دفاع اور ان کی بازیابی کی سعی پیہم ہے، وہیں ان کی حب الوطنی کا بہترین نمونہ ہے اور اس کی طرف ٹیڑھی نگاہ اٹھا کر دیکھنے والے افراد یا تو سازشوں کا شکار ہیں یا دہشت گرد غدار وطن ہیں۔
مولانا سید مراد رضا رضوی نے کہا کہ ایسی شخصیت پر انتظامیہ کی ناک کے نیچے اور آنکھوں کے سامنے اگر کوئی شر پسند قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کرے تو اگر ہم حسن ظن رکھتے ہوئے یہ نہ کہیں کہ انتظامیہ اس گھناؤنی سازش میں ملوث تھی تو اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ انتظامیہ کی کوتاہی سے یہ گھناؤنا عمل انجام پایا ہے جس سے ساری دنیا میں ہندوستان کی ساکھ کمزور ہوئی ہے اور ناک جھکی ہے۔ ایسے لوگوں نے ملک کی عزت وآبرو کو مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے؛ ایسے موقع پر ہماری خاموشی دہشت گردی کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم عمومی طور پر بھارت سرکار کے صدر محترم اور وزیراعظم ہند سے اور خصوصی طور پر گورنر اتر پردیش اور وہاں کے وزیر اعلیٰ سے درخواست گزار ہیں کہ اس سنگین اور انسانیت سوز واقعے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کڑے سے کڑے قدم اٹھائیں اور ملک کی ساکھ کو نیلام کرنے والے غداروں کو گرفتار کر کے ملک میں امن وامان کا پیغام عام کریں، تاکہ سب کی ترقی روز روشن کی طرح واضح ہو جائے اور دنیا بھر میں محبت وآشتی سے مشہور ہمارے ہندو بھائیوں کی امن دوستی جلوہ نم ہو جائے اور وہ بدنامی سے محفوظ رہیں ۔ اس درندگی کے دور میں ہمارا ملک آج بھی محبت کا پیغامبر باقی رہ سکتا ہے بس سربراہانِ مملکت کو بچانے کے لیے اپنی پوری کوشش صرف کر دیں تو شرپسند عناصر کے حوصلے خود بخود پست ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آخر میں ملک کے غیرت مند عام وخاص افراد خاص طور پر لکھنؤ کے لطیف مزاج لوگوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اس موضوع پر سنجیدگی سے قدم اٹھائیں اور قانون کے دائرہ میں اپنے احتجاجات درج کروائیں، سب سے بڑھ کر شیعہ علماء اپنے اپنے دائرہ کار میں اس سنگین اور شرمناک حملے کی ناکام کوشش کو خود پر حملہ سمجھتے ہوئے میدان عمل میں آکر اتحاد و یکجہتی کا بھر پور مظاہرہ فرمائیں، تاکہ دوبارہ کسی غدار وطن میں ایسی ظالمانہ حرکت کی ہمت نہ ہو سکے۔









آپ کا تبصرہ