جمعہ 17 اکتوبر 2025 - 11:01
قرآن کی رو سے جس دل میں نورِ خدا آجائے وہ صرف زندہ ہی نہیں، بلکہ زندگی پاتا ہے، مولانا سید منظور علی نقوی

حوزہ/ مولانا سید منظور علی نقوی امروہوی نے حرم مطہر حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا کے ابو طالب ہال میں گزشتہ رات "اللہ کی طرف سفر" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں انسان کے روحانی سفر اور نورِ الٰہی کی حقیقت پر روشنی ڈالی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید منظور علی نقوی امروہوی نے حرم مطہر حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا کے ابو طالب ہال میں گزشتہ رات "اللہ کی طرف سفر" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں انسان کے روحانی سفر اور نورِ الٰہی کی حقیقت پر روشنی ڈالی۔

مولانا منظور علی نقوی نے اپنے بیان کا آغاز اللہ ربّ العزت کی حمد و ثنا اور نبیِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم و اہلِ بیتِ اطہارؑ پر درود و سلام سے کیا اور کہا کہ انسان کا اصل سفر دنیا سے آخرت کی طرف نہیں، بلکہ خدا کی طرف ہے؛ یہ سیر الی اللہ ہے، ایک ایسا راستہ جو روح کے بیدار ہونے سے شروع ہوتا ہے اور لقاءِ الٰہی پر ختم ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سالک کو اس راستے میں سات منازل طے کرنی ہوتی ہیں: یقظہ (بیداری)، توبہ، تقویٰ، تخلیہ، تحلیہ، تجلی، اور فنا۔

مولانا نے کہا کہ جب بندہ دل کو پاک کر لیتا ہے تو منزلِ ششم، یعنی تجلیِ نورِ الٰہی نصیب ہوتی ہے، جہاں دل میں خدا کا نور اترتا ہے اور انسان کی کائنات بدل جاتی ہے۔

مولانا منظور علی نقوی نے قرآنِ کریم کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس دل میں نورِ خدا آجائے وہ صرف زندہ نہیں رہتا، بلکہ زندگی پاتا ہے۔

انہوں نے سورۂ انعام اور سورۂ نور کی چند آیات کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ جن کے دل نورِ الٰہی سے خالی ہیں، وہ بظاہر زندہ ہیں مگر حقیقت میں تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں۔

انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ سید جمال الدین اسدآبادی جب یورپ میں تھے تو ایک بار ہاتھ سے کھانے پر مغربی صحافیوں نے تمسخر کیا۔ سید نے جواب میں فرمایا: میرے ہاتھ آج تک کسی کے منہ میں نہیں گئے، لیکن تمہارے چمچ ہر ایک کے منہ میں جاتے ہیں۔

مولانا منظور علی نقوی نے مزید کہا کہ یہ ہے عزتِ ایمان کہ مؤمن اپنی حقیقت جانتا ہے اور دنیا کے طعن و ملامت سے نہیں گھبراتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایمان کا نور انسان کو جہالت سے علم، خود باختگی سے خودداری، مایوسی سے امید اور غلامی سے آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔ الله تعالٰی مؤمنوں کا ولی ہے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔

مولانا منظور علی نقوی نے تاکید کی کہ دل کا سرپرست یا تو اللہ ہوتا ہے یا طاغوت۔ اگر دل میں نفس، حسد اور دنیا کی محبت ہے تو وہ دل تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے؛ لیکن اگر دل میں ذکرِ خدا، محبتِ خدا اور خوفِ خدا ہے تو وہ عرشِ رحمٰن بن جاتا ہے۔

آخر میں مولانا نے دعا کی کہ پروردگار! ہمارے دلوں میں اپنا نور داخل فرما، ہمیں اُن بندوں میں شامل کر جن کے قلوب منور ہیں اور ہمیں اُس منزلِ تجلی تک پہنچا دے جہاں تیرا دیدار ہی ہمارا مقصود ہو۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha