حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید علی ہاشم عابدی ہندوستان کے اُن علماء میں سے ہیں جو دین کے متعلق سنجیدہ اور فکری انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور سامعین و قارئین کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آپ ایک بہترین مقرر، صاحبِ قلم اور صاحبِ بصیرت عالمِ دین ہیں۔ مولانا موصوف اپنے بیانات اور مقالات کے ذریعے نوجوانوں میں دینی شعور، درست عقائد اور فکری بیداری پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
28 صفر المظفر، حضرت خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم وصال کی مناسبت سے آپ سے کی گئی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
حوزہ: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "اسوہ حسنہ" قرار دیا ہے، اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
مولانا علی ہاشم عابدی: جی ہاں، اللہ تعالیٰ نے سید المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالمین کے لئے رحمت اور بشریت کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (احزاب: 21)
یعنی رسول اللہ کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ مسلمانوں کی سعادت اور کامیابی اسی میں ہے کہ وہ پیغمبر اکرمؐ کی پیروی کریں۔
حوزہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں سب سے پہلا پہلو کیا سامنے آتا ہے؟
مولانا علی ہاشم عابدی: پہلا پہلو "بے خوف عقائد کا بیان" ہے۔ رسول اللہؐ نے ہمیشہ کفار و مشرکین کے سامنے اپنے عقائد بلا خوف و ہراس پیش فرمائے۔ ایک موقع پر مشرکین نے آپؐ سے کہا کہ ایک سال ہمارے خداؤں کی پرستش کریں اور ایک سال ہم آپؐ کے خدا کی عبادت کریں گے۔ اس پر آپؐ نے بے خوفی کے ساتھ اعلان فرمایا: "میں اللہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھ سکتا، اور اس تصور سے پناہ چاہتا ہوں۔"
یہی بے خوف ہونا دراصل سچے عقائد کی طاقت ہے۔
حوزہ: حدود الٰہی کے نفاذ میں رسول اکرمؐ کی سیرت کیسی تھی؟
مولانا علی ہاشم عابدی: آپؐ نے کبھی بھی خدا کے قانون میں مصلحت یا رو رعایت کو قبول نہیں کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر ایک معزز خاندان کی خاتون نے چوری کی، جرم ثابت ہوا تو آپؐ نے حکم دیا کہ الہی حد جاری کی جائے۔ لوگوں نے سفارش کی لیکن آپؐ نے فرمایا:
"اگر کوئی غریب چوری کرے تو اسے سزا ملے اور اگر کوئی مالدار کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے؟ نہیں، خدا کے قانون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔"
یہ ثابت قدمی آج کے سماج کے لئے بھی ایک بڑا سبق ہے۔
حوزہ: حضورؐ کی سادہ زندگی کے بارے میں آپ کیا فرمائیں گے؟
مولانا علی ہاشم عابدی: رسول اکرمؐ نے ہمیشہ بے مثال سادگی اختیار کی۔ آپؐ ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرتے تھے تاکہ انسانوں کے لئے حقیقی نمونہ بن سکیں۔ ایک موقع پر جناب عمر نے دیکھا کہ آپؐ کھجور کی پتیوں کے تکیہ پر آرام فرما رہے ہیں۔ حیرت سے عرض کیا کہ "یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ تو ریشمی بستروں پر سوتے ہیں، آپؐ کی زندگی اتنی سادہ کیوں؟"
آپؐ نے جواب دیا: "دنیا عارضی ہے، اصل آرام آخرت میں ہے اور میں نے آخرت کے سکون کو اختیار کیا ہے۔"
یہی سادہ زندگی ہمارے لئے سب سے بڑی نصیحت ہے۔
حوزہ: عفو و درگزر کے باب میں رسول اکرمؐ کی سیرت کیسی تھی؟
مولانا علی ہاشم عابدی: رسول اکرمؐ سراپا عفو و بخشش تھے۔ سب سے بڑی مثال فتح مکہ ہے، جب آپؐ نے اپنے شدید ترین دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا۔ حالانکہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ اسی طرح آپؐ کی پوری زندگی عفو و درگزر کی عملی مثال ہے۔
حوزہ: آخر میں آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
مولانا علی ہاشم عابدی: میرا پیغام یہی ہے کہ اگر ہم رسول اللہؐ کے اسوہ حسنہ کو اپنے سامنے رکھیں، چاہے وہ عقائد میں بے خوف ثابت قدم ہونا ہو، حدودِ الٰہی کا نفاذ ہو، زندگی میں سادگی ہو یا عفو و درگزر—یہ سب ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ اگر ہم ان پر عمل کریں تو آج بھی ہمارا سماج محمدی سماج بن سکتا ہے۔
خداوند ہمیں اپنی، اپنے رسولؐ اور اپنی حجت کی معرفت اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔









آپ کا تبصرہ