تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ ایک عظیم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس سے انسانیت کو امن کے قیام کا سلیقہ، دہشت گردی اور تجاوز سے بچنے کا طریقہ، ایک دوسرے کے حقوق اور حیثیت تسلیم کرنے کا انداز، جغرافیائی اور سرحدی احترامات و قوانین کی پاسداری اور جنگ و جدال کو روک کر آشتی کے فروغ کی راہیں ملتی ہیں۔ یہ حقیقت آج پوری انسانیت تسلیم کر چکی ہے کہ اگر خاتم المرسلین ؐ کی ذات گرامی قدر صلح حدیبیہ کی صورت میں معاہدہ نہ کرتی تو انسانیت تباہی سے دو چار ہو جاتی اور اسلام کی نشوونما اور تبلیغ وترویج اپنے آغاز میں ہی رک جاتی؛ جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد رسول اکرم ؐ نے انسانیت بالخصوص اہل اسلام کو شر‘ فساد‘ فتنے‘ جنگ‘ تباہی‘ اور دائمی تنزلی سے محفوظ کرلیا اسی طرح نواسہ رسول اکرم ؐ‘ فرزند امیرلمومنین حضرت علی ؑ حضرت امام حسن علیہ السلام نے بھی امیرالمومنین حضرت علی کی شہادت کے بعد اپنے حساس اور نازک دور امامت و رہبری میں اپنے جدامجد خاتم المرسلین ؐ کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے ایک تاریخی اور عظیم صلح نامہ کرکے امت مسلمہ کو بڑی تباہی وبربادی اور رسوائی سے بچالیا۔ ذیل کی گذارشات میں ہم نواسہ رسول ؐ حضرت امام حسن ؑ کے فضائل ومناقب کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے ان کے اس تاریخی امن معاہدے اور صلح نامے کی چند شقوں کا جائزہ لیں گے تاکہ دور حاضر میں پھیلنے والی شرپسندی‘ انتشار وافتراق‘ جنگ وجدال‘ تفرقہ بازی‘ دہشت گردی‘ داخلی اختلافات اور حکومتوں کو درپیش مسائل کے حل کا فارمولہ تلاش کیا جاسکے۔
امام حسن مجتبی ؑ کی خوش بختی کا اندازہ لگائیے کہ وہ پہلے بچے ہیں کہ جن کی تربیت خود خاتم الانبیاء ؐ احمد مجتبی ؐ اور سردار اولیا حضرت علی المرتضی ؑ کی آغوش اطہر میں ہوئی۔ ان دونوں بلندقامت اور بزرگ و معصوم ہستیوں نے حضرت امام حسن ؑ کی تربیت اسلام کے بلند ترین آفاقی اصولوں کے تحت فرمائی۔ وحی الہی کی ترجمان دونوں شخصیات نے امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑ کی تربیت کو جس نہج پر پہنچایا تھااسی کا اثر تھا کہ رسول خدا ﷺ اور علی المرتضی ؑ کے بعد ان دونوں ہستیوں نے اسلام اور امت مسلمہ کے تحفظ و بقاء کے لیے اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے حالات کے تحت اور مصالح کو دیکھ کر ایسے لافانی اقدامات فرمائے کہ جن سے رسالت اور امامت کی حقانیت کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ ان دونوں شخصیات کے ساتھ ساتھ حسن ؑ و حسین ؑ کی تربیت میں کلیدی‘ بنیادی‘ اور اساسی کردار عصمت و طہارت کا مرکز اور ام الآئمہ حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا ؑ کا تھا کہ جن کی آغوش عصمت و طہارت اور سایہ عطوفت نے حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑ کو دین و دنیا میں رہبری و رہنمائی اور امامت کرنے کے قابل بنایا۔ اگرچہ حضرا ت حسنین ؑ کے سروں پر سے یہ مشفق سایہ بچپن میں ہی اٹھ گیا تھا لیکن اس مختصر ترین عرصے میں حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرا ؑ نے جس پختگی اور کمال توجہ سے تربیت کے اعلی ترین انسانی مدارج اور مراحل انجام دئیے وہ اس قدر راسخ تھے کہ ان کی جدائی کے باوجود بھی حضرات حسنین ؑ اسی تربیت کے حصار میں رہے اور اسی تربیت کے طفیل ہی زندگی بسر فرماتے رہے۔ اگرچہ امام حسن ؑ اپنے والد گرامی حضرت امام علی ؑ کے دور خلافت میں شجاعت و دلیری کا سکہ منوا چکے تھے اور ہاشمی خون کا ثبوت متعدد معرکوں اور جنگوں میں بخوبی دے چکے تھے۔ لیکن جب امت کی امامت اور قیادت کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آئی تو جنگ و جدال اور جرات و دلیری کا مظاہرہ عسکری انداز میں کرنے کی بجائے حکمت و دانائی اور تدبر و دور اندیشی کو اپنے امور کی انجام دہی کا مرکز قرار دیا اورہر مرحلے پر امت کو منتشر اور اسلام کو کمزور کرنے کے حوالے سے مخالفین کے تمام اقدامات کو ناکام بنایا اور ظاہری خلافت سے ایک معاہدے کے ذریعے دستبردار ہوکر ثابت کردیا کہ وہ امت کی فلاح‘ مسلمانوں کے تحفظ اور اسلام کی بقاء و استحکام کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں کسی گروہ بندی‘ جبر‘ تسلط یا شخصی و خاندانی حکمرانی کے لیے نہیں۔
یہاں یہ سوال قابل غور ہے کہ بزرگی‘ شان و منزلت اورکمال ومرتبے پر فائز ایسی شخصیت بھلا امت کو کس طرح منتشر دیکھ سکتی ہے؟ او راسلام کو کس طرح کمزور کرنے کے اقدامات کی حمایت کر سکتی ہے؟؟ یہی وجہ ہے کہ جب امیرالمومنین حضرت علی ؑ کی شہادت کے بعد خلافت و امامت اور امت کی رہبری کا مرحلہ درپیش آیا تو مدمقابل گروہ کی طرف سے جنگ و جدال کے ذریعے اپنی رائے اور پھر حکومت مسلط کرنے کا اعلان ہوا۔ امت کو تقسیم کرنے اور اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کے اقدامات سامنے آنے لگے اور ماحول اس قدر تلخ اور متنازعہ بنا دیا گیا کہ امام وقت کے لیے ایک کڑی آزمائش پیدا کردی گئی۔یقینا اگر امام حسن ؑ چاہتے تو رسول خدا ﷺ اور حضرت علی المرتضی سے نسبت ہونے کا فائدہ اٹھا کر میدان جنگ میں وارد ہوجاتے اور عنان اقتدار حقدار کو مل جاتا لیکن چونکہ اس سے اسلام کے کمزور ہونے اور امت کی وحدت کا شیرازہ بکھر جانے کا اندیشہ لاحق تھا اس لئے آپ نے سیرت نبوی ؐ اور اخلاق علوی ؑ کو مدنظر رکھتے ہوئے امت کی حقیقی امامت کا فریضہ انجام دیا اور جنگ و جدال کی بجائے حکمت و تدبر اور صلح و مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کے اقدامات فرمائے۔ تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ‘ صلح بنی ضمرہ اور صلح بنی اشجع کی طرح ”صلح امام حسن ؑ“ بھی تاریخی اہمیت کی حامل دستاویز ہے کہ جس سے بعدمیں آنے والے حکمرانوں اور باہم مخالف فریقوں نے بہت رہنمائی لی۔ آپ نے جن شرائط کے تحت مدمقابل سے صلح فرمائی ان میں اپنے کسی ذاتی‘ خاندانی‘ گروہی مفاد یا منفعت کو مدنظر نہیں رکھا بلکہ امت‘ دین اور عوام و اسلام کے مفاد کو سامنے رکھا۔ اگر صلح کی شرائط کا بغور مطالعہ کیا جائے تو تین اہم شرائط ہمارے سامنے آتی ہیں جن پر حضرت امام حسن ؑ بار بار تاکید فرماتے تھے تاکہ شریعت محمدی ﷺ کے احکام کی نشرو اشاعت بخوبی ہوسکے اور انتقال اقتدار بھی بطریق احسن انجام دیا جاسکے اور ملوکیت‘ بادشاہت‘ شخصی اور خاندانی اقتدار کی روایت کی بنیاد نہ ڈالی جا سکے۔ ان مذکورہ تین شرائط کا خلاصہ یہ ہے۔
۱۔ حاکم وقت اس شرط پر مسلمانوں کے تمام سماجی امور کا ذمہ دار ہے کہ وہ خود کو کتاب خدا اور سنت رسول ؐ کا پابند قراردے (یعنی خود بھی قرآنی احکامات اور نبوی احادیث و سیرت رسول ؐ اور اسلام کے اعلی اصولوں کے مطابق زندگی گذارے اور بطور حکمران بھی انہی قواعد کی پابندی کرے جو قرآن کریم اور سیرت رسول اکرم ؐ میں متعین کئے گئے ہیں)۔
۲۔ حاکم وقت کے بعد عنان حکومت حضرت امام حسن ؑ سنبھال لیں گے اور اگر اس وقت امام حسن ؑ دنیا سے رخصت ہوجائیں تو امام حسین ؑ ان کے جانشین ہوں گے(یعنی انتقال اقتدار کے اس انداز سے حق حکمرانی اصل مستحقین کے پاس واپس چلا آئے گا‘ ملوکیت کا راستہ بھی روکا جا سکے گا اورامت انتشار سے بچ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسین ؑ نے یزید کے دور اقتدار سے قبل قیام کا فیصلہ نہ فرمایا کیونکہ انہیں صلح امام حسن ؑ کا پاس اور لحاظ تھا حالانکہ امام حسن ؑ کی شہادت کے بعد صلح کی خلاف ورزیاں شروع ہوچکی تھیں اور صلح کے تمام تقاضے رد کر دئیے گئے تھے)۔
۳۔ لوگوں کو امن و آشتی اور آزادی بخشی جائے چاہے وہ عرب ہوں یا غیر عرب‘ شامی ہوں یا عراقی اور کسی کو ماضی میں حکمرانوں کے خاندان کے خلاف رہنے یا ان سے اختلاف رائے رکھنے کی بنیاد پر سز ا نہیں دی جائے گی(یہاں بھی عوام کے اجتماعی مفادات اور حقوق کی بات کی گئی ہے اور طبقاتی تقسیم‘ علاقائی تعصب اور قوم پرستی کی نفی کی گئی ہے اور لوگوں کی وابستگی کا معیار خالصتا اسلام کو قرار دیا گیا ہے جبکہ عوام کو اظہار رائے کی آزادی دینے پر زور دیا گیا ہے ساتھ ہی حکمرانوں کو بھی اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے یا اپنے خاندان کے خلاف رائے رکھنے والے طبقات کو ذاتی انتقام کا نشانہ نہ بنائیں بلکہ مثبت‘ تعمیری اور سود مند تنقید اور اظہار رائے کو اپنے لئے رہنمائی کا ذریعہ بنائیں اور مخالفین کو سرکاری اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتقامی کاروائیوں کا نشانہ نہ بنائیں)۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر ان معروضی حالات میں حضرت امام حسن ؑ یہ تاریخی صلح نہ فرماتے تو آج اسلام کا یہ نقشہ نہ ہوتا۔ آپ ؑ نے امت کو ذلت سے بچالیا اور
اپنی صلح کے ذریعے جہاں اپنے آپ کو بزرگ‘ مصلح اور امت کا خیر خواہ ثابت کیا وہاں امت کو عزت و توقیر بھی بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؑ نے ایک مقام پر مالک بن ضمرہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ”مجھے ڈر تھا کہ مسلمان روئے زمین سے محو نہ کر دئیے جائیں لہذا میں نے چاہا کہ خدا کے دین کی طرف دعوت دینے والا کوئی تو باقی رہے“ ایک اور مقام پر ابو سعید سے ارشاد فرماتے ہیں ”اے ابو سعید حاکم وقت سے میری صلح کا سبب وہی ہے جو میرے جد امجد پیغمبر اکرم ﷺ کا بنی ضمرہ‘ بنی اشجع اور حدیبیہ میں اہل مکہ سے صلح کا سبب ہے“۔ حضرت امام محمد باقر ؑ صلح امام حسن ؑ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”خدا کی قسم جو کچھ حضرت امام حسن ؑ نے انجام دیا وہ امت کے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج اپنی روشنی ڈالتا ہے“۔
دور حاضرہ میں بھی امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم جس انتشار‘ اختلاف‘ جنگ و جدال اور دہشت گردی کا شکار ہے اس کا واحد حل سیرت امام حسن ؑ پر عمل پیرا ہونے میں پوشیدہ ہے کہ تمام طبقات شخصی‘ لسانی‘ گروہی‘ مسلکی‘ فرقہ وارانہ‘ علاقائی‘ ملکی‘ مذہبی اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی انسانی مفادات کو مدنظر رکھیں اور باہمی صلح‘ امن معاہدوں اور محبت و امن کا آغاز کریں تاکہ عالم انسانیت تفرقے‘ انتشار‘ جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے محفوظ رہے اور تمام مذاہب و مکاتب کے پیروکار اپنے عقائد و نظریات کے ساتھ امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔ یہی سیرت امام حسن ؑ کا اصل مفہوم اور روشن پہلو ہے۔









آپ کا تبصرہ