حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بڑے اجتماعات جیسے پیادہروی اربعین، عوامی ریلیاں اور دیگر عوامی اجتماعات میں کبھی کبھار نماز جماعت ایسے شخص کی امامت میں ہوتی ہے جسے لوگ نہیں جانتے اور اس کی عدالت کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اس کا ظاہری صالح ہونا، جیسے لباسِ روحانی یا اچھا رویہ، نماز جماعت میں اقتدا کے لیے کافی ہے یا نہیں؟ حضرت آیتالله خامنهای نے اس سوال کا جواب دیا ہے جو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال:
عوامی اجتماعات جیسے پیادہروی اربعین یا جلوسوں میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ایسا شخص امام جماعت بنتا ہے جسے لوگ نہیں جانتے، مثلاً کوئی طلبہ یا روحانی، اور اس کی عدالت کو جانچنے کا موقع نہیں ہوتا۔ ایسے حالات میں کیا صرف اس کا ظاہری طور پر مذہبی اور صالح لگنا نماز جماعت کے لیے کافی ہے؟
جواب:
امام جماعت کی عدالت کو ثابت کرنے کے لیے اس کا ظاہری اچھا رویہ کافی ہے۔ یعنی اگر اس کا برتاؤ شرعی اصولوں کے مطابق ہو اور اس پر کوئی گناہ ظاہر نہ ہو تو اسے امام مان کر نماز پڑھنا جائز ہے، اور اس کا فیصلہ نماز پڑھنے والے (مکلف) پر ہے۔
اسی طرح، اگر کچھ لوگ اس کے ساتھ نماز پڑھیں اور ان کو اس پر یقین ہو جائے تو یہ بھی کافی ہے۔









آپ کا تبصرہ