۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
پٹنہ

حوزہ/ مولانا شاہ حسین احمد: ہمارے نبی (ص) نے بُروں سے نہیں، بُرائی سے نفرت کرنا سکھایا ہے۔ مولانا سید امانت حسین: سیرتِ رسول (ص) کے آئینہ میں ایک مرکز پر جمع ہونا وقت کی اہم ضرورت۔ مولانا سید حیدر مہدی: اُسوۂ رسول (ص) کے مطابق اختلافات کو محبت سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پٹنہ/ محبانِ امامِ عصر پٹنہ کی جانب سے باؤلی امام بارگاہ پٹنہ سیٹی میں رسولِ کبریا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے بزمِ وحدت کے عنوان سے ایک محفلِ نور اور تقسیم انعامات و اسناد کا انعقاد کیا گیا جس میں علمائے کرام، مقررین اور شہر کی معزز شخصیتوں نے شرکت فرمائی۔ محفل کاآغاز مولانا عروج حسن عابدی کے تلاوت کلامِ پاک سے ہوا بعدہ انہوں نے مدحِ رسولِ اکرم (ص) میں نعت پیش کیا:

کر مجھ کو عطا قوتِ گفتار محمدۖ

لکھّوں میں تری مدح میں اشعار محمدۖ

نعت خوانی کے بعد حضرت دیوان شاہ ارزانی کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ حسین احمد نے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے پہلا ثنا خواں خود اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ساری کائنات کے دریا روشنائی بن جائیں، سارے اشجار قلم بن جائیں اور تمام جن و اِنس مل کر بھی ہمارے نبی (ص) کے فضائل لکھنا چاہیں تو نہیں لکھ سکتے۔ کوئی بشر کیا خیرالبشر کی مدح کرسکتا ہے جس کے طفیل میں ساری کائنات اور اس کی ہر شئے خلق کی گئی ہے۔ ہمارے نبی کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جو خود سیدالانبیا ہیں، بھائی وہ ہیں جو سیدالاولیاء ہیں، بیٹی وہ ہیں جو کائنات کی عورتوں کی سردار ہیں جن کے احترام میں خود حبیبِ کبریا تعظیم کو کھڑے ہوجاتے تھے اور نواسے وہ ہیں جو ''حقاّ کہ بنائے لااِلٰہ است حسین'' ہیں۔ ہمارے نبیۖ نے بُروں سے نہیں بلکہ بُرائی سے نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ہماری کوشش اسلام کے فروغ اور انسانیت کے تحفظ کے لئے ہونی چاہئے۔ مولانا انیس الرحمن قاسمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جو دین حضرت آدم کو ملا وہی دین ہمارے نبی کریمۖ کو بھی اللہ نے دیا جس کی تبلیغ رسولِ اکرمۖ نے کی۔ اسلام میں وحدتِ ملت فرضِ کفایہ ہے جو انفرادی فریضہ بھی ہے اور اجتماعی فریضہ بھی۔ ہمارے نبی نے وحدتِ ملت کو ٢٣برس تک ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح خود کو بھوکا رکھ کر موت سے ہمکنار کرنا خودکشی ہے اور گناہ ہے اُسی طرح کسی دوسرے کو بھوکا دیکھ کر چھوڑ دینا بھی گناہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اُسوہ میں بلاتفریق مذہب و ملت تمام انسانوں کا خیال رکھا گیا اور حضورۖ نے یکساں طور پر سب کی ضرورتوں اور پریشانیوں کو دُور کیا۔اسی وجہ سے دوسرے مذاہب کے افراد انہیں اُسوۂ حسنہ کو دیکھ کر اسلام میں داخل ہوئے۔ مولانا سید امانت حسین نے اپنی تقریر میں محبانِ امامِ عصر کے کارکنان، معاونین، علمائے کرام، مقررین اور حاضرینِ محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس بزم وحدت کا پیغام یہ ہے کہ کائنات کی جس عظیم ہستی کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے ہم سب یکجا ہوئے ہیں، اس کے سیرت و کردار کے آئینہ میں ہم ایک مرکز پر جمع ہوجائیں، یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم رسول جیسے تو نہیں بن سکتے مگر ان کی سیرت اور اُسوۂ حسنہ پر عمل کرکے ایک سچے اور اچھے مسلمان تو بن سکتے ہیں۔ سیرتِ پیغمبر ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ پہلے اپنا کردار ایسا بنا لو کہ جب کچھ بولو یا کرو تو لوگ تم پر یقین کریں۔ ہمارا کردار اسلامی کردار ہونا چاہئے تاکہ ہمارے کردار سے لوگ پہچانیں کہ یہ اسلام کا ماننے والا ہے۔ مولانا سید حیدر مہدی نے کہا کہ آقائی خامنہ ای نے کہا تھا کہ اگر اِس دَور میں رسول آجائیں تو سب سے پہلا کام شاید وہ اپنی اس منتشر اُمت کو ایک مرکز پر جمع کرنے کا کریں۔ اگر مسلمان تمام اختلافات کے باوجود رسولِ اکرمۖ کی سیرتِ طیبہ جو ہمارے نمونۂ عمل ہے، اس پر یکجا ہوجائیں تو دشمن طاقتیں کمزور ہوجائیں گی۔ اختلافات کو محبت سے مٹایا جاسکتا ہے، نفرت سے نہیں۔ 

واضح ہو کہ ١٩اکتوبر کو ١٤ سے ٢٠، اور ٢١ سے ٢٥ سال کے بچوں کا تقریری مقابلہ اسی امامبارگاہ میں رکھا گیا تھا جس کا بالترتیب عنوان تھا ''رسول اللہ کا اخلاق'' اور ''رسول اللہۖ او راسلام''۔ اس مقابلہ میں کامیاب بچوں کو اس محفل میں اسناد و انعامات تقسیم کرکے ہمت افزائی کی گئی۔ اس مقابلہ میں اول انعام غلام حسین جعفری، یاسر علی او رسیدہ بیگم کو دیا گیا۔ دوسرا انعام وافیہ فاطمہ، مونس زہرا، امن فاطمہ، ولی حامد اور عطیہ زیدی کو دیا گیا اور تیسر انعام محمد مصطفےٰ، بتول فاطمہ،زمن علی ، محمد واصف احمد، سید یونس حسین، ایشان علی، زہرا علی، سکینہ علی اور بتول جعفری کو دے کر ان کی ہمت افزائی کی گئی۔ یہ تمام انعامات و اسناد مولانا امانت حسین، مولانا عروج حسن عابدی، مولانا سید حیدر مہدی کے دست مبارک سے دئے گئے۔

تقریر سے قبل محفل میں معروف شعراء کے ذریعہ نعتیہ کلام پیش کیا گیا جن میں احتشام عظیم آبادی، بابر ندیم ، ارتضیٰ حسین، نعیم آزاد اور محمد عباس کے نام قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے بارگاہِ رسولِ خدا اور اور امام جعفر صادق میں اشعار کا نذرانہ پیش کیا ساتھ ہی اپنے خوبصورت نعتیہ کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض بابر ندیم نے انجام دئے جنہوں نے ابتدائے محفل سے اختتام تک اپنی شیریں گفتگو اور چنندہ اشعار سے سامعین کو باندھے رکھا۔ بچوں اور بچیوں کو اسناد و تحائف کی تقسیم کے بعد محفلِ نور کا اختتام ہوا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .