تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | ہمارے پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت با سعادت یکم رجب المرجب ۵۷ ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؑ کے والد حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت حسن ؑ تھیں۔ یعنی امام حسین علیہ السلام آپؑ کے دادا اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام آپؑ کے نانا ہیں لہذا آپ ماں باپ دونوں لحاظ سے پہلے علوی اور فاطمی ہیں ۔
روایات کے مطابق آپؑ کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت حسن سلام اللہ علیہامومنہ، عابدہ، فاضلہ اور صاحب کرامت خاتون تھیں کہ خود امام محمد باقر علیہ السلام کا بیان ہے کہ‘‘ ایک دن ہماری والدہ ایک دیوار کے سایہ میں تشریف فرما تھیں کہ اچانک دیوار گرنے لگی تو آپ نے دیوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: محمد مصطفیؐ کے حق کی قسم ! اللہ نے تجھے اجازت نہیں دی ہے کہ تو میرے اوپر گرے ۔ دیوار ہوا میں معلق ہو گئی اور آپ ؑ وہاں سے ہٹ گئیں ۔پھر میرے والدنے سو دینار صدقہ دیا۔ ’’ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی جدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت حسن ؑ کے سلسلہ میں فرمایا:‘‘ وہ صدیقہ تھیں اور آل حسنؑ میں کوئی خاتون آپ کے ہم رتبہ نہیں ہے۔ ’’
امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنی زندگی کے تین برس اپنے دادا امام حسین علیہ السلام کے زیر سایہ بسر کئے۔ آپ ؑ واقعہ کربلا میں اپنے والد امام سجادؑ کے ساتھ موجود تھے اور تمام مصائب و آلام برداشت کئے اور مقصد شہادت کو بچایا اور پھیلایا ۔ اسی طرح مدینہ واپسی پر بھی آپؑ ہر محاذ پر اپنے والد کے ہمراہ نظر آئے۔
امام محمد باقر علیہ السلام آسمان امامت کے نیر تاباں تھے۔ سورج کی خصوصیت ہے کہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو اندھیرا چھٹ جاتا ہے اور دنیا روشن و منور ہو جاتی ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے بھی سورج کی طرح جہالت اور اموی مکر و فریب کے اندھیرے میں جی رہی انسانیت کو بیدار کیا اور حقائق کو واضح کرتے ہوئے انسانیت کو انسانی اقدار سے روشناس کرایا۔ ظاہر ہے آپ باقر العلم ہیں جس کے معنیٰ ہیں علم کو پھیلانے والا۔ اس لقب سے آپ ؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یاد کیا ۔آپؑ نے علم نبوی کو پھیلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیثوں کو بیان کیا کہ جن سے امت کو محروم کر دیا گیا تھا ۔ مدرسہ قائم کیا جسمیں آپ ؑ اور آپؑ کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہزاروں علماء، فقہاء، مفسرین ، محدثین اور متکلمین کو تربیت دی کہ آج ہمارے پورے دین کا دارومدار چاہے عقائد ہوں یا احکام و اخلاق سب ‘‘قال الباقرؑ’’ ‘‘قال الصادقؑ’’ پر ہیں۔ نہ صرف شیعہ فقہ بلکہ عالم اسلام کی دیگر چار فقہیں بھی آپؑ ہی کے مرہون کرم ہیں۔ کیوں کہ ان فقہوں کے اماموں نے ڈاریکٹ یا ان اِنڈائریکٹ امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق ؑ سے کسب فیض کیا ہے بلکہ امام اعظم جناب ابو حنیفہ کا مشہور قول ہے ‘‘لولا السنتان لھلک النعمان’’ یعنی اگر دو سال وہ امام محمد باقر علیہ السلام کی شاگردی نہ کرتے تو ہلاک ہو جاتے۔
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی قائم کردہ درسگاہ میں جہاں عظیم عالم، مفسر، محدث، متکلم ، ماہر علم رجال پروان چڑھے اور آسمان علم پر ستاروں کی طرح چمکے کہ جنکے نور علم سے آج بھی ہماری حصول دین کی راہ روشن ہے وہیں جناب جابر بن حیان جیسے عظیم دانشور ، جغرافیہ نگار، ماہر طبیعیات، ماہر فلکیات اور ماہر علم نجوم بھی پروان چڑھے کہ جن کے علم سے آج بھی دانشور طبقہ فیضیاب ہو رہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے جلیل القدر صحابی جناب جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے فرمایا ‘‘ اے جابر! تم میرے بعد میری نسل کے ایک ایسے شخص کی زیارت کرو گے جسکا نام میرا نام یعنی محمد ہو گا ۔وہ شکل و صورت میں میری شبیہ ہو گا ، وہ لوگوں کے لئے علم کے دروازے کھولے گا تو تم اسے میرا سلام کہہ دینا۔ ’’ چنانچہ جناب جابر ؓ نے حکم رسول ؐ کے مطابق امام محمد باقرؑ کی خدمت میں آپؐ کا سلام پہنچایا۔
امام محمد باقر علیہ السلام معصوم امام اور ولی و حجت خدا تھے۔ اللہ نے تمام فضائل و کمالات آپ کو عطا کئے تھے لہذا آپ ہر لحاظ سے ہمارے لئے اسوہ حسنہ یعنی بہترین نمونہ عمل ہیں۔ لیکن آپ کی دو خصوصیت زیادہ مشہور ہے۔ ایک آپؑ کا دائم الذکر ہونا ۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :‘‘میرے والد کثرت سے ذکر خدا کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ کہیں جاتا تو یہی دیکھتا کہ وہ راہ چلتے ہوئے ذکر خدا کر رہے ہیں، کھانا کھاتے ہیں تو ذکر خدا کرتے ہیں ، لوگوں سے گفتگو ان کو ذکر خدا سے نہ روک پاتی۔ میں دیکھتا تھا کہ ان کی زبان پرمسلسل ‘‘لاالہ الا اللہ ’’جاری رہتا۔ وہ نماز صبح کے بعد ہم تمام بھائی بہنوں کو طلوع آفتاب تک اسی کا حکم دیتے ، جو تلاوت قرآن کر سکتا تھا وہ تلاوت کرے اور جو تلاوت نہیں کر سکتا وہ ذکر خدا کرے۔ ’’ دوسرے گذشتہ اور قیامت تک آئندہ کا علم ہے جیسا کہ خود آپؑ نے جناب جابر ؓ سے فرمایا: ‘‘خدا کی قسم ائے جابر! جو کچھ ماضی میں ہوا اور جو مستقبل میں قیامت تک ہو گا ۔ اللہ نے ہمیں سب کا علم عطا کیا ہے۔ ’’
بنی امیہ اور بنی عباس کی باہمی جنگ و خونریزی کے سبب دوسرے اماموں کے بنسبت امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ تھوڑا سکون کا تھا لیکن دوسری جانب عقل و علم، دین و مذہب مخالف نئے نئے فرقے اور نظریات بھی ایجاد ہو رہے تھے۔ امام محمد باقر ؑ اور امام جعفر صادق ؑ نے موقع کو غنیمت سمجھا اور علمی، عقلی، منطقی جوابات سے ان گمراہ کن عقائد اور نظریات کو باطل قرار دیا ۔
ہمیں امام محمد باقر علیہ السلام کی سیرت سے سبق لینا چاہئیے کہ ہم اللہ کی عبادت کریں ، قرآن کی تلاوت کریں، ہمارے زبان پر ذکر خدا رہے، ہمارے اعضاء و جوارح سے خدا کی اطاعت ہو۔ ہم وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور ہماری نظر مقصد پر ہو ۔