تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی | سلسلہ امامت کے پانچویں قمر اور سلسلہ عصمت و طہارت کے ساتویں آفتاب یعنی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام جن کی حیات طیبہ پر اگر غور و خوض کیا جائے تو آپ سن 57 ہجری میں اس دار دنیا میں تشریف لائے جبکہ یہ وہ پر آشوب دور تھا جب ظاہری حکومت پر انسانیت کا دشمن دین کا باغی شریعت کا مجرم محترم انسانوں کا قاتل اصحاب رسول کو تہ تیغ کرنے والا سفاک و ظالم سرزمین شام کو علی ع کے چاہنے والوں کے مقدس خون سے رنگین کرنے والا یہودیت اور مسیحیت کو فروغ دینے والا احکام اسلامی کو مجروح کرنے والا ایک شقی القلب اور بے رحم حاکم قابض تھا۔
آئین اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا تھا اور صاحبان علم و عمل کا جینا مشکل کر رکھا تھا اس دور پر خطر میں امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی تو ابھی زندگی کے سفر میں چوتھا برس شروع ہی ہوا تھا کہ سرزمین شام سے ایک آواز اٹھی؛
لعبت بنی ہاشم بالملک
ما جاء خبر ولا وحی نزل
جس آواز کا لب لباب یہ تھا کہ کوئی وحی نہیں ائی کوئی قرآن نہیں ایا یہ تو سب نعوذ باللہ اہل بیت علیہم السلام کا ڈھونگ تھا گویا وحی و قران کا انکار کیا جارہا تھا نبوت اور رسالت دین و شریعت کا انکار کیا جا رہا تھا ان حالات میں امام حسین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام نے اس اواز کے خلاف پرچم اسلام کو لہراتے ہوئے صدائے انقلاب بلند فرمائی اپنے بابا اور دادا کی حکمت عملی روانگی مدینہ سے کربلا تک سفر کی صعوبتیں برداشت کیں یہاں تک کہ تین دن کی بھوک و پیاس میں صحرائے کربلا میں لو کے تھپیڑے ریگزار کی دل دہلا دینے والی شدید گرمی اور جھلسا دینے والا گرم ترین موسم اعزاء و اقارب کا داغ مفارقت خون کی بارش تلواروں کی چمک گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھمک تیروں کا سیلاب خنجر و نشتر کا طوفان اور امام محمد باقر علیہ السلام کی کم سنی کا عالم باپ کی اسیری اور ماؤں اور بہنوں کا کشاں کشاں پھرایا جانا یہ سب وہ مناظر تھے کہ جن کو دیکھ کر برداشت کرتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لینا کوئی آسان کام نہیں تھا بلکہ آغوش امامت کے پروردہ امام کی زندگی کے وہ تلخ تجربات کی روشنی میں آنے والے زمانے میں اس شمع انقلاب کو حکومت کی مسموم آندھیوں سے بچانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا گھٹن کے اس ماحول میں ہم شہیدوں کے خون کی سرخی کو عالمینی و آفاقی بنانا تھا لہذا امام ع کی یہ وہ زندگی تھی جسے اس وقت کے حساب سے سیاسی بھی کہا جا سکتا ہے اور سماجی بھی سیاسی اس اعتبار سے کہ عالم اسلام کا سب سے بڑا سانحہ رونما ہوا اور سماجی اس اعتبار سے کہ آپ نے اس کمسنی میں بھی حقوق آل محمد ص کو مکمل طور پر نبھایا اور یہ سماجی حیات ہی کا ایک اثر تھا کہ آپ نے کمسنی کے تمام تر مشاہدات کو بروئے کار لا کر امت کو اس منزل پر پہنچا دیا کہ جہاں قوم علم کی تشنگی کو محسوس کر رہی تھی وہاں آپ کی ذات گرامی قدر چشمہ فیض علم تھی یا یوں کہوں کہ جس طرح چاہ زمزم تھا اسی طرح آپ کا دربار عالی وقار تھا جس پر مسند علم بچھی ہوئی تھی اور ایک بوریا نشین زمین سے آسمان تک پھیلے ہوئے علوم و فنون کی موشگافیاں کر رہا تھا اور جس مدرسے کی بنیاد گھر اور مسجد میں امام سجاد علیہ السلام نے رکھی تھی اسی کو امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنی حیات طیبہ میں اس قدر بام عروج پر پہنچایا کہ امام صادق علیہ السلام کے حلقہ درس میں چار ہزار طلاب بیک وقت نظر انے لگے اور یہ امام محمد باقر علیہ السلام کی وہ حکمت عملی تھی جس میں آپ نے علم کے چراغ اس لیے روشن کیے کہ قوموں کا عروج و زوال ان کے علم و دانشوری سے وابستہ ر ہے کسی بھی انقلاب کو سمجھنے کے لیے علم کی گہرائی اور گیرائی درکار ہوتی ہے لہذا کربلا کے عظیم سانحہ کے حقیقی نشیب و فراز کو رہتی دنیا تک پہنچانے اور اس واقعہ سے ضمیر انسانیت میں حریت کے دیپ جلانے اور غلامی کی زنجیروں سے بشریت کو ازاد کرانے کے لیے ہر فرد کے ہاتھوں میں شمع علم کا دینا ضروری تھا تاکہ اس کی روشنی کے سائے میں ہر انسان کربلا کی تصویر کو اس آئینہ علم میں دیکھ کر حقیقت کا ادراک کر لے چونکہ اگر جہالت کی تاریکی اور تعصب کی گرد و غبار ذہن آدمیت پر چھا جائے تو اسے حسین ترین تصویریں بھی دھندلی نظر آتی ہیں لہذا امام علیہ السلام نے فقہ و شریعت کی اہمیت و عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے قرآن و سنت وحی و الہام کے پر لطف معنی و مفاہیم سادہ اور آسان زبانوں میں لوگوں تک پہنچا کر آئین اسلام قوانین شریعت کو ہر ذہن میں اس طرح راسخ کر دیا کہ اب اگر کوئی شخص آج بھی وحی و الہام نزول قرآن نزول وحی آمد رسول اور ختم نبوت اور رسالت کا انکار کرے تو ایک با ضمیر مسلمان اس آواز کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھے گا یہ اور بات ہے کہ انسان اپنے حالات و واقعات اور اقتصادیات کو مقدم کرتے ہوئے ضمیر کی آواز کو دبا کر عدالت عظمی میں اپنے اپ کو مجرم ثابت کر دے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس قدر علم کی موشگافیاں کی کہ آپ کو باقر العلوم کہا گیا اپ نے سماجی اور سیاسی زندگی میں ہر آن ہر لحظہ ہر لمحہ اسلام کی بالادستی قوانین اسلام کی رفعت و عظمت کو اجاگر کیا اور یہی وجہ ہے کہ محمد ابن المکندر صوفی مسلک کا انسان تھا اس نے امام علیہ السلام کو ضعیفی میں دو اشخاص پر تکیہ کئے ہوئے باہر جاتے دیکھا تو طنز کیا کہ آپ بنی ہاشم کے شیوخ یعنی بزرگ بھی کسب دنیا کے لیے مرے جا رہے ہیں تو آپ نے فرمایا یہ کسب دنیا نہیں ہے اطاعت الہی ہے میں اس وقت مر بھی جاؤں تو یہ موت اطاعت الہی میں ہوگی۔ ( نقوش عصمت صفحہ 412 سے 417)
بظاہر واقعہ بہت مختصر ہے لیکن اس میں دروس و اسباق کا سمندر موجزن ہے پہلا مرحلہ مقابل کا طنزیہ لہجہ ہے جس کا جواب "انک لعلی خلق عظیم" کے مصداق کا فرزند ارجمند بڑی خندہ پیشانی سے دیتا ہوا نظر اتا ہے جبکہ عمر کا تقاضا اور ضعیفی کا عالم عام آدمی کو جھلاہٹ میں مبتلا کر دیتا ہے مگر آل محمد ص کا علم زمان و مکان اور عمر کی حدود و قیود میں محدود و مقید نہیں ہوتا بلکہ یہ تو وہ نور علم ہے جس سے اپنے تو اپنے غیر بھی کسب ضیاء کرتے نظر آتے ہیں اس مختصر سے واقعے میں امام نے فرمایا کسب دنیا نہیں بلکہ کسب معاش ہے گویا کسب دنیا اور ہے کسب معاش میں فرق ہے حالانکہ یہ نقطہ خود ایک سماجی اور اجتماعی حیات کی عکاسی کرتا ہے کہ امام نے اس فقرے کے ذریعے سے ایک تقسیم پیش فرمائی کہ کسب دنیا معیوب ہے جبکہ کسب معاش ایک عبادت ہے کسب دنیا سے غرور پیدا ہوتا ہے اور کسب معاش سے فرض سے سبکدوشی میسر ہوتی ہے کسب دنیا اہل دنیا کا وطیرہ ہے اور کسب معاش انبیاء اولیاء اوصیاء صلحاء کا طریقہ کار ہے کسب دنیا سے دولت کی کثرت حرص و لالچ ہوا و ہوس اقتدار اور مملکت کی بو اتی ہے جبکہ کسب معاش سے فقر و فاقہ احساس ذمہ داری وقت کی ضرورت اور حالات کے ناگفتہ بہ ہونے کا سامان فراہم ہوتا ہے کسب دنیا میں حقوق کی پائمالی ظلم و زیادتی کا پہلو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے جبکہ کسب معاش یتیم پروری، فقیروں کا سہارا، غریبوں کا آسرا بے نواؤں کے خیال سے عبارت ہے کسب دنیا سے عیش و عشرت ارام طلبی حصول جاہ ومنصب تلاش خزانہ و خزینہ کا تصور قائم ہوتا ہے لیکن کسب معاش سے اقتصادی ترقی قوت لایموت اور مکمل فروتنی و انکساری کے ساتھ حصول رزق کا تصور ہوتا ہے پھر امام علیہ السلام نے کسب معاش کو اطاعت الہی کہا ہے جس کے معنی یہ ہے کہ کسب معاش درحقیقت حکم الہی پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے اور اس عالم میں موت کا آنا بھی شہادت ہے اور حیات کا اطاعت میں گزر جانا ہے جبکہ حصول دنیا میں موت کی آمد ہلاکت کی علامت ہے اور بعض روایات کی روشنی میں کسب معاش میں داعی اجل کو لبیک کہنا شہادت کی نشانی ہے لہذا امام علیہ السلام نے اپنی زندگی کے اس آخری مرحلے میں بھی خود کسب معاش کے فریضے کو انجام دے کر امت مسلمہ سے کاہلی سستی اور کام نہ کرنے کی فرسودہ رسم کو ختم کرتے ہوئے اس امر عظیم کو اطاعت خداوندی قرار دے کر ایک اور راہ عبادت متعین فرمائی تاکہ انے والی نسلیں کسب دنیا کے بجائے کسب معاش کی جانب بھرپور توجہ فرمائیں درحقیقت یہ حیات طیبہ کا وہ سنہرا سفر ہے کہ جسے بیک وقت سیاسی بمعنی حکمت اور سماجی با اعتبار اجتماعی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اپ کی زندگی ولادت سے لے کر شہادت تک جن سلاطین اور حکمرانوں کے زمانے میں گزری ہے وہ ایک بھیانک دور تھا جس میں ظلم و ستم، دہشت ہو وحشت، جبر و استبداد حیوانیت و سفاکیت اپنے عروج پر تھی جس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت معاویہ ابن ابی سفیان لعین کا دور حکومت تھا جو سن 60 ہجری میں معاویہ کے مرنے کے بعد ختم ہوا اور اس کے بیٹے یزید لعین کا دور شروع ہوا معاویہ کے سلسلے میں رئیس الواعظین مولانا کرار حسین مرحوم طاب ثراہ کا ایک جملہ بہت معنی خیز تھا کہ "معاویہ یزید کا بھی باپ تھا" سن 64 ہجری میں یزید واصل جہنم ہوا تو 65 ہجری میں اس کا فرزند معاویہ ابن یزید اور مروان نے حکومت کی اور اس کے بعد 65 سے 86 ہجری تک عبدالملک ابن مروان کا دور حکومت رہا سن 86 میں عبدالملک کا خاتمہ ہوا تو 96 تک 10 سال ولید ابن عبدالملک نے حکومت کی ولید کے بعد 96 سے 97 تک سلیمان ابن عبدالملک حاکم رہا 97 میں عمر ابن عبدالعزیز کی حکومت قائم ہوئی لیکن قوم اس کے مختصر منصفانہ روش کو برداشت نہ کر سکی اور یہ سلسلہ جلد ہی ختم ہو گیا جس کے بعد سو 100 ہجری میں یزید ابن عبدالملک حاکم بنا اور پھر 105 ہجری میں ہشام ابن عبدالملک کی حکومت قائم ہوئی جس کا سلسلہ امام علیہ السلام کی آخری حیات تک جاری رہا اور اسی نے آپ کو 114ہجری میں زہر دغا سے شہید کرایا جبکہ خود ہشام 123 ہجری میں واصل جہنم ہوا اگر غور کیا جائے تو امام علیہ السلام نے ایسے ظالموں کے درمیان اپنی زندگی گزاری جو کہ نہایت پر خطر تھی اور ایسے حالات میں حکمت و سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی اور اجتماعی حیات کا مکمل طور پر گزارنا ہمارے لئے سیرت ہے کہ حالات جیسے بھی گزریں حکومت کی سازشیں اور سوزشیں ریشہ دوانیاں کچھ بھی ہوں اسلام کی بالادستی اور قوانین اسلام کو اپنے اخلاق و کردار سے بلند کرتے رہنا چائیے یہاں تک کہ اگر ظالم و جابر حکومت کو بھی امام کی ضرورت محسوس ہو اور عزت اسلام خطرے میں ہو تو کس طرح اسلام کی مدد کی جاتی ہے ذرا کوئی آل محمد ص سے دریافت کرے نمونے کے طور پر یہ ٧٥ ہجری کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں جو اسلامی تاریخ سے محو نہیں کیا جا سکتا سن 75 ہجری تک مسلمانوں میں رومی سکے رائج تھے اور عیسائی افراد ان سکوں کے ذریعے اپنے عقائد کی ترویج کر رہے تھے عبدالملک نے اپنے دور حکومت میں ان سکوں کو ترک کر کے ان پر کلمہ *لا الہ الا اللہ* لکھنے کا حکم دیا اس کی اطلاع قیصر روم کو ملی تو اس نے روک دیا اور اس سلسلے میں رشوت بھی دینا چاہی لیکن حکومت نے قبول نہیں کی جس کے بعد اس نے دھمکی دی کہ اگر میرے سکوں کی شکل بگاڑ کر اس پر کلمہ لکھ دیا گیا تو میں اسلام اور رسول اسلام کے بارے میں نعوذ باللہ گالیاں لکھوا کر سکے رائج کر دوں گا جسے سن کر عبدالملک کے ہوش و حواس اڑ گئے اور اس نے بعض مشیروں کے کہنے کی بنیاد پر امام محمد باقر علیہ السلام کی جانب رجوع کیا تو آپ نے فرمایا کہ سفیر روم کو روک لیا جائے اور اتنے سکے اس انداز کے ڈھالے جائیں جس کے سایز اس انداز کے ہوں اور وزن اس قدر ہو وغیرہ وغیرہ سب معین فرمایا اور ان سکوں کے ایک طرف کلمہ توحید لا الہ الا اللہ اور دوسری طرف کلمہ رسالت محمد الرسول اللہ اور سن ایجاد بھی لکھ دیا جائے اور انہیں فورا رائج کر دیا جائے اور رومی سکوں کو لغو قرار دے دیا جائے چنانچہ عبدالملک نے ایسا ہی کیا اور یہ سارا کام مکمل ہو جانے کے بعد سفیر روم کو آزاد کیا گیا اور قیصر روم کو اطلاع کر دی گئی کہ اب حکومت اسلامی میں رومی سکے لغو ہو چکے ہیں اور نئے سکے رائج ہو چکے ہیں لہذا اسلام کو کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں رہ گیا اور یہ سارا کام امام کے مشورے کے مطابق انجام دیا گیا قیصر روم اس خبر کو سن کر دنگ رہ گیا اور اسے اندازہ ہو گیا کہ خانوادہ رسالت کے علاوہ کوئی اس الہی سیاست کا وارث نہیں ہو سکتا اگرچہ اس واقعہ میں بہت سے پہلو ہیں جن پر ایک تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے مگر موضوع کا اختصار ملحوظ نظر ہے لہذا صرف نتیجے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنے مشورے سے حکومت وقت کو ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی ہر اسلامی حکومت کو اس جانب متوجہ فرمایا کہ اگر اقتصادی نظام اسلامی قوانین اور حکومت اسلامی کے ہاتھوں میں رہے گا تو بڑے سے بڑا دشمن بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
اج امت مسلمہ کا شیرازہ اتحاد اس طرح بکھر گیا کہ پوری دنیا میں ڈالر پاؤنڈ یورو اور دیگر کرنسیوں کا بول بالا ہے جبکہ اسلام کے نام پر حکومت کرنے والی نام نہاد حکومتیں مسیحیت اور یہودیت کے تلوے چاٹ رہی ہیں اور اسلام کی بجائے اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کے لیے سفاکیت کے دیوتاؤں کے قدموں میں مالائیں چڑھا رہی ہیں اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کیا جا رہا ہے کیونکہ امام نے جو مشورہ دیا تھا کہ کلمہ توحید اور کلمہ رسالت کو سکوں پر لکھ کر پوری دنیا میں رائج کر دو اس کو پس پشت ڈال دیا گیا اگر آج بھی امت بام عروج اور اقتصادی ترقی کی راہوں پر گامزن ہونا چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ امام علیہ السلام کے سیاسی اور سماجی خدمات سے مکمل استفادہ کیا جائے۔
آپ کا تبصرہ