جمعرات 2 جنوری 2025 - 15:40
سید مقاومت؛ مطیع رہبر

حوزہ/دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو اور حسینی فکر و کردار رکھنے والا انسان خاموش بیٹھا رہے؟ ایسا کبھی ممکن نہیں۔ مسئلہ فلسطین، جو امتِ مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے، اس پر شیعانِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام کا مؤقف ہمیشہ واضح رہا ہے: فلسطین صرف فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل جیسی غاصب ریاست کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

تحریر: عنیزہ مجلسی کراچی

حوزہ نیوز ایجنسی | دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو اور حسینی فکر و کردار رکھنے والا انسان خاموش بیٹھا رہے؟ ایسا کبھی ممکن نہیں۔ مسئلہ فلسطین، جو امتِ مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے، اس پر شیعانِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام کا مؤقف ہمیشہ واضح رہا ہے: فلسطین صرف فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل جیسی غاصب ریاست کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

غاصب اسرائیل کے ناپاک وجود کے قیام سے آج تک، علی علیہ السلام کے پیروکار ہر محاذ پر فلسطینی مظلوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، نہ صرف ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے بلکہ اپنی جان، مال، اور اولاد تک قربان کر چکے ہیں۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے اُس فرمان کا عملی مصداق ہیں: "مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔"

جہاں بڑی بڑی طاقتیں اور عالمی رہنما سپر پاورز کے سامنے جھک گئے، اپنا ضمیر اور ایمان بیچ دیا، وہیں علی علیہ السلام کا بیٹا، "خامنہ ای" اور ان کے اطاعت گزار "سید مقاومت" دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے۔ وہ اپنی محدود وسائل کے باوجود ہر محاذ پر دشمن کو شکست دینے میں کامیاب رہے اور ایمان و استقامت کی طاقت نے دشمن کو ہر محاذ پر پچھاڑ دیا۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ کا باضابطہ آغاز کیا اور یہ تحریک ایک سال مکمل کر چکی ہے۔ باوجود اس کے کہ اسرائیل کو سپر پاورز کی پشت پناہی حاصل ہے، فلسطینی آج بھی ناقابلِ تسخیر ہیں۔ وہ فلسطینی، جو کبھی پتھروں سے اپنا دفاع کرتے تھے، آج جدید ترین اسلحے سے لیس ہو چکے ہیں، اور وہ ایک ایسی قوت میں تبدیل ہو گئے ہیں جسے اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی بھرپور امداد کے باوجود شکست دینے میں ناکام رہا ہے۔ اس جماعت کے ہر مشکل وقت میں حزب اللہ ہمیشہ ایک مضبوط ڈھال بنی رہی ہے۔ حزب اللہ نے بھی اس جنگ میں اپنے کئی بہادر جوان قربان کیے، اپنے عظیم کمانڈرز کی شہادت کے زخم برداشت کیے، مگر اس کے باوجود حزب اللہ کا عزم اور طاقت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ شہدائے دفاعِ بیت المقدس کے خونِ ناحق کا ایک دن نتیجہ یہ ہو گا کہ اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

سرزمینِ لبنان و فلسطین پر بہنے والا یہ مقدس خون، بیت المقدس کی آزادی کا پیش خیمہ ہے۔ یہی خون وہ نسلیں تیار کرے گا جو ہمیشہ کے لیے جہاد کا عَلَم بلند رکھیں گی۔ شہادت کا سفر کبھی ختم نہیں ہو گا، بلکہ ہر شہادت، ایک نئے انقلاب کی راہ ہموار کرے گی۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا، اور مسلمانوں کو تاکید کی کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "یوم القدس" کے نام سے منایا جائے تاکہ دنیا کو ظالم اور مظلوم کا فرق معلوم ہو سکے۔ امام خمینی کے اس فرمان پر آج بھی عمل جاری و ساری ہے۔ ان کے بعد رہبر معظم نے عالمی سطح پر اس مسئلے کی اہمیت کو بار بار اجاگر کیا اور اپنی تقاریر کے ذریعے فلسطینیوں کے حقوق اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنی مضبوط اور دو ٹوک پوزیشن پیش کی۔

رہبرِ انقلاب کے حقیقی اطاعت گزار، چاہے وہ سوشل میڈیا کے محاذ پر ہوں یا میدانِ جنگ میں، ہر جگہ اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ کچھ اپنے قلم کی طاقت سے اسرائیل کے جرائم کو دنیا کے سامنے لاتے ہیں، تو کچھ اپنی جان کی پروا کیے بغیر دشمن کے خلاف محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ سید مقاومت ان جوانوں کا بہترین نمونہ ہیں۔ وہ اس بات کے منتظر نہیں رہے کہ رہبر واضح طور پر جہاد کا حکم دیں، بلکہ سید حسن نصر اللہ ہمیشہ رہبر کی ہر بات، ہر حکم اور ہر اشارے کو سمجھتے اور اسی کے مطابق عمل کرتے۔

سید مقاومت نے آیت اللہ مصباح یزدی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے بیان کیا: "ہم ولایت کو ایک مختلف انداز میں سمجھتے ہیں، ایک ایسا انداز جو زیادہ سعادت بخش ہے۔ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جب ولی امر کوئی حکم دیں تو ہم فوراً اس پر عمل کرتے ہیں؛ ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ رہبر ہمیں بار بار حکم دیں۔ ہم ان کی فکری شناخت اور ان کے اصولوں کو سمجھ کر ان کی خوشی اور ناراضگی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اگر ہمیں یہ احتمال بھی ہو کہ کوئی عمل رہبر کی خوشی کا باعث بن سکتا ہے، تو ہم اسے فوراً انجام دیتے ہیں، اور اگر کوئی عمل رہبر کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے تو ہم اسے ترک کر دیتے ہیں۔"

آیت اللہ مصباح یزدی رحمت اللہ علیہ نے جواب دیا: "یہی حقیقی ولایت ہے۔" سید مقاومت نے اس قول پر عمل کر کے حقیقی اطاعت کا بہترین نمونہ پیش کیا۔

سید مقاومت کی شہادت پر رہبر معظم نے فرمایا:"سید مقاومت کوئی فرد نہیں تھے، بلکہ وہ ایک مشن، ایک مکتب تھے اور یہ مکتب ہمیشہ زندہ رہے گا۔"

سید مقاومت کی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ اطاعتِ رہبر میں ہی عزت اور کامیابی ہے۔ ان کی شہادت، ایک مقدس مقصد کی خاطر دی گئی قربانی تھی اور ان کا خون، فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کی جانب اٹھنے والے ہر قدم کا نشان ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha