جمعرات 2 جنوری 2025 - 16:47
امام محمد باقرؑ کا علمی مقام اور اہل سنت کے اعترافات

حوزہ/ امام محمد باقرؑ نے اپنے دورِ امامت میں دوبارہ سے دینِ محمدیؐ کو وسعت دی، اکابرین اہل سنت آپؑ کی علمی اور دینی عظمت و شہرت کے معترف ہیں۔ فقہ، توحید، سنت نبوی، قرآن، اخلاق اور دیگر موضوعات پر آپ سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ 

تحریر: علی اصغر

حوزہ نیوز ایجنسی | رسولِ کریمؐ کی ظاہری زندگی کے آخری ایام تھے، آقاؐ مسجد نبویؐ میں اپنے محبوب یعنی حسینؑ ابن علیؑ کو گود میں لے کر بیٹھے تھے کہ محترم و مکرم صحابیِ رسول جابر بن عبداللہ انصاریؓ تشریف لائے، رسول اللہ ؐ کو سلام عرض کیا آقاؐ نے بھی اپنے صحابیؓ پہ سلامتی بھیجی اور فرمایا اے جابرؓ یہ میرا بیٹا حسینؑ ہے، اس کی نسل سے ایک بچہ پیدا ہوگا جس کا نام بھی محمدؑ ہوگا، تم اس کے زمانے میں حیات ہوگے، جب اس سے ملاقات ہو تو میرے بیٹے تک میرا سلام پہنچانا۔

رسولِ اکرمؐ کے چھیالیس سال بعد امام حسینؑ کے بیٹے علی بن حسینؑ کے گھر خدا نے وہ فرزند عطاء کیا جس کا نام خود آقائے دوجہاںؐ اپنی حیاتِ طیبہ میں منتخب کرگئے تھے،امام باقرؑ پہلے ہاشمی ہیں جنہوں نے ہاشمی، علوی اور فاطمی ماں باپ سے جنم لیا۔ یا یوں کہئے یا پہلے علوی اور فاطمی ہیں جن کے والدین دونوں علوی اور فاطمی ہیں۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ جب آپ بطن مادر میں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھر میں آواز غیب آنے لگی اور جب نو ماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اور شب ولادت ایک نور ساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کر آسمان کی طرف رخ فرمایا، اور (آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے، ایک پورا دن دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اور صاف متولد ہوئے۔

وقت گزرتا رہا امام حسینؑ اور اپنے بابا علی بن حسینؑ کے ساتھ محمدِ باقرؑ مدینہ سے کربلا آئے، راہِ خدا میں اپنا کنبہ قربان ہوتے دیکھا، اور انتہائی کم سنی میں مصائب برداشت کئیے حتیٰ کہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

اُدھر عاشقِ رسولؐ جابربن عبداللہ انصاری بزرگ ہوکر نابینا بھی ہوچکے تھے، ہر وقت زبان پر محمد باقرؑ کا نام رہتا تھا لوگ کہتے تھے جابرؓ ضعیفی کے باعث دماغی توازن کھو بیٹھا ہے مگر قولِ رسولؐ پہ جابرؓ کو اتنا یقین تھا کہ ہر محفل اور ہرگلی میں محمد باقرؑ کو ڈھونڈتے پھرتے تھے، ایک دن امام علی بن حسینؑ اپنے فرزند محمد باقرؑ کو لے کر ایک محفل میں پہنچے تو بزرگ صحابیؓ کو دیکھا تو خود بھی جابر کے سر پہ بوسہ دیا اور اپنے فرزند محمد باقر کو بھی حکم دیا، جابرؓ نے عرض کی فرزندِ رسولؑ آپ کے بیٹے کا نام کیا ہے امام نے فرمایا اس کا نام محمدِ باقرؑ ہے، بس پھر کیا تھا جابرؓ دیوانہ وار محمد باقرؑ کے ہاتھ چومنے لگے اور پاوں پہ بوسہ کے لئے جھکنے لگے تھے کہ امام نے روک دیا۔

جابر بن عبداللہ انصاریؓ نے کہا اے فرزندِ رسولؐ آپ پہ آپ کے ناناؐ کا سلام ہو، محمد باقرؑ نے جواباً کہا اے میرے نانا کے صحابی میرے نانا مصطفیٰؐ اور آپ پہ بھی محمد باقرؑ کا سلام ہو۔ رسولِ اعظمؐ کا پیغام پہنچانے کے بعد چند ہی دن جابر زندہ رہے۔

محمد باقرؑ اہل تشیع کے پانچویں امام ہیں، آپ کو باقر اس لئے کہا جاتا ہے کیوں کہ باقرکا ایک معنی وسعت دینے والا بھی ہے، چونکہ بعد از رسول اللہؐ مسلمانوں میں کافی اختلافات ہوگئے تھے اور امام علیؑ سے امام علی بن حسینؑ تک بہت مشکل حالات گزرے اور اصل دینِ مصطفیٰؐ و تعلیماتِ آلِ مصطفیٰؐ بکھر چکیں تھیں اور احکاماتِ اسلام بھی پسِ پردہ چلے گئے تھے تو امام محمد باقرؑ نے اپنے دورِ امامت میں دوبارہ سے دینِ محمدیؐ کو وسعت دی، اکابرین اہل سنت آپؑ کی علمی اور دینی عظمت و شہرت کے معترف ہیں۔ فقہ، توحید، سنت نبوی، قرآن، اخلاق اور دیگر موضوعات پر آپ سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔

114 ہجری میں اموی حکمرانوں کے درمیان حکومت کی رسہ کشی جاری رہی جس کی وجہ سے ان کی حکومتوں کی بنیادیں کمزور پڑ گئیں، اہل بیتؑ رسولؐ سے حکومت کی نگرانی کم اور سختی ذرا نرم ہوئی تو اس دور کے امام محمد باقر بن علی بن حسین ابن علی کو حقیقی مذہبِ اہل بیتؑ کی ترویج کا موقع مل گیا، اس دور میں اہل سنت علماء میں سے شہاب زہری، ہشام بن عروہ اور مکحول احادیث کی ترویج کا کام کرتے اور فتاوے بھی دیا کرتے تھے اسی دور میں خوارج، کیسانیہ اور غالین بھی اپنے اپنے عقائد پر بھر پور کام کرنے لگے، امام باقرؑ اپنے دور میں ہاشمیوں میں سب سے زیادہ علم و زہد کے مرتبہ پر فائز تھے، آپ کے علم کی دھوم نہ صرف حجاز میں بلکہ عراق اور فارس تک مچی ہوئی تھی، عراقی اور فارسی لوگ آپ سے علم الحدیث کے لئے رجوع کرتے تھے، علم دین، سنت، علوم قرآن سیرت اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہيں ہوئی ہیں۔

امامؑ نے اپنے دور میں تفسیرِ قرآن پر بہت زیادہ کام کیا، آپ کے مطابق قرآن کی حقیقی معرفت اور معانی جتنا اہل بیتؑ سمجھتے تھے اتنا اور کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا، آپؑ نے احادیثِ رسولؐ کی بھی خوب ترویج کی حتیٰ کہ جابر بن یزید جعفی نے آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ستر ہزار احادیث نقل کی ہیں، آپ نے صرف احادیث کو نقل کرنے پہ ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے شاگردان کو حدیث کو جانچنے اور پرکھنے کی تعلیم بھی دی۔ آپ نے علم الکلام پر بھی بھرپور توجہ دی اور فقہ اہل بیتؑ اور آلِ رسولؐ پر ہونے والے اعتراضات کے بھی جوابات دئیے ، آپ نے بہت سے مشہور لوگوں سے مناظرے کئیے اور علمِ رسولؐ کے حقیقی وارث ہونے کا حق ادا کیا۔

امام محمد باقرؑ کے بعد ان کے فرزند امام جعفر صادقؑ نے مذہبِ اہل بیتؑ یعنی حقیقی دین اسلام کی بھرپور ترویج کی اور امام جعفر صادقؑ کے فقہ کے مقلدین جعفری کہلواتے ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha