امام محمد باقرؑ کو ’’باقر العلوم‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟

حوزہ/ حجت‌الاسلام ایوب اشتری نے کہا: امام محمد باقر علیہ السلام، اہل سنت کے کئی مشہور فقہی اور حدیثی اماموں کا مرجع اور علمی پناہ گاہ تھے۔ ان میں سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ (جو محدث مکہ کے نام سے معروف ہیں) اور امام ابو حنیفہ جیسے عراق کے بزرگ فقہا شامل ہیں، جنہوں نے امامؑ سے خوب علمی استفادہ کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام محمد باقر علیہ السلام امام سجادؑ کے بعد شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ ان کا سب سے مشہور لقب "باقر" ہے، جس کا مطلب ہے: "علم کو چیرنے والا یا گہرائی میں لے جانے والا"۔ یہ لقب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؑ کی ولادت سے پہلے ہی حدیث لوح میں دیا تھا۔

آپؑ نے تقریباً انیس سال امامت کی اور ۷ ذی‌الحجہ ۱۱۴ ہجری قمری میں ۵۷ سال کی عمر میں شہادت پائی۔ بعض روایات کے مطابق، آپؑ کو ہشام بن عبدالملک یا ابراہیم بن ولید نے شہید کروایا۔

تاریخی منابع کے مطابق، امام محمد باقرؑ واقعۂ کربلا کے وقت کمسن تھے اور اس واقعے میں موجود تھے۔

شہادت کی مناسبت سے حجت الاسلام ایوب اشتری (ممتاز حوزوی اسکالر اور محقق) سے گفتگو کی گئی۔

امام محمد باقرؑ کی ولادت، نسب اور خاندانی پس منظر:

امام محمد باقرؑ کی ولادت یکم رجب ۵۷ ہجری قمری کو مدینہ میں ہوئی۔ ان کا نام "محمد"، کنیت "ابوجعفر" اور لقب "باقر العلوم" یعنی "علم کا شکاف دینے والا" ہے۔

آپؑ کی زندگی کے ابتدائی تین سال معاویہ کے دور میں، چار سال یزید بن معاویہ اور اس کے بیٹے کے دور میں اور باقی زندگی عبدالملک بن مروان کے دور میں گزری۔

سن ۹۶ ہجری میں امام سجادؑ کی شہادت کے بعد، امام محمد باقرؑ نے امامت سنبھالی۔ ۱۱۴ ہجری میں عبدالملک بن مروان یا اس کے بیٹے ولید کے ذریعے زہر دیے جانے سے آپؑ شہید ہوئے۔ آپؑ کو مدینہ کے قبرستان بقیع میں اپنے والد اور چچا کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

آپؑ کے والد امام زین العابدینؑ، امام حسینؑ کے فرزند تھے اور والدہ فاطمہ ام عبداللہ امام حسنؑ کی بیٹی تھیں۔ اس لیے امام باقرؑ ماں اور باپ دونوں طرف سے امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ اور رسول اللہؐ کی نسل سے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں ابن الخیرتین (دو نیکیوں کا بیٹا) اور علوی بن علوی (علوی نسل کے ماں باپ کا بیٹا) کہا جاتا ہے۔

آپؑ کی زوجہ کا نام ام فروہ تھا، جو نہایت نیک اور بافضیلت خاتون تھیں۔ وہ قاسم بن محمد بن ابی‌بکر کی بیٹی اور امام جعفر صادقؑ کی والدہ تھیں۔

امام محمد باقرؑ کی فضیلت اور عظمت:

جیسا کہ ذکر کیا گیا، لقب باقر العلوم خاص طور پر امام محمد باقرؑ کے لیے ہے۔ آپؑ کے دور میں، اسلام کے ابتدائی ایک صدی کے بعد ایک خاص علمی فضا بن چکی تھی، جس میں امامؑ نے اپنا خاص کردار ادا کیا۔

رسول اکرمؐ نے جابر بن عبد الله انصاری سے فرمایا تھا: ’’تم میرے خاندان کے ایک فرد کو دیکھو گے، جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا، اس کے افعال و کردار میرے جیسے ہوں گے، اور وہ علم کو اس طرح چیرے گا جیسے زمین کو شگافتہ کیا جاتا ہے۔‘‘ (بحارالانوار، جلد ۴۶، ص ۲۹۴)

یہی وہ مشہور حدیث ہے جس میں رسولؐ نے امامؑ کو ان کے لقب سے پہلے ہی نوازا۔

یہ عظمت صرف شیعوں کے ہاں نہیں، بلکہ اہل سنت کے نزدیک بھی امام باقرؑ کا مقام بلند ہے۔ مثال کے طور پر:

امام ذہبی (جو اہل سنت کے مشہور علما میں سے ہیں اور شیعوں کے سخت ناقد بھی مانے جاتے ہیں) امام باقرؑ کے بارے میں کہتے ہیں:’’وہ سردار، امام، فقیہ اور خلافت کے اہل تھے۔‘‘(سیر اعلام النبلاء، جلد ۴، ص ۴۰۲)

ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں:’’وہ ان شخصیات میں سے تھے جنہوں نے علم، عمل اور بزرگی کو یکجا کیا، اور خلافت کے مستحق تھے۔‘‘

فخر رازی (اہل سنت کے ایک اور مشہور مفسر) سورہ کوثر کی تفسیر میں کہتے ہیں: ’’کوثر سے مراد فاطمہؑ ہیں، کیونکہ ان کی نسل سے با برکت اولاد دنیا میں باقی رہی، جبکہ بنی‌امیہ کا نام و نشان ختم ہو گیا۔‘‘

اور وہ شخصیات جنہیں فاطمہؑ کی نسل سے شمار کرتے ہیں، ان میں باقر، صادق، کاظم اور رضا علیہم السلام کا خاص ذکر کرتے ہیں۔ (تفسیر رازی، جلد ۳۲، ص ۱۲۴)

عبدالله بن عطاء کہتے ہیں: ’’میں نے کسی بھی عالم کو ابوجعفر (امام باقرؑ) کے سامنے علمی لحاظ سے کم تر اور ناتواں دیکھا۔‘‘ (تذکرة خواص الأمة، صفحہ ۳۳۷)

اس قسم کے کئی اور اقوال اور تاریخی حوالہ جات امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی، دینی اور شخصی عظمت کو بیان کرتے ہیں، جنہیں یہاں مختصر طور پر ذکر کیا گیا۔

امام محمد باقرؑ کے دور کے سیاسی حالات اور ان کے علمی اقدامات:

امام محمد باقر علیہ‌السلام کا دور امامت اس زمانے میں تھا جب بنو امیہ کے خلیفہ اور ان کے حکام، خاص طور پر عراق میں، شیعوں پر سخت ظلم و ستم کرتے تھے۔ امامؑ اپنے پیروکاروں کو صبر و تحمل کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپؑ کا ایک مشہور فرمان ہے: "جو کوئی ہمارے شیعوں میں سے کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور صبر کرے، اللہ اس کے لیے ہزار شہیدوں کا اجر لکھتا ہے۔"

یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شیعوں پر اس وقت شدید دباؤ تھا اور امامؑ ان حالات میں انہیں استقامت اور برداشت کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ اس ظلم و ستم کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اہل بیتؑ خلافت اور امامت کا اصل حق اپنے پاس رکھتے تھے۔

ان ہی سخت حالات میں امام محمد باقرؑ نے بہت ہوشیاری اور بصیرت کے ساتھ یہ موقع غنیمت جانا کہ وہ حکومت کے شور و شر سے بچتے ہوئے، اصل اسلام یعنی خالص محمدی تعلیمات کو عام کریں۔ آپؑ نے ایک عظیم علمی اور فکری تحریک کی بنیاد رکھی۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپؑ نے ایسے اصحاب، تابعین، اور علمائے امت کو اپنے گرد اکٹھا کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے صحابہ یا ان کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپؑ نے ان لوگوں کو دین اسلام کی خالص اور اصلی تعلیمات سے بہرہ‌مند کیا۔

یہ علمی تحریک دراصل امام جعفر صادقؑ کے دور کی عظیم علمی تحریک کا پیش خیمہ تھی۔ بعد میں امام جعفر صادقؑ نے اس علمی بنیاد کو آگے بڑھایا اور چار ہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی۔ یہ علمی تحریک نہ صرف تشیع کی سربلندی کا باعث بنی بلکہ کلام، فقہ، معرفت اور دیگر اسلامی علوم میں شیعہ مکتب کو برتری عطا کی۔ آج ہمیں "شیعہ جعفری" کہا جاتا ہے تو درحقیقت اس عظیم علمی ورثے کی وجہ سے جس کی بنیاد امام محمد باقرؑ نے رکھی۔

امام محمد باقرؑ کی علمی شخصیت اور ان کی علمی خدمات:

امام محمد باقر علیہ‌السلام علم و دانش میں بلند مقام رکھتے تھے اور آپؑ نے ایک عظیم علمی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس علمی مقام کو اہل سنت کے مشہور عالم محمد ابو زہرہ نے بھی اپنی کتاب "الامام الصادق" میں تسلیم کیا۔ وہ لکھتے ہیں: "امام محمد باقرؑ علم امامت کے وارث اور ہدایت کی بلندیوں پر فائز تھے، اسی لیے وہ تمام اسلامی ملکوں کے علما کا مرکز بنے۔ کوئی مدینہ نہیں جاتا تھا مگر یہ کہ امامؑ کے گھر جاتا، ان سے علم حاصل کرتا اور ان کے دروازے پر رکتا۔"

ابو زہرہ مزید لکھتے ہیں: "ائمہ فقہ و حدیث میں سے بہت سے لوگ امامؑ سے علم حاصل کرتے تھے، جن میں سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ (محدث مکہ)، اور ابو حنیفہ (فقیہ عراق اور اہل سنت کے چار اماموں میں سے ایک) شامل تھے۔"

امام محمد باقرؑ کی شہادت:

شہادت سے پہلے، امام محمد باقرؑ نے اپنے فرزند امام جعفر صادقؑ کو وصیت فرمائی کہ وہ منیٰ میں ان کے لیے دس سال تک عزاداری کروائیں۔ اس کے لیے آپؑ نے نوحہ خوانوں کی اجرت اور دیگر اخراجات کے لیے مخصوص مال بھی وصیت فرمایا۔ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:"میرے والد نے فرمایا: اے جعفر! میرے مال میں سے اتنی رقم مخصوص کرو تاکہ حج کے ایام میں منیٰ میں نوحہ خوان دس سال تک میرے لیے نوحہ کریں۔" (بحوالہ: اصول کافی، جلد ۵، صفحہ ۱۱۷، حدیث ۱)

امامؑ کی اس وصیت کا مقصد صرف غم منانا نہ تھا بلکہ اس عزاداری کے ذریعے اہل بیتؑ کا تعارف، ان کی تعلیمات کی ترویج اور لوگوں کی ہدایت مدنظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی ائمہؑ کی ولادت اور شہادت کے ایام میں مجالس، وعظ، اور عزاداری کے ذریعے ان کے مشن کو زندہ رکھتے ہیں۔

آخرکار، ان تمام مشکلات اور سانحات، خصوصاً واقعۂ کربلا کے مشاہدے کے بعد، امام محمد باقرؑ سن ۱۱۴ ہجری (اور بعض روایات کے مطابق ۱۱۷ ہجری) میں ابراہیم بن ولید بن عبدالملک (جو کہ اموی خلیفہ ہشام کا بھتیجا تھا) کے ہاتھوں زہر دے کر شہید کر دیے گئے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha