۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
امام محمد باقر

حوزہ/ امام باقر علیہ السلام کے دور امامت میں شیعہ زیادہ آسائش وسکون میں تھے۔ اس کی بنیادی وجہ بنو امیہ کی حکومت کے زوال کے آخری ایام تھے اور آنحضرتؑ نے اپنے آباء واجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے احادیث کو نشر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

تحریر : حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر محمد اعجاز نگری

پیشکش : شعبہ تعلیم و تربیت متحدہ علماء فورم گلگت بلتستان

تمہید

حوزہ نیوز ایجنسی محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالبؑ،  شیعوں کے پانچویں امام ہیں جو امام باقرؑ کے نام سے معروف اور باقر العلوم کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔  امامؑ کا عہد امامت، اموی خلفاء کا ہمزمان تھا اور اس زمانے میں تشیُّع کے فروغ کے لئے مناسب تاریخی، سیاسی اور اجتماعی حالات کو دیکھتے ہوئے آپؑ نے عظیم علمی جد وجہد کا آغاز کیا جو آپؑ کے فرزند ارجمند امام جعفر ؑ کے زمانے میں اپنے عروج تک پہنچ گیا۔ اس دور میں علمی جدوجهد کی کامیابی کی بنیادی وجه  آنحضرتؑ کی ذاتی کوششیں اور خلیفہ وقت کی جانب سے حدیث کی کتابت سے پابندی هٹانا  شامل هے۔ علماء اہل سنت بھی آپؑ کی علمی اور دینی عظمت و شہرت کے معترف ہیں۔

امام محمد باقر ؑ  ولادت سے  امامت تک

آنحضرت ؑ بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔  آپؑ کی کنیت (ابوجعفر)ہے ۔ آپؑ کے القاب زیاده ہیں، جن میں  سےباقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں  اور آپؑ واقعۂ عاشورا کے چار سالہ چشم دید گواہ بھی تھے۔ 

باقر کی وجہ تسمیہ

باقر، بقرہ سے مشتق ہے اوراسی کا اسم فاعل ہے اس کے معنی شق کرنے والا  اور وسعت دینے والا  کے ہیں ۔ حضرت امام محمد باقرؑ کواس لقب سے اس لیے ملقب کیا گیا تھا کہ آپ نے علوم ومعارف کونمایاں فرمایا اورحقائق احکام وحکمت ولطائف کے وہ سربستہ خزانے ظاہر کر دئیے جو لوگوں پرظاہر و آشکار نہ تھے  ۔ جوہری نے اپنی صحاح میں لکھا ہے کہ ( توسع فی العلم) کو بقرہ کہتے ہیں، اسی لئے  امام محمد بن علیؑ کوباقرسے ملقب کیا جاتا ہے.

علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آپؑ علم وزہد اورشرف میں ساری دنیا سے فوقیت لے گئے ہیں۔ آپؑ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم، حکم، آداب وغیرہ کے حصول میں بڑے بڑے صحابہ اورنمایاں تابعین،اورعظیم القدرفقہاء آپؑ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے۔ آپؑ کو آنحضرت ﷺنے جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام پہنچایا  اوریہ پیشین گوئی بھی دی کہ میرا یہ فرزند(باقرالعلوم) ہوگا ،علم کی ایسی  گتھیوں کو سلجھائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی.

کربلا میں موجودگی

امام محمد باقرؑ نے اپنی بچپن کو(چار سال تک) اپنے والدین  اور دادا (امام حسین ؑ )کے ساتھ گذاری۔ آپ واقعۂ عاشورا کے دوران کربلا میں موجود تھے  جیسا کہ  آپؑ   ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’   میں چار سال کا  تھا جب میرے جدّ امام حسینؑ کو قتل کیا گیا اور مجھے آپؑ کی شہادت  اور وہ تمام مصائب بھی یاد ہیں جو ہم پر گذرے‘‘ ۔ 

آنحضرت علیہ السلام کی امامت

امام محمد باقر ؑ  سنہ 95ہجری  کو اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین ؑ کی شہادت کے فورا بعد منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114ہجری (یا 117 یا 118 ہجری) کو  ہشام بن عبدالملک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا اور   19 سال کی مدت  تک شیعیان آل رسول ﷺ کے امام و رہبر و پیشوا  رہے ہیں ۔

امام محمد باقر ؑ کے ہمعصر خلفاء

امام باقرؑ کا عہد امامت پانچ اموی خلفاء: ولید بن عبدالملک (86 تا 96 ہجری)، سلیمان بن عبدالملک (96 تا 99 ہجری)، عمر بن عبدالعزیز (99 تا 101 ہجری)،   یزید بن عبدالملک (101 تا 105 ہجری)، ہشام بن عبدالملک (105 تا 125 ہجری) کے ہمزمان تھا  ۔ آپ کے ہمعصر اموی خلفاء (مروانیوں) میں سے عمر بن عبدالعزیز، عدل و انصاف اور محبت اهلبیت ؑ  میں پائبند  تھا۔ ان کے علاوہ دیگرخلفاء،  اپنے آباء و اجداد کی طرح  ظالم اور ستمگر تھے اور انہوں نے شیعیان آل رسولﷺ سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویہ  اور آتش انتقام کے شعلے بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔

امام محمد باقر ؑ عظیم علمی تحریک کے بانی

پانچویں امام ؑ  اپنے  عہد امامت میں (سنہ 94 ہجری سے 114 ہجری  تک )، نا گوار حالات کے باوجود حقائق اور الہیٰ تعلیمات کی نشر و اشاعت میں مشغول رہے اور ساتھ ہی مشکل علمی کی تشریح کرتے ہوئے ایک عظیم اسلامی یونیورسٹی کے تمہیدات کو قیام عمل میں لایا  جو بعد میں  آپؑ کے فرزند ارجمند امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں عروج پر پہنچ گئی۔اس دور کی علمی شخصیات اور رسول ﷺکے بعض موجود  اصحاب  نے آنحضرتؑ سے استفاده بھی کیا ہے.

جیسا کہ جابر بن یزید جعفی، کیسان سجستانی، ابن مبارک، زہری، اوزاعی، ابو حنیفه، مالک، شافعی  اور زیاد بن منذر نہدی نے آنحضرتؑ کے علمی آثار سے کسب فیض حاصل  کرتے ہوئے امامؑ کے فرامین کو با واسطه یا بلا اسطه نقل کیا ہے۔ اهلسنت  کی اہم ترین کتابوں جیسے: موطا مالک، سنن ابی داود، مسند ابی حنیفه، مسند مروزی، تفسیر نقاش، تفسیر زمخشری وغیره میں «قال محمد بن علی» یا « قال محمد الباقر» دیکھنے میں آتا ہے ۔ امام باقرؑ کی علمی شہرت  نہ صرف حجاز میں ، بلکہ عراق اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: (( میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندے  آپ ؑکے اردگرد بیٹھے اپنے  مسائل پوچھ رہے ہیں ۔

حدیث کی نشر واشاعت میں امامؑ  کا کردار

حدیث ،چاہے پیغمبر اسلام ﷺسے نقل ہو یا دوسرے معصومین ؑ  سے نقل  ہو، وحی الہیٰ کا ایک ایسا جاری چشمہ ہے جو انسانوں کی ہدایت کیلئے معصوم ؑ کے زبان اور عمل سے نمودار ہوتاہے  اور قرآن کی طرح ، گمراهی سے نکال کر نور کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔قرآن و حدیث میں سے ہر کوئی ایک ایسا قیمتی ورثہ ہے جسے خداوند متعال نے انسانوں کی ترقی کی خاطر ان کے سپرد کیا ہے۔جیسے کہ پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں:( إِنِّي تَارِكٌ‏ فِيكُمُ‏ الثَّقَلَيْنِ‏ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِّي فِيهِمَا. أَلَا هذا عَذْبٌ فُراتٌ‏ فَاشْرَبُوا وَ هذا مِلْحٌ أُجاجٌ‏ فَاجْتَنِبُوا).

ترجمه: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،  اگر تم ان دونوں سے متمسک رہوگے تو میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت و  میرے اہل بیتؑ ۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض [کوثر] پر پہنچ جائیں۔ دیکھو تم ان دونوں سے میرے  بعد کیسے برتاؤ کرتے ہو۔ہوشیار  رہو ! یہ [ثقلین] مزہ دار پانی جیسے  ہیں  اسے پیو اور [ثقلین کے علاوہ ] یہ نمکین [کڑوا] پانی  کی طرح ہیں،  ان سے بچو"۔ 

جیسا کہ روایات میں حدیث معصوم ؑ  کی شان و منزلت بھی بخوبی بیان ہوئی ہے:

۱۔ رسول اللہ ﷺ :((وَ تَحَدَّثُوا فَإِنَّ الْحَدِيثَ جِلَاءٌ لِلْقُلُوب)) حدیث سیکھو کیونکہ یہ دلوں کیلئے  جلا ء  ہے ۔ 

2۔ رسول اللہ ﷺ: ((  اللَّهُمَّ ارْحَمْ‏ خُلَفَائِي‏ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قِيلَ لَهُ وَ مَنْ خُلَفَاؤُكَ قَالَ الَّذِينَ يَأْتُونَ مِنْ بَعْدِي وَ يَرْوُونَ أَحَادِيثِي وَ سُنَّتِي فَيُعَلِّمُونَهَا النَّاسَ مِنْ بَعْدِي‏ ))  ( رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا : خدایا میرے خلفاء پہ رحم فرما ۔پوچھا گیا یا رسول اللہﷺ   آپﷺ کے خلفاء کون ہیں؟  فرمایا : وہ لوگ ہیں  جو میرے بعد آئیں گے اور میری حدیث اور سنت کو بیان کریں گے)  ۔

3۔ امام صادق علیہ السلام  :((  اعْرِفُوا مَنَازِلَ‏ النَّاسِ مِنَّا عَلَى قَدْرِ رِوَايَاتِهِمْ عَنَّا ))  ہمارے بارے  لوگوں کی قدر و منزلت کو ، ان کی ہم سے روایت کرنے کے  ذریعے پہچانو۔

4۔ (( اعْرِفُوا مَنَازِلَ‏ شِيعَتِنَا عَلَى قَدْرِ رِوَايَتِهِمْ عَنَّا وَ فَهْمِهِمْ مِنَّا ))  ۔

ہمارے شیعوں کی قدر و منزلت کو ، ان کی ہم سے روایت بیان  کرنے  اور سمجھنے کی مقدار سے پہچانو"۔

اس اہمیت کے تناظر میں  جب پیغمبر ﷺ کے دور رسالت پر نگاه ڈالی جائے  تو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ،حدیث کی تدوین ایک  عادی امر نظر آتا ہے  اور آپ ﷺ نے  اس بات  پر تاکید بھی کی هے جیسا که آپ ﷺ فرماتے ہیں :

1۔ (( قيدُوا الْعِلْمَ‏ بِالْكِتَاب))‏ علم دین کو کتابت کے ذریعے  سے محفوظ کیا کرو   ۔

2-  (( نَضَّرَ اللَّهُ‏ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَ بَلَّغَهَا لِمَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ وَ رُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْه‏ )) ( اللہ تعالی اس آدمی کو خوشحال  رکھے جس نے میرے قول کو سنا اور اس کو حفظ کیا اور اپنے مابعد کے لوگوں تک پہنچایا جنہوں نے نہیں سنا ہے۔بسا اوقات فقه کا حامل فقیه نهیں ہوا کرتا ہے اور وہ  اپنے سے بالاتر فقیه تک منتقل کرنے کا کردار ادا کرتا ہے)۔

بعض محققین نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے  ۵۰ کے قریب افراد کے اسماء گرامی کو  مؤلفین اور رجال کی کتابوں سے جمع آوری کیا ہے جو حدیث لکھا کرتے  تھے اور اسے  صحیفہ یا نسخہ کی  شکل میں  ان کی طرف  نسبت دی گئی ہے ۔

اس وجہ سے مسلمانوں کی سیرت اس کی تدوین پر تھی اور بعض بزرگ صحابہ  نے بہت سی احادیث  کو اس دور میں لکھا ہے ۔ چنانچه رافع بن خدیج نقل کرتے ہیں : (  ہم نے پیغمبر ﷺ  اسلام سے عرض کی ! ہم بعض چیزوں کو آپﷺ سے سنتے ہیں،کیا انہیں لکھا  جائے  ؟ فرمایا : (( اکتبها ولا حرج ))  (    انہیں  لکھو ،  اس میں کوئی حرج نہیں) ۔اسی گفتار کو عمرو بن شیب    اور عبداللہ بن عمرو بن العاص  نے بھی بیان کیا ہے ۔اور نیز عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتا ہے : میں پیغمبر ﷺ سے جو کچھ سنتا اسے لکھا کرتا تھا تا کہ حفظ کر سکوں لیکن  قریش نے اس کام سے منع کر دیا اور کہا : (( إنَّك تَكْتُبْ كُلُّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ و رَسُولُ اللهِ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الَغَضبِ وَ الرِضا؛ ‌فامْسَكْتُ عَن الكِتابِ، فَذَكَرْتُ ذلِكَ لِرَسُولِ اللهِ فَقالَ: اُكْتُبْ فَوَالذِّيِ نَفْسِي بِيَدِهِ ما خَرَجَ مِنِي اِلّا حَقٌّ)) ( تم جو کچھ رسول اللہ ﷺ  سے سنتے ہو اُسے  لکھتے ہو ، جبکہ رسول خدا ﷺ  ایک  انسان ہیں، کبھی غصے میں اور کبھی خوشی میں بات کرتے ہیں ۔پس میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور اس مسئلے کو پیغمبر ﷺ  اسلام کے سامنےبیان کیا  ۔آپ ﷺ نے فرمایا : لکھو : قسم ہے مجھے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت  میں میری جان ہے ، میرے منہ سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر یہ کہ حق ہوتی ہے  ۔ 

امیر المومنین  علی علیہ السلام نے پیغمبراکرم ﷺ سے کچھ اس طرح  نقل کیا ہے: (( اُكْتُبُوا هَذِهِ العِلْمَ، فَإِنَّكُم تَنْتَفِعُونَ بِهِ إِما فِي دُنياكُم وَ إِما فِي آخِرَتِكُم وَ إِنَّ العِلْمَ لا يُضِيْعُ صاحِبَهُ))( اس علم کو لکھو  چونکہ اس سے  یا دنیا میں   یا  آخرت   میں  فائدہ حاصل کر وگے  کیونکہ علم اپنے حاصل کرنے والے کو کبھی ضایع نہیں کرتا ۔  امام صادق علیہ السلام  اپنے والد گرامی سے نقل کرتے ہیں  ،  حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حدیث لکھے  تو اسے سند کے ساتھ لکھو ۔اگر حق بات ہے تو تم اس کی نیکی میں شامل ہو گے اور اگر باطل ہےتو اس کا گناہ کہنے والے کے گردن  پر ہوگا ۔  ام المومنین ام سلمہ سے منقول ہے : حضرت علی ؑ  رسول خدا ﷺ کے پاس تھے ،  آنحضرت ﷺ نے کھال منگوائی  اورحضرت رسول خدا ﷺ نے اس قدر  علی ؑ کو املاء  کی مشق کروائی اور علی ؑ نے  اس قدر لکھا کہ کھال کے دونوں حصے  اور تمام کنارے لکھائی سے پر ہوگئے ۔ 

اسی طرح رسول خدا ﷺ نےحضرت  علی ؑ  سے فرمایا : (( يا عَلِي أُكْتُبْ ما أَمْلِي عَلَيْك. قُلْتُ: يا رَسُولَ اللهِ، اَتَخافُ عَلَيَّ‌ النِسْيانُ ؟ قالَ: لا وَ قَدْ دَعَوْتُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَكَ حافِظَاً‌ وَ لكِنَّ لِشُرَكائِكَ الأَئِمَةِ مِنْ وُلْدِكَ)). ( اے علی ؑ  ! جو کچھ میں آپؑ کے لیے  بیان کرتا ہوں اسے لکھو ،میں نے عرض کیا ! اے رسول خدا ﷺ کیا آپ ڈرتے ہیں کہ میں اسے بھول جاؤں ؟  رسول خدا ﷺ نے فرمایا : نہیں میں نے خداوند متعال  سے دعا کی ہے  وہ تمھیں  نسیان سے محفوظ قرار دے  ۔ لیکن وہ  شرکاء جوکہ تمہارے فرزندوں سے امام قرار پائیں گے ، یہ  ان کیلئےوصیت ہے ۔ 

مذکورہ بالا  احادیث کی روشنی میں  اقوال معصومینؑ کی اهمیت، عظمت ، ضرورت اور معصومینؑ کے اهتمام  کا بخوبی اندازه هوتا هے، لیکن اہل سنت کے بعض علماء کا عقیدہ ہے که پیغمبر ﷺ کے دورمیں حدیث کی تدوین نہیں ہوئي ہے  اور  اس کے متعلق بہت زیادہ سختی تھی  ۔چونکه رسول اکرم ﷺ  کی وفات کے بعد مسلمانوں کے خلفاء اور ان کے پیروکاروں نے  حدیث کی کتابت اور نشر و اشاعت پر پابندی عائد کی  تھی جس کی  وجہ سےاہل سنت کے مؤرخین کی نظر میں پہلی صدی کے زمانے  کو تدوین کی ممانعت اور سختی  کا زمانہ  اور حدیث کی تدوین کا آغاز دوسری صدی کے اوائل سے قرار دیا  ہے ۔ جبکہ ائمہ اطہار ؑ نے ، رسول اکرم ﷺ کی سیرت کو اپناتے ہوئے احادیث کی کتابت کا سلسلہ جاری رکھا۔

کتابت حدیث کے بارے میں امام باقرؑ کی روایات

امام باقرؑ کے دور امامت میں شیعہ زیادہ آسائش وسکون میں تھے۔ اس کی بنیادی وجہ بنو امیہ کی حکومت کے زوال کے آخری ایام تھے اور آنحضرتؑ نے اپنے آباء واجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے احادیث کو نشر کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور لوگوں کو احادیث کی نشر واشاعت کی اہمیت کی طرف توجه دلانے کے ساتھ ، احادیث میں تدبّر کرنے  پر بھی بہت زور دی تھی  ، جس کی  وجہ سے آپ کے دور میں اہم علمی آثار اور تالیفات منظر عام پر آئے۔

علم حاصل کرنے اور لکھنے کے بارے میں امامؑ کی کچھ احادیث ذیل میں ذکر کرتے ہیں:

1۔ امام باقر علیہ السلام:  (( يَا فُضَيْلُ‏ إِنَّ حَدِيثَنَا يُحْيِي الْقُلُوبَ))(  اے فضیل بے شک ہماری احادیث دلوں کو زندہ کرتی ہیں)  ۔

2۔ امام باقر علیہ السلام : (( سَارِعُوا فِي طَلَبِ الْعِلْمِ فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَحَدِيثٌ وَاحِدٌ فِي حَلَالٍ وَ حَرَامٍ تَأْخُذُهُ عَنْ صَادِقٍ‏ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَ مَا حَمَلَتْ مِنْ ذَهَبٍ وَ فِضَّة )) (علم کی طلب  میں جلدی کرو۔ پس اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں  میری جان ہے، حرام و حلال کے بارے  ایک حدیث جس کو تم ایک سچے انسان سے  حاصل کرتے  ہو وہ دنیا  اور  اس  میں موجود سونے  اور چاندی سے بہتر ہے )  ۔

3-امام باقر علیه السلام: (( يَا بُنَيَّ اعْرِفْ مَنَازِلَ الشِّيعَةِ عَلَى قَدْرِ رِوَايَتِهِمْ وَ مَعْرِفَتِهِمْ فَإِنَّ الْمَعْرِفَةَ هِيَ الدِّرَايَةُ لِلرِّوَايَةِ وَ بِالدِّرَايَاتِ لِلرِّوَايَاتِ يَعْلُو الْمُؤْمِنُ إِلَى أَقْصَى‏ دَرَجَاتِ‏ الْإِيمَان‏))(  اے میرے فرزند،  ہمارے شیعوں کی منزلت کو  ان کی روایت اور معرفت کی حد سے پہچانو؛ کیونکہ احادیث کی معرفت وهی روایات میں تدبّر  کرناہے اور روایت  کے اندر تدبّر کرنے کے ذریعے سے ہی مؤمن  اپنے  ایمان کے بلند درجات تک پہنچ سکتا ہے۔ 

مندرجہ بالا تینوں روایات میں امامؑ نے صرف نقل حدیث اور ترویج حدیث پر اکتفا نہيں کیا  ہے بلکہ اپنے اصحاب کو فہمِ حدیث اور ان کے معانی کے سمجھنے  پر بھی ترغیب دلائی ہے۔ 

حضور اکرم  ﷺکی وفات کے بعد سیاسی حالات ائمہ معومین ؑ کےلئے موزون نہیں تھے لیکن دوسری صدی کے آغاز میں عمر بن عبدالعزیز کے دو رحکومت میں سیاسی صورتحال قدرے بہتر ہوئے  کیونکہ انہوں  نے حضرت علیؑ  کے خلاف گالی گلوچ پر پابندی لگائی  اور  ساتھ ہی دوسرے خلیفہ کے دور میں  کتابت حدیث کی جو ممنوعیت  تھی (جسے بعض مواقع  پر استناد  بھی کیاجاتا تھا)  ختم کردی  اور ایک خط میں ابوبکر محمد بن حزم کو لکھا: (( رسول خدا ﷺ کی حدیث اور آپ ﷺ  کی سنت میں سے جو کچھ پاؤ  اُسے لکھو؛ کیونکه مجھے علم کے  ضائع ہونے  اور علماء کے فوت ہوجانے کا ڈر ہے)) ۔

عمر بن عبدالعزیز  کے اس دستور کے بعد بعض محافل میں رائج کتابت کی ممنوعیت ختم ہوگئ ۔ اس دستور کی تعمیل کرتے ہوئے سب سے پہلے حدیث کے لکھنے والے ابن شہاب زہری تھے ۔ عمر بن عبدالعزیز کا  یہ دستورسبب ہوا  کہ امام محمد باقرؑ  اور آپ ؑ کے اصحاب اور شیعوں کیلئے ایسے مواقع فراہم ہوئے  کہ جس سے کتابت حدیث میں مزید رونق آگئی   اور اہلسنت  کی اهم ترین کتابوں جیسے: مؤطا مالک، سنن ابی داود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش، تفسیر زمخشری وغیرہ میں  امام محمد باقر ؑ کے اقوال  «قال محمد بن علی» یا « قال محمد الباقر»  کی شکل میں نظر  آتے ہیں ۔  

امام محمد باقرؑ  کے علمی آثار

امام محمد باقرؑ  اور امام جعفر صادقؑ کے اصحاب سے بہت ساری کتابیں اور تالیفات نقل ہوئی ہیں  اور ان کو نقل کرنے والے آپؑ ہی  کے 500 شاگرد تھے ۔ان میں سے کچھ  یہ ہیں:

1۔ تفسیر القرآن، زیاد بن منذر اور ابوالجارود عبدی کے روایت کے مطابق 

2۔ احادیث کا ایک نسخہ، خالد بن ابی کریم، خالد بن طہمان کی روایت کے مطابق 

3۔ کتاب حدیث، عبدالمُومن بن ابی القاسم، زرارۃ بن اعین کی روایت کے مطابق 

4۔ سعد الاسکاف اور سعد الخیر کے نام رسالہ  

امام محمد باقرؑ کے راویوں میں سے کچھ کےنام ایسے بھی ہیں کہ خود حدیثوں کا مجموعہ یا کتابوں کے حامل تھے جیسے سلام بن ابی عمرہ، مسعدۃ بن صدقہ، مسمع بن عبدالملک،نصر بن مزاحم،عمر بن ابی المقدام،ظریف ابن ناصح وغیرہ کہ جنہیں علم رجال میں امام محمد باقرؑ کے اصحاب کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے اور اِن کے کچھ علمی آثار بھی ملتے ہیں ۔ شیخ طوسیؒ نے اپنی کتاب اختیار معرفۃ الرجال میں تحریر کیا ہے  کہ امام باقرؑ کے ان شاگردوں کی تعداد 462 تھی جنہوں نے آپ سے احادیث نقل کی ہیں۔ آپؑ کے شاگردوں میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔

زمانے کے حالات نے امام باقرؑ اور امام صادقؑ کو مناسب  موقع  فراہم کئے جو دوسرے ائمہ طاہرینؑ کو فراہم نہیں تھے۔ وہ  اموی حکومت کی بنیادیں متزلزل ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے تھے۔ اس زمانے کے نظام خلافت  کا اندرونی بحران کی وجہ سے  موجود حکام  کو سابقہ حکام  کی مانند خاندان رسالت پر دباؤ ڈالنے اور انہیں گوشہ نشین بنانے کا موقع  فراہم نہیں تھا۔  لہذا انہیں حالات میں امام باقرؑ اور امام صادقؑ کو زیادہ سے زيادہ فقہی، تفسیری وغیرہ کتابوں  میں اپنے نفیس اور عمدہ آثار چھوڑنے کا موقع ملا۔ محمد بن مسلم شیعه کے وہ  اهم شخصیات،  نامور راویوں  اور امام محمد باقرؑ کے برجسته شاگردوں میں سے شمار هوتے هیں کہ  جنهوں نے مدینه میں  اپنے چار سال قیام کے دوران  آپ ؑسے کسب فیض کرتے هوئے 30 ہزار حدیثیں نقل کرنے میں کامیاب ہوئے   اور جابر جعفی جیسی شخصیت نے 70 ہزار حدیثیں نقل کی ہیں  ۔اسی طرح    آپ ؑ کی جدوجهد نے مکتب اهلبیت  ؑکے مختلف علوم کو متعارف کروایا ہے ۔

منابع :

. شیخ مفید، الارشاد، ص508

  . مطالب السؤل ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱

  . المنجد ص ۴۱

  . صواعق محرقہ،ص ۱۲۰ ،مطالب السؤل ص ۶۶۹ ، شواہدالنبوت صذ ۱۸۱

  . اعلام الوری ص ۱۵۷ ،علامہ طبرسی

  . المفید، الارشاد، قم: سعید بن جبیر، 1428ق، ص382

  . سیره پیشوایان، مهدی پیشوائی، ص306

  . ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4ص195

  . گروه مولفان، پیشوایان هدایت، ص320۔

  الکافی [الاصول]، کلینی: ۱ /۴۱/ ح۸

  بحار الانوار، مجلسی، محمد باقر: ۲/ ۱۴۵، کتاب العلم باب ۱۹، حدیث ۷

  بحار الانوار، مجلسی، محمد باقر: ۲/ ۱۵۰/ کتاب العلم باب ۱۹، حدیث ۲۴

  . كنزالعمال، ج5، ص224؛ تقييدالعلم، ص68؛  سنن الدارمي، عبدالله بن بهرام دارمي، ج1، ص127.

  . مجله علوم حديث،‌ ش3، ص11ـ40.

  . كنزالعمال، ج5، ص225؛ تقييدالعلم، ص72.

  . مسند احمد، ج2، ص215؛ بحارالأنوار، ج2، ص147؛ تقييد العلم، ص74.

  . تقييدالعلم، ص85.

  . مسنداحمد، ج2، ص162.

  . كنزالعمال، ج10، ص262، ش29389.

  . الاملاء و الاستملاء، ص5.

  . الاملاء و الاستملاء، ص12.

  . الامامة و التبصرة من الحيرة، ص183؛ بصائرالدرجات، محمد بن الحسن الصفار، ص167؛ امالي صدوق، ص327؛ اكمال الدين و اتمام النعمة، ص206.

  علوم الحدیث ومصطلحہ ، ص30؛ اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص46

 ایضا 

  بحارالانوار، مجلسی، محمد باقر ۲/ ۱۴۴، حدیث ۵ باب ۱۹

  المحاسن،برقی: ۱/ ۳۵۶

  ۔سنن دارمی،ج 1،ص 126۔

  ۔ایضا۔ اُنظر ما کان من حدیثِ رسولِ اللہ(ص) او سُنّتِہ فاکتُبْہُ فانی خفتُ دروسَ العلمِ و ذِھاب العلماء

  ۔سنن دارمی،ج1،ص 126،صحیح بخاری،ج1،ص36،تہذیب التہذیب ج 12،ص41

  . ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4ص195

  ۔السنۃ قبل التدوین،ص 354۔

  ۔۔رجال،ص 102 کے بعد سے

  ۔فہرست ابن ندیم،ص 36۔اعیان الشیعہ ج1 ،ص 211۔

  ۔رجال النجاشی،ص 151۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .