جمعہ 18 اپریل 2025 - 18:34
حجت الاسلام سید باقر موسوی الصفوی رحلت پر حوزہ علمیہ امام ہادی (ع) کا اظہارِ افسوس

حوزہ/ کشمیر کے بزرگ عالم دین حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید محمد باقر الموسوی الصفوی کی المناک رحلت پر حوزہ علمیہ امام ہادی علیہ السلام نورخواہ اوڑی کشمیر نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں سمیت خانوادہ کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر کے بزرگ عالم دین حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید محمد باقر الموسوی الصفوی کی المناک رحلت پر حوزہ علمیہ امام ہادی علیہ السلام نورخواہ اوڑی کشمیر نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں سمیت خانوادہ کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کی ہے۔

حوزہ علمیہ امام ہادی اوڑی کے تعزیتی پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

انا لله و انا الیه راجعون

متقی اور پرہیزگار عالم دین مرحوم آیت اللہ سید محمد باقر الموسوی الصفوی (رضوان‌الله‌تعالی‌علیه) کی وفات کی خبر سن کر بہت افسوس ہوا۔

حوزہ علمیہ امام ہادی علیہ السلام اس عظیم مصیبت پر علمائے کرام اور طلاب حوزات علمیہ، مرحوم کے اہل خانہ، عقیدت مندوں خاص طور پر کشمیر کے لوگوں کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہے۔

حجت الاسلام سید باقر موسوی الصفوی رحلت پر حوزہ علمیہ امام ہادی (ع) کا اظہارِ افسوس

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے قول کے مطابق’’ إذا ماتَ المؤمنُ الفَقیهُ ثُلِمَ فی الإسلامِ ثُلمَةٌ لایَسُدُّها شیءٌ‘‘ بلاشبہ اس فقدان کا جبران ممکن نہیں ہے۔

خداوند متعال سے دعا ہے کہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل اور اجر جزیل عنایت فرمائے۔

علم و عرفان کا ستارہ غروب ہو گیا

رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے، ہر شے پر اداسی کی چادر تن چکی تھی، ہوائیں پرسوز نغمے گنگنا رہی تھیں، در و دیوار خاموش تھے، اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے فضا نے کوئی بڑی امانت کھو دی ہو۔ ایک ایسی شمع گل ہو چکی تھی جس کی روشنی نے نسلوں کو منور کیا تھا، ایک ایسا چراغ بجھ چکا تھا جس کی لو نے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کی قسم کھائی تھی۔ حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید محمد باقر الموسوی الصفوی جو علم و فضل کی روشن کہکشاں تھے، اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے تھے، یہ جدائی محض ایک شخص کی جدائی نہیں تھی، بلکہ ایک عہد کے تمام ہونے کا نوحہ تھا، ایک تاریخ کے باب کے بند ہونے کا اعلان تھا۔

حجت الاسلام سید باقر موسوی الصفوی رحلت پر حوزہ علمیہ امام ہادی (ع) کا اظہارِ افسوس

یہ خبر کشمیر کی سرزمین پر پھیلی تو ہر دل پر ایک بوجھ سا آن پڑا، ہر آنکھ اشکبار ہو گئی، ہر زبان پر سناٹے کی مہر لگ گئی۔ یہ وہ ساعت تھی جب وقت بھی رک سا گیا تھا، لمحے بوجھل ہو چکے تھے، اور درد کی ایک نہ ختم ہونے والی لہر ہر ذی شعور پر طاری ہو گئی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب شہر کے در و دیوار نے اپنے سب سے روشن چراغ کو کھو دیا، جب درسگاہوں نے اپنے سب سے درخشاں استاد کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔

یقیناً کشمیر کی زمین ایک انوکھے منظر کی گواہ بنی۔ ہزاروں عقیدت مند، شاگرد، علما، اور عوام کا ایک سیلاب تھا جو اپنے محبوب رہنما کو رخصت کرنے کے لیے بڈگام کشمیر آیا تھا۔ چہرے پر غم کی لکیریں، آنکھوں میں یادوں کی برسات، دلوں میں تڑپ، اور لبوں پر بس ایک ہی التجا کہ "اے اللّٰہ! ہمارے رہنما کے درجات بلند فرما، اس چراغ کو اپنی جنت کے نور میں جگہ عطا فرما۔" وہ لمحہ کیسا عجیب تھا جب ہزاروں لوگ ایک ہی صف میں کھڑے تھے، ایک ایسی ہستی کے لیے دعا کر رہے تھے جو اپنی زندگی میں سب کے لیے دعاگو رہا تھا۔

حجت الاسلام سید باقر موسوی الصفوی رحلت پر حوزہ علمیہ امام ہادی (ع) کا اظہارِ افسوس

نمازِ جنازہ جب ادا کی گئی تو کشمیر کی فضائیں "اللّٰہ اکبر" کی صدا سے لرز اٹھیں، جیسے زمین نے بھی اپنے معتبر باسی کو آخری سلام پیش کیا ہو، جیسے ہوا نے بھی اپنی محبت کا خراج پیش کر دیا ہو۔ جب جنازہ کندھوں پر اٹھایا گیا تو ایسا لگا جیسے ایک پورا جہان اپنے محور سے ہٹ گیا ہو، جیسے ایک شجر سایہ دار جڑوں سے اکھڑ چکا ہو، جیسے آسمان نے ایک اور ستارہ کھو دیا ہو۔

انہوں نے اپنی تمام زندگی دین اسلام کی خدمت، عقیدہ امامت و رسالت کے تحفظ، اصلاحِ معاشرہ، اور علم و تحقیق کے فروغ کے لیے وقف کر دی۔ وہ ایک ایسے استاد تھے جنہوں نے کئی شاگردوں کو قرآن و حدیث کی روشنی سے منور کیا، ایک ایسے محقق تھے جن کی تحریریں علم و حکمت کا شاہکار تھیں، ایک ایسے داعی تھے جن کی دعوت حق کے چراغ روشن کرتی رہی۔ ان کی زبان میں وہ برکت تھی کہ جو سنتا، اس کے دل پر اثر ہوتا، ان کی دعاؤں میں وہ تاثیر تھی کہ جو مانگتا، خالی نہ جاتا۔

درس و تدریس کا میدان ہو یا وعظ و نصیحت کا منبر، تحقیق و تصنیف کی دنیا ہو یا اصلاحِ احوال کی مسند، ہر مقام پر ان کی شخصیت چمکدار ستارے کی مانند رہی۔ ان کا ہر لمحہ دین کی خدمت میں بسر ہوا، ان کا ہر دن علم کے فروغ میں گزرا، ان کی ہر رات فکری مشغلوں میں ڈوبی رہی۔ وہ ایک ایسے سپاہی تھے جنہوں نے باطل کے خلاف ہمیشہ کلمۂ حق بلند کیا، ایک ایسے درویش تھے جن کے در سے خالی ہاتھ لوٹنا ممکن نہ تھا، ایک ایسے رہنما تھے جن کے پیچھے چلنے والا کبھی راستہ نہ بھٹکتا تھا۔

آپ اپنے شاگردوں کے لئے ایک مہربان اور شفیق باپ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان سے انتہائی اخلاق اور انکساری سے ملتے اور مزاح بھی فرماتے تھے۔

تدریس کے علاوہ مختلف موضوعات پر کتابیں بھی تالیف و تصنیف فرمائیں، جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ امام حسین علیہ السلام سے عشق : ایام محرم میں مجالس عزا منعقد کرتے تھے اور خود منبر پر تشریف لے جاتے اور خطاب فرماتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کے ذکر مصیبت پر شدید گریہ فرماتے اور آپ کی مجلس سن کر حاضرین بھی گریہ کرتے تھے، لیکن چراغوں کی تقدیر میں بجھنا لکھا ہوتا ہے، روشنیوں کا مقدر ماند پڑ جانا ہے۔ وہ جو کل تک مسند علم پر بیٹھ کر چراغ جلاتے تھے، آج خود مٹی تلے جا سوئے۔ وہ جو کل تک دعاؤں کی سوغات بانٹتے تھے، آج خود لوگوں کی دعاؤں کے محتاج ہو گئے۔ وہ جو کل تک ہر جنازے میں شریک ہوتے تھے، آج خود جنازہ بن کر لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو گئے۔

نمازِ جنازہ کے بعد علماء و مشائخ، شاگردوں، عقیدت مندوں، اور شہر کے معتبرین نے دعاؤں کے سائے میں انہیں رخصت کیا۔ ہر چہرہ مغموم، ہر دل شکستہ، ہر آنکھ اشکبار تھی۔ لوگوں نے ان کے بلند درجات کی دعا کی، ان کی قبر کی منور ہونے کی دعا مانگی، ان کے لیے جنت الفردوس کی التجا کی۔ وہ چلے گئے مگر ان کا فیض باقی ہے، وہ خاموش ہو گئے مگر ان کی بازگشت رہتی دنیا تک سنائی دے گی۔

یہ صدمہ صرف ایک خاندان کا صدمہ نہیں، ایک شہر کا ماتم نہیں، بلکہ علم و دانش کی دنیا کا نقصان ہے، دین و دعوت کے میدان کی کمی ہے۔ لیکن یہ یقین ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ضائع نہیں کرتا، ان کی محنتوں کو رائیگاں نہیں جانے دیتا، ان کے چراغوں کو ہمیشہ جلائے رکھتا ہے۔ دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے، ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں بدل دے، ان کے شاگردوں کو ان کے علم کا امین بنائے، اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔

چراغ بجھ گئے مگر روشنی باقی ہے، ہوائیں تھم گئیں مگر خوشبو زندہ ہے، ستارہ ڈوب گیا مگر اس کی چمک ہمیشہ کے لیے امر ہو چکی ہے۔ وہ چلے گئے مگر ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی، وہ خاموش ہو گئے مگر ان کی باتیں کبھی نہیں مٹیں گی۔

حوزہ علمیہ امام ہادی علیہ السلام نورخواہ اُوڑی کشمیر کے لیے علامہ سید محمد باقر الموسوی الصفوی ایک سایہ دار درخت کے مانند تھے، ہمیشہ ہمارے ساتھ تعاون کرتے اور اپنے علم سے حوزہ علمیہ امام ہادی علیہ السلام نورخواہ اُوڑی کشمیر کے طلاب کو فیضیاب فرمایا کرتے تھے۔

حوزہ علمیہ امام ہادی علیہ السلام نورخواہ اوڑی کشمیر کے تمام اساتذہ بلخصوص مدیر اعلیٰ حجتہ الاسلام والمسلمین الحاج سید دست علی نقوی صاحب کے حوصلے بلند کرتے اور انہیں دین مبین اسلام کی تعلیمات کو نشر کرنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔

حوزہ علمیہ امام ہادی علیہ السلام نورخواہ اُوڑی کشمیر کے فارغ التحصیل طلاب کو عمامہ پوشی کا شرف بھی انہیں کے مبارک ہاتھوں سے حاصل ہوا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • سید ارشد حسین کاظمی الموسوئ IN 08:32 - 2025/04/19
    تعزیتی پیغام ارسال