پیر 22 دسمبر 2025 - 08:25
کربلا کے بعد امام محمد باقر (ع) کی سیاسی و سماجی زندگی

حوزہ/سلسلۂ امامت کے پانچویں قمر اور سلسلۂ عصمت و طہارت کے ساتویں آفتاب، یعنی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، جن کی حیاتِ طیبہ پر اگر غور و خوض کیا جائے تو آپ سن 57 ہجری میں اس دارِ دنیا میں تشریف لائے۔ یہ وہ پُرآشوب دور تھا جب ظاہری حکومت پر انسانیت کا دشمن، دین کا باغی، شریعت کا مجرم، محترم انسانوں کا قاتل، اصحابِ رسول کو تہِ تیغ کرنے والا، سفاک و ظالم، سرزمینِ شام کو علیؑ کے چاہنے والوں کے مقدس خون سے رنگین کرنے والا، یہودیت اور مسیحیت کو فروغ دینے والا، احکامِ اسلامی کو مجروح کرنے والا ایک شقی القلب اور بے رحم حاکم قابض تھا۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| سلسلۂ امامت کے پانچویں قمر اور سلسلۂ عصمت و طہارت کے ساتویں آفتاب، یعنی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، جن کی حیاتِ طیبہ پر اگر غور و خوض کیا جائے تو آپ سن 57 ہجری میں اس دارِ دنیا میں تشریف لائے۔ یہ وہ پُرآشوب دور تھا جب ظاہری حکومت پر انسانیت کا دشمن، دین کا باغی، شریعت کا مجرم، محترم انسانوں کا قاتل، اصحابِ رسول کو تہِ تیغ کرنے والا، سفاک و ظالم، سرزمینِ شام کو علیؑ کے چاہنے والوں کے مقدس خون سے رنگین کرنے والا، یہودیت اور مسیحیت کو فروغ دینے والا، احکامِ اسلامی کو مجروح کرنے والا ایک شقی القلب اور بے رحم حاکم قابض تھا۔

آئینِ اسلام کا مذاق اُڑایا جا رہا تھا اور صاحبانِ علم و عمل کا جینا مشکل کر رکھا تھا۔ اس دورِ پُرخطر میں امام علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ ابھی زندگی کے سفر کا چوتھا برس شروع ہی ہوا تھا کہ سرزمینِ شام سے ایک آواز اٹھی:

"لعبت بنو ہاشم بالملک

ما جاءَ وحیٌ و لا نزلَ کتابٌ"

جس آواز کا لبِ لباب یہ تھا کہ کوئی وحی نہیں آئی، کوئی قرآن نہیں آیا، یہ تو سب (نعوذباللہ) اہلِ بیتؑ کا ڈھونگ ہے۔ گویا وحی و قرآن کا انکار کیا جا رہا تھا، نبوت و رسالت، دین و شریعت کا انکار کیا جا رہا تھا۔ ان حالات میں امام حسین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام نے اس آواز کے خلاف پرچمِ اسلام کو لہراتے ہوئے صدائے انقلاب بلند فرمائی۔ اپنے بابا اور دادا کی حکمتِ عملی، روانگیِ مدینہ سے کربلا تک، سفر کی صعوبتیں برداشت کیں۔

یہاں تک کہ تین دن کی بھوک و پیاس میں صحرائے کربلا کی لُو کے تھپیڑے، ریگزار کی دل دہلا دینے والی شدید گرمی اور جھلسا دینے والا گرم ترین موسم، اعزّہ و اقارب کا داغِ مفارقت، خون کی بارش، تلواروں کی چمک، گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھمک، تیروں کا سیلاب، خنجر و نشتر کا طوفان، اور امام محمد باقر علیہ السلام کی کمسنی کا عالم، باپ کی اسیری، اور ماؤں و بہنوں کا کشاں کشاں پھرایا جانا یہ سب وہ مناظر تھے جنہیں دیکھ کر صبر و تحمل سے کام لینا کوئی آسان کام نہ تھا۔

بلکہ آغوشِ امامت کے پروردہ امام، ان تلخ تجربات کی روشنی میں آنے والے زمانے میں اس شمعِ انقلاب کو حکومت کی مسموم آندھیوں سے بچانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ گھٹن کے اس ماحول میں، ہم نے شہیدوں کے خون کی سرخی کو عالمی اور آفاقی بنانا تھا۔

لہٰذا امامؑ کی یہ وہ زندگی تھی جسے اس وقت کے حساب سے سیاسی بھی کہا جا سکتا ہے اور سماجی بھی۔

سیاسی اس اعتبار سے کہ عالمِ اسلام کا سب سے بڑا سانحہ رونما ہوا، اور سماجی اس اعتبار سے کہ آپ نے اس کمسنی میں بھی حقوقِ آلِ محمدؐ کو مکمل طور پر نبھایا۔ اور یہ سماجی حیات ہی کا ایک اثر تھا کہ آپ نے کمسنی کے تمام تر مشاہدات کو بروئے کار لا کر امت کو اس منزل پر پہنچا دیا کہ جہاں قوم علم کی تشنگی کو محسوس کر رہی تھی، وہاں آپ کی ذاتِ گرامی قدر چشمۂ فیضِ علم تھی۔

یا یوں کہوں کہ جس طرح چاہِ زمزم تھا، اسی طرح آپ کا دربارِ عالی وقار تھا، جس پر مسندِ علم بچھی ہوئی تھی، اور ایک بوریا نشین زمین سے آسمان تک پھیلے ہوئے علوم و فنون کی موشگافیاں کر رہا تھا۔ اور جس مدرسے کی بنیاد گھر اور مسجد میں امام سجاد علیہ السلام نے رکھی تھی، اسی کو امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنی حیاتِ طیبہ میں اس قدر بامِ عروج پر پہنچایا کہ امام صادق علیہ السلام کے حلقۂ درس میں چار ہزار طلاب بیک وقت نظر آنے لگے۔

یہ امام محمد باقر علیہ السلام کی وہ حکمتِ عملی تھی جس میں آپ نے علم کے چراغ اس لیے روشن کیے کہ قوموں کا عروج و زوال ان کی علم و دانشوری سے وابستہ رہے۔ کسی بھی انقلاب کو سمجھنے کے لیے علم کی گہرائی اور گیرائی درکار ہوتی ہے، لہٰذا کربلا کے عظیم سانحے کے حقیقی نشیب و فراز کو رہتی دنیا تک پہنچانے اور اس واقعہ سے ضمیرِ انسانیت میں حریت کے دیپ جلانے اور غلامی کی زنجیروں سے بشریت کو آزاد کرانے کے لیے ہر فرد کے ہاتھوں میں شمعِ علم کا دینا ضروری تھا، تاکہ اس کی روشنی میں ہر انسان کربلا کی تصویر کو آئینۂ علم میں دیکھ کر حقیقت کا ادراک کر لے۔

چونکہ اگر جہالت کی تاریکی اور تعصب کی گرد و غبار ذہنِ آدمیت پر چھا جائے تو اُسے حسین ترین تصویریں بھی دھندلی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا امام علیہ السلام نے فقہ و شریعت کی اہمیت و عظمت کو اُجاگر کرتے ہوئے قرآن و سنت، وحی و الہام کے پرلطف معانی و مفاہیم سادہ اور آسان زبان میں لوگوں تک پہنچا کر آئینِ اسلام اور قوانینِ شریعت کو ہر ذہن میں اس طرح راسخ کر دیا کہ اب اگر کوئی شخص آج بھی وحی و الہام، نزولِ قرآن، آمدِ رسول، اور ختمِ نبوت و رسالت کا انکار کرے تو ایک با ضمیر مسلمان اس آواز کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھے گا۔ یہ اور بات ہے کہ انسان اپنے حالات، واقعات اور اقتصادیات کو مقدم رکھتے ہوئے ضمیر کی آواز کو دبا دے اور عدالتِ عُظمیٰ میں اپنے آپ کو مجرم ثابت کر دے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس قدر علم کی موشگافیاں کیں کہ آپ کو "باقر العلوم" کہا گیا۔ آپ نے سماجی اور سیاسی زندگی میں ہر آن، ہر لحظہ، ہر لمحہ اسلام کی بالادستی، قوانینِ اسلام کی رفعت و عظمت کو اُجاگر کیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ محمد ابن المنکدر، جو صوفی مسلک کا انسان تھا، اس نے امامؑ کو ضعیفی میں دو اشخاص پر تکیہ کیے ہوئے باہر جاتے دیکھا تو طنز کیا کہ:

"آپ بنو ہاشم کے شیوخ بھی کسبِ دنیا کے لیے مرے جا رہے ہیں!"

تو آپؑ نے فرمایا:"یہ کسبِ دنیا نہیں ہے، اطاعتِ الٰہی ہے۔ میں اس وقت مر بھی جاؤں تو یہ موت اطاعتِ الٰہی میں ہوگی۔"(نقوشِ عصمت، صفحہ 412 تا 417)

بظاہر واقعہ بہت مختصر ہے لیکن اس میں دروس و اسباق کا سمندر موجزن ہے۔ پہلا مرحلہ مقابل کے طنزیہ لہجے کا ہے، جس کا جواب "و إنک لعلی خلقٍ عظیم" کے مصداق کا فرزندِ ارجمند بڑی خندہ پیشانی سے دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ جبکہ عمر کا تقاضا اور ضعیفی کا عالم عام آدمی کو جھلاہٹ میں مبتلا کر دیتا ہے، مگر آلِ محمدؐ کا علم زمان و مکان اور عمر کی حدود و قیود میں محدود و مقید نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو وہ نورِ علم ہے جس سے اپنوں کے ساتھ ساتھ غیر بھی کسبِ ضیاء کرتے نظر آتے ہیں۔

اس مختصر واقعے میں امام نے فرمایا: "کسبِ دنیا نہیں، بلکہ کسبِ معاش ہے"۔ گویا کسبِ دنیا اور ہے، کسبِ معاش کچھ اور۔ حالانکہ یہ نکتہ خود ایک سماجی اور اجتماعی حیات کی عکاسی کرتا ہے کہ امام نے اس فقرے کے ذریعے ایک تقسیم پیش فرمائی:

کسبِ دنیا معیوب ہے جبکہ کسبِ معاش ایک عبادت ہے۔

کسبِ دنیا سے غرور پیدا ہوتا ہے اور کسبِ معاش سے فرض سے سبکدوشی میسر ہوتی ہے۔

کسبِ دنیا اہلِ دنیا کا وطیرہ ہے اور کسبِ معاش انبیاء، اولیاء، اوصیاء و صلحاء کا طریقۂ کار۔

کسبِ دنیا سے دولت کی کثرت، حرص و لالچ، ہوا و ہوس، اقتدار اور مملکت کی بو آتی ہے۔

جبکہ کسبِ معاش سے فقر و فاقہ، احساسِ ذمہ داری، وقت کی ضرورت اور حالات کی ناگفتہ بہ کے اسباب مہیا ہوتے ہیں۔

کسبِ دنیا میں حقوق کی پامالی، ظلم و زیادتی کا پہلو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ کسبِ معاش یتیم پروری، فقیروں کا سہارا، غریبوں کا آسرا، بے نَواؤں کا خیال ہے۔

کسبِ دنیا سے عیش و عشرت، آرام طلبی، حصولِ جاہ و منصب، خزانہ و خزینہ کا تصور قائم ہوتا ہے، لیکن کسبِ معاش سے اقتصادی ترقی، قوتِ لایموت، اور مکمل فروتنی و انکساری کے ساتھ حصولِ رزق کا تصور ہوتا ہے۔

پھر امام علیہ السلام نے کسبِ معاش کو اطاعتِ الٰہی کہا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسبِ معاش درحقیقت حکمِ الٰہی پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے، اور اس عالم میں موت کا آنا بھی شہادت ہے، اور حیات کا اطاعت میں گزر جانا ہے۔ جبکہ حصولِ دنیا میں موت کی آمد ہلاکت کی علامت ہے۔ بعض روایات کی روشنی میں کسبِ معاش میں داعیِ اجل کو لبیک کہنا شہادت کی نشانی ہے۔

لہٰذا امام علیہ السلام نے اپنی زندگی کے اس آخری مرحلے میں بھی خود کسبِ معاش کے فریضے کو انجام دے کر امتِ مسلمہ سے کاہلی، سستی اور کام نہ کرنے کی فرسودہ رسم کو ختم کرتے ہوئے اس امرِ عظیم کو اطاعتِ خداوندی قرار دے کر ایک اور راہِ عبادت متعین فرمائی، تاکہ آنے والی نسلیں کسبِ دنیا کے بجائے کسبِ معاش کی جانب بھرپور توجہ فرمائیں۔

درحقیقت یہ حیاتِ طیبہ کا وہ سنہرا سفر ہے جسے بیک وقت سیاسی (بمعنی حکمت) اور سماجی (با اعتبارِ اجتماعیت) قرار دیا جا سکتا ہے۔

آپ کی زندگی، ولادت سے لے کر شہادت تک جن سلاطین اور حکمرانوں کے زمانے میں گزری ہے، وہ ایک بھیانک دور تھا، جس میں ظلم و ستم، دہشت و وحشت، جبر و استبداد، حیوانیت و سفاکیت اپنے عروج پر تھی۔ جس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ:

آپ کی ولادت کے وقت معاویہ ابن ابی سفیان (لعین) کا دورِ حکومت تھا، جو سن 60 ہجری میں اس کے مرنے کے بعد ختم ہوا۔

اس کے بعد اس کا بیٹا یزید (لعین) برسرِ اقتدار آیا۔

رئیس الواعظین مولانا کرار حسین مرحوم کا ایک جملہ بہت معنی خیز تھا:

"معاویہ، یزید کا بھی باپ تھا!"

سن 64 ہجری میں یزید واصلِ جہنم ہوا۔

65 ہجری میں اس کا بیٹا معاویہ ابن یزید اور مروان نے حکومت سنبھالی۔

65 سے 86 ہجری تک عبد الملک ابن مروان کا دور رہا۔

پھر سن 86 سے 96 تک ولید ابن عبد الملک کی حکومت رہی۔

اس کے بعد 96 سے 97 تک سلیمان ابن عبد الملک برسرِ اقتدار رہا۔

97 میں عمر ابن عبد العزیز کی حکومت آئی، مگر قوم اس کی مختصر منصفانہ روش کو برداشت نہ کر سکی، اور جلد ہی یہ دور ختم ہو گیا۔

پھر 100 ہجری میں یزید ابن عبد الملک حاکم بنا اور 105 ہجری میں ہشام ابن عبد الملک کی حکومت قائم ہوئی جو امام علیہ السلام کی آخری حیات تک جاری رہی۔

اور اسی ہشام نے آپ کو 114 ہجری میں زہرِ دغا سے شہید کرایا، جبکہ خود ہشام 123 ہجری میں واصلِ جہنم ہوا۔

اگر غور کیا جائے تو امام علیہ السلام نے ایسے ظالموں کے درمیان اپنی زندگی گزاری، جو نہایت پُرخطر تھی۔ اور ایسے حالات میں حکمت و سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی، سیاسی اور اجتماعی حیات کا مکمل عملی نمونہ پیش فرمایا۔

یہ طور پر گزارنا ہمارے لیے سیرت ہے کہ حالات جیسے بھی گزریں، حکومت کی سازشیں اور سوزشیں، ریشہ دوانیاں کچھ بھی ہوں، اسلام کی بالادستی اور قوانینِ اسلام کو اپنے اخلاق و کردار سے بلند کرتے رہنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر ظالم و جابر حکومت کو بھی امام کی ضرورت محسوس ہو، اور عزتِ اسلام خطرے میں ہو، تو کس طرح اسلام کی مدد کی جاتی ہے، ذرا کوئی آلِ محمدؐ سے دریافت کرے۔

نمونے کے طور پر یہ 75 ہجری کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں، جو اسلامی تاریخ سے محو نہیں کیا جا سکتا۔ سن 75 ہجری تک مسلمانوں میں رومی سکے رائج تھے، اور عیسائی افراد ان سکوں کے ذریعے اپنے عقائد کی ترویج کر رہے تھے۔ عبد الملک نے اپنے دورِ حکومت میں ان سکوں کو ترک کر کے ان پر کلمہ "لا الہ الا اللہ" لکھنے کا حکم دیا۔

جب اس کی اطلاع قیصرِ روم کو ملی تو اس نے روک دیا اور اس سلسلے میں رشوت بھی دینا چاہی، لیکن حکومت نے قبول نہیں کی۔ جس کے بعد اس نے دھمکی دی کہ اگر میرے سکوں کی شکل بگاڑ کر اس پر کلمہ لکھ دیا گیا، تو میں اسلام اور رسولِ اسلام کے بارے میں (نعوذباللہ) گالیاں لکھوا کر سکے رائج کر دوں گا۔

یہ سن کر عبد الملک کے ہوش و حواس اُڑ گئے، اور اس نے بعض مشیروں کے کہنے پر امام محمد باقر علیہ السلام کی جانب رجوع کیا۔ تو آپؑ نے فرمایا کہ سفیرِ روم کو روک لیا جائے، اور اتنے سکے اس انداز کے ڈھالے جائیں، جن کا سائز، انداز اور وزن معین ہو۔ آپؑ نے سب تفصیل سے فرمایا، اور حکم دیا کہ ان سکوں کے ایک طرف کلمۂ توحید "لا الہ الا اللہ" اور دوسری طرف کلمۂ رسالت "محمد رسول اللہ" اور سنِ ایجاد بھی لکھ دیا جائے، اور انہیں فوراً رائج کر دیا جائے، اور رومی سکوں کو لغو قرار دے دیا جائے۔

چنانچہ عبد الملک نے ایسا ہی کیا، اور جب یہ سارا کام مکمل ہو گیا، تو سفیرِ روم کو آزاد کر دیا گیا اور قیصرِ روم کو اطلاع دے دی گئی کہ اب حکومتِ اسلامی میں رومی سکے لغو ہو چکے ہیں، اور نئے سکے رائج ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اسلام کو کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں رہ گیا۔ اور یہ سارا کام امامؑ کے مشورے کے مطابق انجام دیا گیا۔

قیصرِ روم اس خبر کو سن کر دنگ رہ گیا اور اسے اندازہ ہو گیا کہ خانوادۂ رسالت کے علاوہ کوئی اس الٰہی سیاست کا وارث نہیں ہو سکتا۔

اگرچہ اس واقعہ میں بہت سے پہلو ہیں جن پر ایک تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے، مگر موضوع کا اختصار ملحوظِ نظر ہے، لہٰذا صرف نتیجے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امامؑ نے اپنے مشورے سے حکومتِ وقت کو ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی ہر اسلامی حکومت کو اس جانب متوجہ فرمایا کہ اگر اقتصادی نظام اسلامی قوانین اور حکومتِ اسلامی کے ہاتھوں میں رہے گا تو بڑا سے بڑا دشمن بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

آج امتِ مسلمہ کا شیرازۂ اتحاد اس طرح بکھر گیا ہے کہ پوری دنیا میں ڈالر، پاؤنڈ، یورو اور دیگر کرنسیوں کا بول بالا ہے، جبکہ اسلام کے نام پر حکومت کرنے والی نام نہاد حکومتیں مسیحیت اور یہودیت کے تلوے چاٹ رہی ہیں، اور اسلام کی بجائے اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کے لیے سفاکیت کے دیوتاؤں کے قدموں میں مالائیں چڑھا رہی ہیں۔

اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے، کیونکہ امامؑ نے جو مشورہ دیا تھا کہ کلمۂ توحید اور کلمۂ رسالت کو سکوں پر لکھ کر پوری دنیا میں رائج کر دو، اس کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔

اگر آج بھی امت بامِ عروج اور اقتصادی ترقی کی راہوں پر گامزن ہونا چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ امامؑ کی سیاسی اور سماجی خدمات سے مکمل استفادہ کیا جائے۔

ربِ کریم ہمیں سیرتِ معصومینؑ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ تمام موالیانِ حیدرِ کرارؑ کو ولادت باسعادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بہت بہت مبارک ہو ۔

حوالہ جات:

1. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ج 2، باب 30، حدیث دربارۂ سکہ سازی

2. علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج 46، ص 320-325

3. محمد باقر قرشی، حیاة الامام الباقرؑ

4. سید محسن امین، اعیان الشیعہ

5. ڈاکٹر علی شریعتی

6. نقوش عصمت علامہ ذیشان حیدر جوادی طاب ثراہ

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha