۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
شهادت امام موسی کاظم (ع)

حوزہ /مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، کربلائے معلہ، نجف اشرف، کوفہ، شام، بصرہ، کاظمین، مشہد و خراسان کی تاریخ کا نہایت سنجیدہ مطالعہ اور حالات و مناظر کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کل کے حالات کیسے تھے، آج کے حالات کیسے ہیں اور آنے والے کل کے حالات میں کیا کوئی تبدیلی ممکن ہے؟

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

قید ستم میں ساری جوانی گزر گئی

دیکھا نہ رات کب ہوئی اور کب سحر گئی

کس بے کسی میں موسیٰ کاظمؑ کو موت آئی

مرنے کے بعد طوق سے حاصل ہوئی جُدائی

ظالم نے پُل پہ ڈالا امامٍ غریب کو

تربت میں بھی رلایا خدا کے حبیبؐ کو

مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، کربلائے معلہ، نجف اشرف، کوفہ، شام، بصرہ، کاظمین، مشہد و خراسان کی تاریخ کا نہایت سنجیدہ مطالعہ اور حالات و مناظر کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کل کے حالات کیسے تھے، آج کے حالات کیسے ہیں اور آنے والے کل کے حالات میں کیا کوئی تبدیلی ممکن ہے؟ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الفرجک الشریف کے ظہور کے لیے ماحول و حالات سازگار ہوگا جس کے لیے محراب و منمبر سے دعائیں ہوتی ہیں کہ امامؑ کے ظہور میں تعجیل فرما اور امام ع کے اعوان و انصارمیں شمار کر؟ بہر کیف کیا ایسا ممکن ہے؟

سن اا؍ ہجری بعد وفاتٍ حضرت محمد مصطفٰی ﷺ، آپؐ کی پارہ جگر، شہادت حضرت فاطمتہ الزہؑرا، 40؍ ہجری، مسجد کوفہ میں شہادتٍ امام امیرالمومنینؑ، 50؍ ہجری، امام حسن مجتبٰیؑ کے جنازے پر تیروں کی بارش اور پھر 10 محرم الحرام، 61؍ ہجری کا دل شکستہ، جگر سوز سانحہ کربلا جس میں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ دوست و احباب کو تین روز کا بھوکا پیاسا بڑی بے رحمی سے شہید کیا گیا، سر تن سے جدا کیا، لاشوں کو گھوڑے کے ٹاپوں سے پامال کیا گیا، سیدانیوں کو بے مقنہ و ردا شہر شہر، کوچہ کوچہ اور بازاروں میں گُھمایا گیا اور تاریخ کے ورق نے ایک جملہ قید کیا کہ "کوفیوں نے دھوکا دیا۔" جبکہ آج بھی وہ آفاقی و ابدی صدا "حل من ناصر ینصرنا" گونج رہی ہے، حضرت قاسمؑ کا فرمانا، "موت شہد سے زیادہ شیریں" حضرت اصغرؑ کے حلق پر تیر اور ہونٹوں پہ تبسم، یہ سب فقرے اور منظر موت کو حیات بخشتے ہیں۔ آج بھی انسانیت، اسلام، ایمان، راہٍ خدا اور روضہ اقدس کی حفاظت کی خاطر شہادتیں پیش کئے جا رہے ہیں اور بعض افراد ان قربانیوں سے آشنا نظر نہیں آرہے ہیں اور جن پر قیادت فرض ہے کیونکہ وہ وارث رسولؐ ہیں وہ بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ بتاریخ 7؍ صفر المظفر 128 ہجری بمطابق 745 عیسوی یوم شنبہ بمقام ابواٌ جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے وہاں پیدا ہوئے۔ (انوار نعمانیہ، صفحہ 126؛ شواہد النبوت، صفحہ 192؛ روضتہ الشہداء، صفحہ 436)۔ آپ کے والد ماجد امام جعفر الصادق علیہ السلام اور والدہ ماجدہ، حمیدہ بربریہ تھیں۔ آپؑ کی والدہ گرامی کی علمی عظمت سے آشنائی لازم ہے۔ امام محمد باقرؑ نے آپ سے پہلی ہی ملاقات میں آپ کی تعریف کی اور بعد میں اپنے بیٹے امام جعفر الصادقؑ کا نکاح آپ سے کر دیا۔ آپ اتنی عالمہ و فاضلہ تھیں کہ حضرت امام جعفر صادقؑ نے عورتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ زوجہ حمیدہ سے شرعی احکام سیکھیں۔ امام صادق علیہ السلام حج کے بعض مسائل کے لیے عورتوں کو اپنی زوجہ سے دریافت کرنے کا حکم دیتے تھے۔ وقت شہادت بے نمازی کی شفاعت نہ کرنے کی امام صادقؑ کی حدیث کو آپؑ کی زوجہ اور امام موسیٰ کاظمؑ کی والدہ گرامی حمیدہ ہی نے روایت کیا ہے۔ شیخ عباس قمی رحمہ فرماتے تھے کہ حضرت حمیدہ عالمہ اور فقیہہ تھیں۔

امامؑ کی صفات و خصوصیات، فضیلتیں، عظمتیں و کمالات، کوئی بھی بلندی، شرف ایسی نہیں ہے جو امام کاظمؑ کی ذات میں نہ پائ جاتی ہو۔ آپ کے بعض صفات جیسے علمی فیوضیات، زہد، جود و سخا، لوگوں کی حاجت روائی، اللہ کی اطاعت اور عبادت، حلم، غصہ کو پی جانا، مکارم اخلاق، سخاوت و حُسن خلق، صبر و تحمل، صمت و وقار اور عفو و اصلاح، قول و خیر (لوگوں کو امر با لمعروف کرنے کی شفارش فرماتے) اور آپؑ کی شکر نعمت پر پُر مغز تحریر کرتے لیکن تاریخی حالات پر روشنی ڈالنا مقصود ہے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ابھی صرف چار سال کے تھے کہ بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ (132 ہجری) ہو گیا۔ بنی امیہ کی عرب نسلی حکومت نے ہمیشہ ظلم و ستم کو روا رکھا تھا اور عوام کے حقوق کو با آسانی پامال کر رہے تھے۔ عوام پریشان ہو چکی تھی۔ بنی امیہ کی حکومت ابو مسلم خراسانی کی مدد سے اس حکومت کو تہہ کر دی گئی اور ابو العباس سفاح عباسی کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور منتقل ہو گئی۔

یہ عمل کو ظاہر کرنا دلچسپ اور قابل تنقید ہوگا کہ حکومت بنی عباس نے حکومت کے بجائے خلافت اور جانشین رسولؑ کی قبا اپنے جسم پر کَس لی۔ یہ حکومت بھی ظلم و ستم کرنے میں کم نہ تھی۔ البتہ بنی امیہ کی حکومت زیادہ عرصے ٹک قائم نہ رہی جبکہ بنی عباس 651 ہجری تک حکومت پر ڈٹے رہے یعنی 524 سال تک ان کے ہاتھوں میں حکومت رہی۔

ساتویں امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام کی زندگی جن حکمرانوں کے دور میں گزری ان کے نام ہیں، وہ ہیں منصور، ہادی، مہدی اور ہارون۔ 136 ہجری میں ابو العباس سفاح عباسی کا انتقال ہو گیا اور اس کا بھائی منصور دوانیقی اس کی جگہ حکمراں ہوا۔ 158 ہجری میں منصور ہلاک ہوا تب اس کا بیٹا، مہدی جانشین مقرر ہوا۔ 169 ہجری میں مہدی کی موت ہوئی۔ اس کی جگہ ہادی تخت نشین ہوا۔ 170 ہجری میں ہادی کیفر کردار کو پہنچا اور ہارون بادشاہ بن گیا۔ اس وقت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی عمر مبارک 42 سال تھی۔

امامؑ کے حیات طیبہ کے دوران ان چاروں حکمرانوں نے ظلم ڈھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھا۔ ہمیشہ آپؑ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے رہے۔ منصور سے لیکر ہارون تک ہر ایک نے امامؑ پر ظلم و ستم ڈھائے۔ کثیر تعداد میں لوگ قید کئے گئے، قتل کئے گئے، مال و اسباب لوٹ لیے گئے، صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کر دیئے گئے، شہر کو زنداں میں تبدیل کر دیا گیا۔ آلٍ رسولؐ کو ہر طرح سے ستایا گیا۔ یہ سبھی خونخوار، سفاک، مکار، بے وفا، حریص و حاسد، دھوکےباز، فریبی، عیاش، دولت پرست تھے۔ حقوق و آزادی سلب کر لی تھی۔ اس پُر آشوب ماحول، ظلم و ستم کے دور میں بھی امام عالی مقام بندگانٍ خدا کی ہدایت فرماتے رہے اور اپنے چاہنے والوں کی اصلاح فرماتے رہے۔ آپؑ نے ہدایت کی شمع روشن رکھی۔

مہدی کے عہد حکومت میں امامؑ کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ آپؑ علم و دانش، فضیلت اور تقویٰ کے آسمان پر نیر تاباں بن کر چمک رہے تھے اور ساری کائنات اسی مہر درخشاں کی ضیاء باریوں سے مستفید ہو رہی تھی۔ لوگ گروہ در گروہ آپ کے گرویدہ ہوتے جا رہے تھے اور آپ کے سر چشمۂ علم و دانش، فہم و ادراک سے بقدر طرف استفادہ کر رہے تھے اور اپنی علمی و معنوی تشنگی بُجھا رہے تھے۔ محدثین و علماء کرام کا متفقہ ماننا ہے کہ امامؑ کی مقبولیت کی وجہ سے خلافت اور حکومت کو زبر دست خطرہ بن گیا تھا۔ مقبولیت کے مد نظر اس نے امامؑ کو مدینہ سے بغداد لاکر قید کر دیا۔

رہائی ملی تو پھر لوگوں کی ہدایت فرماتے رہے۔ اہل علم کے علمی و ثقافتی معیار کو ہر روز بلند فرماتے رہے۔ آخر کار ملعون ہارون رشید نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو سندی بن شاہک کے ذریعے زہر دلواکر شہید کرا دیا۔ زہر کھانے کے بعد آپ تین روز تک تڑپتے رہے، یہاں تک کے آپ شہید ہو گئے۔ (نور الابصار، صفحہ 137)۔ آپ کو نہایت مظلومی کی حالت میں بتاریخ 25؍ رجب المرجب, 183 ہجری، یوم جمعہ کو شہید کر دیا گیا۔ (اخبارالخلفاء)۔ جب آپ کی عمر 55 سال کی تھی (شواہد النبوت، صفحہ 192؛ نورالابصار صفحہ 137)۔ اور آپؑ کے جسم اطہر کو ہتھکڑی و بیری سمیت بغداد کے پُل پر ڈال دیا گیا۔

یہ نہایت حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ 61 ہجری سے لیکر 183 ہجری یعنی 122 سال میں بھی وقت کے امام کو یک و تنہا سنگین حالات اور ظالم کے ظلم و ستم سے آزادی دلانے اور قربانی پیش کرنے آگے نہیں آئے۔ آپؑ کو کاظمین میں دفن کیا گیا۔ ایک با پھر سے کوفیوں کی وفاداری پر انگلی اُٹھنے لگی۔ کیا یہ انگلی بڑے صغیر کے لوگوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے؟

آج قمری کیلنڈر کے مطابق 1262 ویں اور انگریزی کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 1225 ویں یوم شہادت بڑے رنج و غم کے ماحول میں پوری دنیا میں منائ جا رہی ہیں۔ عزا خانے میں علماء کرام و ذاکرین منمبر افروز ہیں۔ سوز خوانی، مرثیہ خوانی، پیش خوانی، نوحہ خوانی، ماتم اور سینہ زنی دکھائی دے رہے ہیں۔ اب تو یہ سب 1400 سال سے جاری و ساری ہے۔ یہ عملی ہے یا رسمی؟ وارث رسول ﷺ و وارث ذوالفقار کا ظہور قریب ہے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے اقوال آفتاب علم کی شعاعیں ہیں جو بندٍ گان خدا کے لیے ہدایت اور مستقل مشعل راہ ہیں۔ آپ کی ہدایتیں صرف ایک پہلو کو لیے ہوئے نہیں ہیں بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں، کمال مطلق کی ہدایت کرتے ہیں۔ آپ کے چند اقوال ذریں زندگی کے لیے راہ نما قرار پا سکتے ہیں اگر اپنی اپنی زندگی میں عمل میں لائیں۔ "غور و فکر کرنا نصف راحت ہے اور لوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے کیونکہ لوگ تمھارے عیوب سے آگاہ کریں گے اور یہ لوگ دل سے تمھارے مخلص ہیں۔"، "وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے (ہمارا دوست نہیں ہے) جو اپنی دنیا کو دین کے لیے ترک کر دے یا دین کو دنیا کے لیے ترک کر دے۔"، "صالح افراد کے ساتھ اٹھنا اور بیٹھنا فلاح اور بہبود کی طرف دعوت دیتا ہے۔"، "مخلوقات کا نصب العین اطاعت پروردگار ہے۔"، "عالم کی معرفت اس کی عقل کے ذریعے سے ہے۔"، "تمھارے نفس کی قیمت تو بس جنت ہے۔ بس اپنے نفس کو جنت کے علاوہ کسی اور سے نہ فروخت کرو۔" اور "ہمارے شیعوں کا تقویٰ کی ضرب المثل ہونا چاہیے یہاں تک کے کوچہ و بازار میں ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کی باتیں ہوں۔"

اے خدایا! توفیق عطاء فرما کہ ہم امام علیہ السلام کی سیرت کو اپنا سکیں اور آپؑ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچا سکیں۔ رما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و اٍلیہٍ اُنیب۔

طاعت کا اہل بیتؑ کی اک جام مے پلا

پیتے تھے جس کو جھوم کے عمارؑ باوفا

صفین میں جو مالک اشترؑ نے پی وہ لا

مختارؑ نے جو عزم سے پی تھی مے وہ لا

قنبرؑ کو مومنین کا سلطان بنا دیا

فضہؑ کو جس نے بولتا قرآں بنا دیا

تبصرہ ارسال

You are replying to: .