۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ/ اگر حضرت عباس علیہ السلام کے کردار، صفات، کرامات اور فضیلت پر لکھی گئیں کتابوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہماری نظر سے گزرتا ہے کہ آپؑ کی عظمت و کمالات  کے لیے آپ کے کمالٍ ایمان، وفا، علم و فقہ، طلعت قمر، عصمت و عدالت، تعلیم و تربیت، زہد و تقویٰ، صبر و شکر،  شجاعت، علمداری،  تاریخ علم، خصوصیات علم، اہمیت علم، سقایت، معراج سقایت، وراثتی صفات، اور پاک طینت پر لا تعداد کتابیں موجود ہیں جس کا مطالعہ ہمارے لیے ضروری ہے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی | اگر حضرت عباس علیہ السلام کے کردار، صفات، کرامات اور فضیلت پر لکھی گئیں کتابوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہماری نظر سے گزرتا ہے کہ آپؑ کی عظمت و کمالات کے لیے آپ کے کمالٍ ایمان، وفا، علم و فقہ، طلعت قمر، عصمت و عدالت، تعلیم و تربیت، زہد و تقویٰ، صبر و شکر، شجاعت، علمداری، تاریخ علم، خصوصیات علم، اہمیت علم، سقایت، معراج سقایت، وراثتی صفات، اور پاک طینت پر لا تعداد کتابیں موجود ہیں جس کا مطالعہ ہمارے لیے ضروری ہے۔

علماء کرام و ذاکرین حضرات سے سُن کر ایک دو گوشہ پر معلومات حاصل ہو سکتی ہیں لیکن وسعت عظمت عباسؑ پر مکمل آشنائی نا ممکن ہے۔
آپؑ آئمہ طاہرین کی فقیہ اولاد میں ایک زبردست فقیہ تھے۔ (تنقیح المقال، صفحہ 128) اور یہ تو ہر فرد جانتا ہے کہ خاتونؑ جنت، بی بی فاطمہؑ زہرا نے عباسٍؑ باوفا کو اپنا فرزند فرمایا ہے (اسرار الشہادۃ، صفحہ 340)۔
حضرت عباس علیہ السلام کی وراثتی جرآت و شجاعت پر امیر المومنینؑ کا حُسنٍ انتخاب خود ہی ایک سند ہے۔ عباسؑ بہادر نہ ہوتے تو جناب عقیلؑ کی جستجو بے سود و غیر مفید قرار پاتی۔ عباسؑ شجاع نہ ہوتے تو علیؑ کا انتخاب بے معنی ہو جاتا۔ بہادر بیٹے کی تمنا کرنا اس بات کی سند ہے کہ اس عقد کے بعد جو فرزند پیدا ہوگا وہ یقینی طور پر شجاع اور دلیر ہوگا۔
حضرت عباسؑ ایک شخص کا نام نہیں ہے بلکہ آپؑ تو ایک فکر، انقلاب، علیؑ کے دلبند اور فاطمہ الزہرا کے فرزند کا نام ہے:
مرنے جینے کا سبق سکھلا دیا عباسؑ نے
جن کے دم سے آج بھی معجزات ظاہر ہوتے ہیں
شجاع و ہمت کے علاوہ جو اوصاف آپؑ کو بطور وراثت ملے تھے ان کی طرف ایک اجمالی اشارہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو حمزہ شمالی کی روایت زیارت حضرت ابوالفضل کے ذیل میں فرمایا ہے :
"سلام ہو آپ پر اے علیؑ کے فرزند! جو اسلام میں ساری قوم سے اوّل۔ ایمان میں سب سے مقدم۔ دین الٰہی میں سب سے مستقیم اور اسلام کے سب سے بڑے محافظ تھے۔"
حضرت عباسؑ کی ہیبت کا عالم دیکھ کر
آئیں جب فوجیں مقابل میں ہراساں ہوگئیں
انسان کی عظمت و جلالت کے بے شمار پیمانوں میں ایک عظیم پیمانہ وہ تاثرات بھی ہیں جو اس کےمرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے میں جو تاثرات ہوتے ہیں وہ بڑی حد تک حقیقت کا آئینہ دار اور شخصیت کے جذب و کشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان تاثرات کو الگ الگ شخصیتوں کے اعتبار سے دیکھا جاسکتا ہے۔ تجزیہ و تفصیل کے بعد ہی یہ اندازہ ہو سکتا کہ کس اثر لینے والے کی کیا منزل تھی اور اس کے تاثرات کا کیا اندازہ تھا؟
حضرت عباس علمدارٍ باوفا کے سلسلے میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے تاثر غور فرمائیں۔ ارباب مقاتل کا بیان ہے کہ حضرت عباسؑ کی آخری صدا آتے ہی امام حسینؑ کی زبان اقدس پر یہ فقرات آئے "عباس! کمر ٹوٹ گئی۔ تدبیر کی راہیں بند ہو گئیں۔"
تاریخ اسلام میں یہ فقراء ایک مرتبہ حضرت علیؑ نے حضرت جعفر طیار کی شہادت پر استعمال کیا تھا اور ایک مرتبہ امام حسینؑ نے کربلا میں استعمال کیا ہے۔ حضرت علیؑ کے اس فقرے کو صرف منہاج الدموع، صفحہ 330 نے نقل کیا ہے اور امام حسینؑ کے اس فقرہ کو بیشتر ارباب مقاتل نے نقل کی ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی حضرت عباس علمدار وفا کے مصائب پڑھے جاتے ہیں تو علماء و ذاکرین منمبر سے یہ ابدی فقرہ کا ذکر ضرور کرتے ہیں اور عزاداران عباسؑ سن کر گریہ و زاری کرتے ہیں۔
جب امام حسین علیہ السلام کا ذکر ہوا ہے تو شریکتہ الحسین کا ذکر لازمی ہے۔ جب امام حسینؑ رخصت آخر کو خیمہ میں آئے تو حضرت زینبؑ اپنے بھائی کو عابد بیمار کے پاس لیکر آئیں۔ امام حسینؑ نے ایک شہادت کی خبر سنائی۔ بیمار کربلا نے پوچھا بابا جان! میرا چچا عباس کہاں ہے؟ امام حسینؑ چند لمحے خاموش رہے اور آخر میں فرمایا۔ "بیٹا وہ بھی شہید ہو گئے" زینبؑ، عابد بیمار اور امام حسینؑ اور اب راقم الحروف نے بھی تڑپ کر آنسو بہائے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کا اس شدت سے گریہ کرنا حضرت عباسؑ کی عظمت و جلالت کی بہترین دلیل ہے۔
جناب زینبؑ کا فقرہ: مشہور و معروف روایت ہے کہ جناب زینبؑ کو حضرت عباس کے رخصت ہو کر میدان میں جانے پر فرمایا "میرے بابا نے سچ کہا تھا"
دوستان را کجا کنی محروم
توکہ بادشمنان نظرداری
حضرت عباسؑ کو بزرگان خاندان سے وراثت میں ملنے والے اوصاف و کمالات میں علمداری بھی ہے۔ علم، نشان، پرچم، رایت، لواء، بند، عقاب ہم معنی لفظیں ہیں جو مختلف زبانوں میں مختلف حالات کے اعتبار سے استعمال ہوتی ہیں۔ علمداری کی عظمت کا صحیح اندازہ اس وقت ممکن ہے جب قوموں کی تاریخ میں خود عَلم اور پرچم کی عظمت کا اندازہ لیا جائے گا۔
پرچم کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ اس سے پرچم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور پرچم بلند کرنے والے کی مزاج اور اس کی افتارٍ طبع کا پتہ چلتا ہے۔ آج دنیا کے ہر ملک، ہر قوم اور ہر علاقہ میں عباسؑ کے عَلم کی سر بلندی اس بات کا واضح اعلان ہے کہ کربلا میں فتح عباسؑ ہی کی ہوئی ہے۔ اور عباسؑ اس فاتح کا نام ہے جس کی فتح کا کوئی علاقہ معین نہیں ہے۔ دنیا کا ہر ملک اور ہر خطہ اس کے لیے مفتوحہ میں شامل ہے۔
عاشقانٍ سے گزارش ہے حضرت عباس علیہ السلام کی صفات کا مطالعہ کریں، اپنائیں اور علم میں لائیں، یہ وقت کی ضرورت، دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے۔ وہ مظہر العجائب اور معجز نما کے لخت جگر، قمر بنی ہاشم، فخر عجم، زینت عرب، حمزہؑ کا رعب، شوکت جعفرؑ طیار، علیؑ کی آن، حسنؑ کی شان، حسینؑ کی جان وفا کی عظمت کا نشان، صف شکن، تیغ زن، شجاعت کے تاجدار، کرامت کے سردار، عبادت گزار، صبر کے پیکر، فرزند صاحب ذو الفقار، برادر شہؑ ابرار، ام البنین کے لال، حیدرؑ کا جلال، زینبؑ کا آسرا اور علمدار لشکر دشت کربلا ہیں۔ آپؑ کی تاریخ ولادت 4 شعبان، 26 ہجری اور مقام ولادت مدینہ منورہ ہے۔ 1419 ویں یومٍ ولادت باسعادت پورے شان و شوکت اور تزک و احتشام سے منائی جا رہی ہیں اور اس سلسلے سے جگہ جگہ اور امام بارگاہوں، گھروں اور ہالوں میں محفلوں کا اہتمام و انعقاد کئے جا رہے ہیں۔ سبیلیں لگائ گئیں ہیں۔ غرباء، محتاجوں اور مسکینوں میں مٹھائیاں اور کھانے کے پیکٹ تقسیم کئے جا رہے ہیں۔
ہم سب کے آقا، چھوٹے حضرت، پیکر وفا، حضرت عباس علیہ السلام کے مراتب عالیہ کا انداہ لگانے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ان شہدائے کربلا میں علمدار کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر تو آئمہ معصومین علیہم السلام سلام بھیجتے رہے، جن کی زیارت کا حکم وہ اہل ایمان و مودت کو دیتے رہے اور جن کی زیارت میں یہ کلمہ بھی آیا کہ
"اے امام علئ کے فرزند، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔" علمدار حسینی سے کرامات عظیمہ کا ظاہر ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ یہ تو ان کے عنداللہ مراتب عالیہ اور درجات رفیعہ کا معمولی تقاضا ہے۔ کیونکہ ان کی کرامت سے نہ صرف یہ کہ آپؑ کے برادر، سید الشہداء کی عظمت و حقانیت ظاہر ہوتی ہے بلکہ پورے خاندان رسالت و امامت کی عظمت و حقانیت کا ظہور ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ عزاداران شہدائے کربلا، زائرین کرام، مقررین، ذاکرین، خطبا اور علماء کرام، خدام صاحبان کے مطابق روضہ علمدار سے جتنی کرامات آئے دن ظاہر ہوتی رہتی ہیں اتنی خود سرکار سید الشہداء کے روضہ مبارک سے ظاہر نہیں ہوتیں۔
حضرت عباس علمدار کے کردار کا کیا کہنا۔ عبداللہ ابن ابی محل جناب ام البنین کا بھتیجہ تھا جس کا شمار رؤسائے کوفہ میں ہوتا تھا۔ ابن زیاد سے امان لکھوا کر اپنے غلام کرمان کے ہاتھوں کربلا میں جناب عباسؑ کو بھیجوایا تھا۔ جناب عباس نے جو اس امان نامے کا جواب دیا ہے وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے ماموں زاد بھائی سے ہمارا سلام کہہ دینا اور یہ کہنا کہ ہم کو اس امان نامہ کی ضرورت نہیں۔ امان اللہ خیر من امان ابن سمیہ۔ یعنی ابن زیاد کی امان سے اللہ تعالٰی کی امان کہیں زیادہ ہہتر ہے۔ یہ ہے عظیم کردار کی بات۔ شب عاشور بھی امام حسین علیہ السلام نے سبھی رفقاء کے ساتھ عباسؑ پر سے بھی بیت اُٹھا لی تھی لیکن حضرت عباسؑ نے کہا "خدا ہمیں وہ روزٍ بد نہ دکھائے کہ ہم آپ کے بعد زندہ رہیں۔ ستر بار بھی موت آجائے اور زندہ کئے جائیں تو ہمارا یہی ہوگا۔" اسی طرح روز عاشور بھی آپ کو اس کا موقعہ اور امام عالی مقامؑ نے یہ فرما کر دیا۔ "اگر عباس تم دشمن کے لشکر میں چلے گئے تو زینب کے سر سے رٍدا اتارنے کی کسی میں جرآت نہ ہوگی۔ لیکن جناب عباسؑ نے اس وقت بھی عجیب جواب دیا۔ "آقا آج ہی کے دن کے لیے تو والدہ ماجدہ نے میری پرورش کی تھی اور شیر خدا نے بھی یہ وعدہ لیا تھا کہ اپنے بھائی حسینؑ کا ساتھ نہ چھوڑنا۔"
حضرت عباس علیہ السلام نے جیسا نامور پدر بزرگوار پایا اس کے مقام کے تعین میں 1384 سال علماء، حدیث، تفسیر، کلام، فقہ، ادب و حکمت کوشاں ہیں اور ان کا سفر ابھی منزل کی تلاش میں ہے۔ حضرت عباسؑ کو اپنے بےنظیر باپ سے بہت صفات وراثت میں ملیں۔ ان صفات نمایاں ترین صفات قائد کے ساتھ حیرت ناک فداکاری اور بے مثال اطاعت و جاں نثاری تھیں کہ حضرت علی علیہ السلام جس طرح رسولٍ اکرم ﷺ پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ حضرت عباسؑ اسی طرح امام حسینؑ کی قیادت میں اپنی زندگی کو قربان کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔
علیؑ اور ابن علیؑ عباسؑ کا کردار میں یکسانیت ہے۔ علیؑ شمع رسالت کے پروانے اور عباسؑ شمع امامت کے محافظ، دونوں نے اپنی زندگیوں میں رسالت اور امامت کو دشمنانٍ اسلام کے شر سے محفوظ رکھا۔ بیٹا تو اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ امامت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے دونوں بازوؤں کو کٹوا لیا اور امامت کی شمع پر جان نثار کر دی۔
دریائے وفا کے شناور ہیں عباسؑ
لاکھوں میں ہیں بے مثل دلاور عباسؑ
ٹل جائے ہر ایک بلا بہ فیض شبیرؑ
ہو جائیں اگر کسی کے یاور عباسؑ
حضرت عباس علمدار کی شخصیت کو فضیلت کے آئینے میں دیکھنے کے لیے آپؑ کے القاب کے معنی و مفہوم جاننا ہوگا۔ پہلا لقب 'ابوالفضل' جس کا مطلب ہے بہت سی فضیلتوں کا حامل۔ دوسرا لقب ہے 'ابوالقریہ' جس کا معنی ہے سقائ کرنا۔ آپؑ کے مشہور القاب میں 'قمر بنی ہاشم' ہے۔ چونکہ آپؑ کی شکل تاریک شب میں مثل چاند چمکتی تھی۔ آپؑ کا چہرہ دلکش اور صورت زیبا تھی۔ 'عبد صالح' لقب کے حوالے سے مقاتل السطابین میں روایت ہے کہ "بین عینیہ اثر السجود" ان دونوں آنکھوں کے درمیان سجدہ کا نشان تھا۔ آپ کی زیارت کی السلام علیک ایھا العبدالصالح المطیع اللہ و رسولہ و لامیرالمومنین والحسنؑ والحسینؑ۔ 'المواس' یعنی امام حسین پر قربان ہوئے اور اپنے دونوں بازو کٹائے۔ آپؑ کو الفادی' بھی کہتے ہیں جس کا مطلب ہے فدا کار اور یہ کربلا میں اظہر المنشمس ہے۔
حضرت عباس علمدار کو 'اطامی' لقب سے بھی جانتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں حمایت کرنے والا اور پشت پناہی کرنے والا۔ 'الواقی' جس کا معنی و مطلب کربلا کے میدان میں حضرت عباسؑ کے ہر عمل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کا معنی ہے نگہبان و محافظ۔ عباسؑ جہاں لشکر کے سردار، پیاسوں کے شقا ٕ تھے وہاں مخدرات عصمت کے خیموں کے محافظ تھے۔ 'الساعی' کا لغوی معنی ہے خدمتگار۔ آپؑ امام حسین علیہ السلام کی مخدرات عصمت اور بچوں کی خدمت کرنے کی ہمیشہ تلاش و جستجو میں رہتے تھے اور جب تک خدمت انجام نہیں دے دیتے تھے تب تب تک انھیں چین و سکون نہیں آتا تھا۔
عاشقانٍ حضرت عباس علمدار کے لقب 'باب الحوائج' سے بخوبی واقف ہیں لیکن کیا واقعی میں یہ ان کے کردار سے عیاں ہے۔ جب عزادار اس سطر کو پڑھیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ آخر آپؑ کو باب الحوائج کیوں کہتے ہیں؟ جس طرح سے حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ رحمت العالمین کے دربار کے باب الحوائج تھے اسی طرح حضرت عباسٍ باوفا سید الشہداء، حضرت امام حسین علیہ السلام کے دربار کے باب الحوائج تھے۔ آپؑ امام حسین علیہ السلام کے نمبر ون وزیر تھے۔ تمام امورٍ زندگی اور معاملاتٍ ملی عباسؑ کے توسل سے طے کئے جاتے تھے۔
گیارہواں و آخری لقب 'حامل اللوا ٕ' کا معنی ہے لائق۔ اس خوبی کو حضرت عباسؑ میں ہر موقع پر ان کے کردار وعمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ روز عاشور امام حسین علیہ السلام کی اپنی گنتی کی فوج کا مقابلہ ایک بےشمار لشکر سے تھا۔ عَلم اپنے بھائی، عباسؑ کو دیا جو سب سے قوی اور بہادر تھے۔ حضرت عباسؑ قلب لشکر میں عَلم لے کر کھڑے ہوگئے اور اپنے بھائی کی نصرت میں اپنی جان قربان کر دی۔ اس فداکاری سے آپؑ کو علمدارٍ دشت کربلا بھی کہتے ہیں۔
دریائے وفا کے شناور ہیں عباسؑ
لاکھوں میں ہیں بے مثل دلاور عباسؑ
ٹل جائے ہر ایک بلا بہ فیض شبیرؑ
ہو جائیں اگر کسی کے یاور عباسؑ
حضرت عباسؑ صاحبٍ علم و عرفان اور صاحب روحانیت و معنویت بھی ہیں۔ ان کے فضائل و کمالات اور ان کے مراتب و مناقب کے بارے میں مختلف معصومین کی شہادتیں موجود ہیں۔ اُن کی عظمت و برتری کا مسلم ہونا یقینی ہے اور انھیں مالک کی طرف سے کرامت و امتیاز کا عطا ہونا عجیب و غریب بات نہیں ہے۔ واقعۂ کربلا سے آج تک کی تاریخ پر نظر رکھنے والا انسان جانتا ہے کہ عباسؑ امام علی علیہ السلام کی نماز شب کا ثمر ہے۔ اور کربلا کا خاص اہتمام و انتطام بھی۔ ان کا صبر اور ہر عمل امام حسین علیہ السلام کی فکر و پیغام کا مکمل ترجمان ہے۔ عزادار علمدار کے علم مبارک اُٹھائیں اور ان کے کردار کو اپنائیں یہی حقٍ وفا سوگورانٍ باوفا حضرت عباسؑ کی ادائیگی ہے۔
جب زبان پر کبھی آجاتا ہے عباسؑ
دیر تک ہونٹوں سے خوشبوئے وفا آتی ہے!!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .