۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
News ID: 396602
13 فروری 2024 - 20:09
تصاویر/ مراسم عزاداری شب اربعین حسینی در حرم امام حسین(ع)

حوزہ/حضرت امام حسین علیہ السلام ابو الائمہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام و سیدۃ النساء حضرت فاطمتہ الزہراؑ کے فرزند اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی (ص) و جناب خدیجتہ الکبریٰ کے نواسے اور شہیدٍ مظلوم امام حسن علیہ السلام کے قوتٍ بازو تھے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

مصداق حرف آیۂ تطہیر ہیں حسینؑ

مرآۃ لااٍلہ کی تنویر ہیں حسینؑ

آئینہ استعانت صبر و صلٰوۃ کا

آیات بینات کی تفسیر ہیں حسینؑ

حضرت امام حسین علیہ السلام ابو الائمہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام و سیدۃ النساء حضرت فاطمتہ الزہراؑ کے فرزند اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی ﷺ و جناب خدیجتہ الکبریٰ کے نواسے اور شہیدٍ مظلوم امام حسن علیہ السلام کے قوتٍ بازو تھے۔ آپ کو ابوالائمتہ الشافی کہا جاتا ہے، کیونکہ آپ ہی کی نسل سے نَو امام متولّد ہوئے ہیں۔ آپ بھی اپنے پدرٍ بزرگوار اور برادر عالی وقار کی طرح معصوم و منصوص افضلٍ زمانہ اور عالم لدُنّی تھے۔ (سید نجم الحسن، چودہ ستارے، صفحہ 212)

دہر میں آدم و حواؑ کی رفاقت ہے حسینؑ

صبرٍ ایّوبؑ و سلیمانؑ کی قدرت ہے حسینؑ

فاتحٍ خندق و خیبر کی ریاضت ہے حسینؑ

گلشنٍ احمدؐ مرسل کی نصرت ہے حسینؑ

سید، سبط اصغر، شہید اکبر، سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت بتاریخ 3 شعبان 4 ہجری بمقام مدینہ منورّہ بطنٍ مادر سے آغوش مادر میں آئے۔ (شواہد النبوت، صفحہ 13؛ انوار حسینیہ، جلد 3، صفحہ 43؛ صافی، صفحہ 298؛ جامع عباسی، صفحہ 59)

امامٍ حسین علیہ السلام کی صفات حسنہ کی مرکزیت پر فکر و احساس کی شدت و خوشبوئے شادمانی کا جلوہ تحریر سے خوشنودیٔ فاطمتہ الزہؑرا حاصل کرنا کے لیے ان جملوں پر تفکر کریں۔ یہ شعر پیش خدمت ہے:

سیرت میں خُلق سرورٍ کونین کی شبیہ

صورت میں بھی حضور کی تصویر ہیں حسینؑ

امام حسین علیہ السلام پنج تن کے آخری فرد ہیں۔ آپؑ اپنی ولادت کے بعد سرورٍ کائنات، تاجدار انبیاء، سید الانبیاء کی پرداخت اور آغوش مادر میں رہے اور کسب صفات کرتے رہے۔ بعدٍ شہادتٍ آنحضرتؐ اور والدہ ماجدہؑ، حضرت علیؑ نے تعلیماٍ الٰہیہ اور صفاتٍ حسنہ سے بہرور کیا۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسنؑ کے سَر پر ذمہ داری عائد ہوئ۔ امام حسنؑ ہر قسم کی استمداد و استعانت خاندانی اور فیضان باری میں برابر کے شریک رہے۔ شہادتٍ امام حسنؑ کے بعد امام حسین علیہ السلام صفات حسنہ کے واحد مرکز بن گئے۔یہی وجہ ہے کہ آپ میں صفاتٍ حسنہ موجود تھے اور آپ طرز حیات میں محمدؐ، علیؑ، فاطمہؑ اور حسنؑ کا کردار اظہر المنشمس تھا۔ کتب مقاتل میں ہے کہ جب امامٍ حسینؑ وعدۂ طفلی نبھانے کے لیے یومٍ عاشور، 10 محرم الحرام، 61 ہجری کو رخصت آخر کے لیے خیمہ میں تشریف لائے تو شریکت الحسین، جناب زینبؑ نے فرمایا تھا کے اے خامسٍ آلٍ عبا آج تمھاری جُدائ کے تصور سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد مصطفٰی ﷺ، علی مرتضٰی، فاطمتہ الزہؑرا و حسن مجتبٰیؑ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں۔

سیراب کر دیا چمن دینٍ مصطفٰیؐ

تاحشر روحٍ نعرۂ تکبیر ہیں حسینؑ

نہ پوچھ میرا حسین کیا ہے؟ جہانِ عزم کا پیکر، خِرد کا مرکز، جنوں کا محور، جمالِ زہرا، جلالِ حیدر، ضمیر انساں، نصیر داور، زمیں کا دل آسماں قا یاور، دیار صبر و رضا کا دلبر، کمال ایثار کا پیمبر، سعورِ امن و سکوں پیکر، جبین انسانیت کا جھومر، عرب کا سہرا، عجم زیور، حسین تصویر انبیاء ہے۔ نہ پوچھو میرا حسین کیا ہے ۔ضرور جانو حسین کیا ہے۔ فہیم مزاج رسالت، صاحب ضمیر نبوت، آیہ وجود مشیت، سطون عظمت، دلیل شرافت، چشمہ جن سے ہدایت، قندیل شہر نبوت، مسافر صحراۓ غربت، شان حکمت، جان دانائ اور کان شعور، جان خلیل، افتخار اسماعیل، انسانیت کی تکمیل، سرچشمۂ سلسبیل، ایثار کے ہابیل و صدر نشین، کمال بے تاویل، وجود الٰہی کی دلیل، انسانیت کی زیب و زین، فراست کی جبین، ذکاوت کی نگین، عزم متین، داراۓ دین، سونشاہ ذی چشم، شاہ امم، مالک لو و قلم، نازنین قرآن، علم و عمل کے میزان، کشتیٔ نجات، اہل کساء، محبوب مصطفٰی، دلبند مرتضٰی اور خنکی چشم الزہرا اور کیا کیا نہیں ہے ہمارا حسین۔

زندگیاں بیت گئیں اور قلم ٹوٹ گۓ

تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

حسین علیہ السلام کے لئے رسول اکرم کی حدیث 'حسین منی و انا منل ححسین' امتوں میں بہترین امت کے اس شہزادے کے لئے رسالت مآب کا دوش بہترین سواری بنے، ان۔کے لہو سے عشق غیور سرخ رُو ہے اور اس کے مضمون سے اس مصرع کی رنگینی ہے، آپ کا مقام و مرتبہ اس اُمت کے درمیان ایسا ہی ہے جیسا قرآن میں قل ھواللہ ہے۔ عشٌاق امام حسین کو زیر نظر رکھنا چاہئے کہ موسیٰ فرعون، شبٌیر یزید اور حق و باطل دو ایسی قوتیں ہیں جو ابتداء سے متواتر چلی آرہی ہیں۔ آج جو حق زندہ ہے، سردار خیرا لاممسے ٹکرایا جس سے بارانِ رحمت ہوئ۔ یوں کہا جاۓ کربلا کی زمین کو اپنے لہو سے چمن بنایا، جلا بخشی، آپ نے قطع استبداد، ظلم و ستم کی جڑیں کاٹ دیں اور آپ کی لہو کی موج نے چمن کی آبیاری کی اور حق کی بقا کی خاطر اپنا سر کٹوا دیا اور کلمہ طیبہ کی محکم بنیاد بن گیا۔

سید الشہداء کی وہ آواز 'حل من ناصر ینصرنا' ہے کوئ جو میری مدد کرے دنیا میں گونج رہی ہے۔ اس صدا کا مقصد اسلامی اقدار کو زندہ کرنا اور قائم رکھنا ہے خواہ کتنے ہی مصائب کرنے ہوںاور کتنی ہی مسکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ دنیا گواہ ہے کہ ظلم کےپہاڑ ٹوٹ گۓ لیکن اس کوہِ عزم و استقلال سے ٹکرا کر خود پلٹ گۓ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زبان پر ذیل شعر جاری رہا "اگرمیرے نانا کا دین برقرار نہیں رہ سکتا جب تک کہ میری رگِ حیات قطع نہیں ہو جاتی تو اے تلوارو! آؤ، یہ جسم حاضر ہے۔

"نوجوانِ جنت کے سردار کے عشٌاق کا مختصر تعرف کیا بلکہ اعمال، کردار سے تعریف، شناخت و پہچان ہونی چاہئے۔ امام حسین کے عاشق کی پہچان عشق مقصدِ پیغامِ کربلا، عشق آشنائ فلسفۂ شہادت کربلا، مقصد قیامِ حسین سے روشن خیالی، عشق پاک تر و بیباک تر، عشق میدانِ عمل، عشق روحِ عمل کی علامت، یقینِ محکم و پختہ عزم کا نشان، عشق آباد کرنے کی خاطر خود کو ویران کرنے کا منارہ، عشق کامیاب اور گراں بہا، عشق چون و چند سے آزاد، عشق امتحان کے لئے سدا آمدہ، کامیاب و کامران، عشق فضلِ خدا سے اپنا احتساب خود قرنے والا، عشق بندۂ الٰہی اور مظہرِ کربلا، علم و دانش، حلم و عمل، سخاوت و ذہانت، زود و تقویٰ، صبر و شکر اور اثار و قربانی میں بے مثل۔ کربلا عشق کے لئے حریت ہی آرامِ جاں اور حریت ہی سواری کی ساربان، عشق پیغام کربلا میں حالات جنگ و نبرد آزمائ کیونکہ سید الشہداء عاشقوں کا امام، وہ بتول کا جگر بند جو رسالت مآب کے باغ کا سروِ آزاد ہے، الله اللہ پرر بسم اللہ کی ب کا نقطہ ہے اور پسر خود آیۂ ذبحِ عظیم کی حقیقت و تفسیر ہے:

اللہ اللہ باۓ بسم اللہ پدر

معنیٔ ذبحِ عظیم آمد پسر

عالم انسانیت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی انگریزی کیلینڈر کے مطابق 1398 ویں اور قمری اعداد و شمار کے مطابق 1441 ویں یوم ولادت باسعادت پورے شان و شوکت اور تزک و احتشام سے منائ جارہی ہیں اور اس سلسلے سے جگہ جگہ امام بارگاہوں، گھروں اور ہالوں میں محفلوں کا اہتمام و انعقاد کۓ جا رہے ہیں۔ سبیلیں لگائ گئیں ہیں، غرباء، محتاجوں اور مسکینوں میں مٹھائیاں اور کھانے کے پیکٹ تقسیم کۓ جا رہے ہیں۔ مومنین ومومنات عین الحیات و سفینتہ النجات، امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ الفرجک الشریف کی خدمت میں تبریک و تہنیت پیش کۓ جا رہے ہیں اور عشاق امام حسین علیہ السلام شاد و شر سار دکھائی دے رہے ہیں۔ اس خوشی کے ساتھ پروردگار عالم ہم لوگوں کو امام حسین کے وعظ و نصیحت اور اقوال زریں پر عمل کرنے توفیق عطاء فرماۓ!

موت کے سیلاب میں ہر خشک و تر بہہ جاۓ گا

ہاں مگر نام حسین ابن علی رہ جاۓ گا!!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .