تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
دو نیم ہو سر اور بہ زباں فُزتُ بٍ ربیّ
یوں خالق کعبہ کی قسم کھاؤ تو جانیں
رسول خدا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا "اے علیؑ! تمھیں خدا نے وہ فضیلت دی ہے کہ اگر میں اسے بیان کرتا تو لوگ تمھاری خاک قدم بطورٍ تبرک اُُٹھا کر رکھ لیتے۔ (ینا بیع المودۃ، علامہ شیخ قندوزی) قال رسول اللہ 'خوش قسمت ہے وہ جو علیؑ کی محبت رکھتا ہے اور علیؑ کی گواہی دیتا ہے۔'
حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کا نام آپؑ کی والدہ ماجدہ، فاطمہؑ بنت اسد نے بھی رکھا تھا وہ ہے 'حیدر' اور اس نام کو امام علیؑ نے میدان جنگ میں یاد دلایا کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا۔ یہ نام سُن کے مرحب خیبر کی جنگ (انگریزی کیلنڈر کے مطابق 629 عیسوی) میں لرز اُٹھا۔ نام کی وضاحت کر دیا جائے، حیدر اس شیر کو کہتے ہیں کہ جو اپنے شکار کو پہلے جگاتا ہے، اُٹھاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ ٹکڑا، حملہ کرنے والا ہوں، کوئی تدبیر ہو تو کر لے ذرا۔ اس نام کا معنی و مطالب یہ ہے کہ موقع پورا دیتا ہے۔ بھاگنا ہے تو بھاگے ورنہ 'حیدر' کے وار سے نہیں بچ پائے گا۔ یہ کرشماتی نام کی صفت ہر میدان جنگ و میدان عمل میں نمایاں رہا۔
پوری دنیا میں، نجف اشرف سے لیکر امریکہ، یوروپ، افریقہ، بر صغیر سے لیکر شہر شہر، قصبہ قصبہ، قرعیہ قرعیہ اور تمام امام بارگاہوں اور مسجدوں میں امیرالمومنین، حضرت علیؐ ابن ابی طالبؐ کی 1405 ویں (قمری کیلنڈر کے مطابق 40 ہجری میں شہادت ہوئی) ایامٍ شہادت بڑے دکھ و درد کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ آپؐ کی ولادت خانۂ کعبہ (مکہ) میں ہوئی جہاں پوری دنیا سے مسلمان حج کے لیے جمع ہوتے ہیں اور مسجدٍ کوفہ (عراق) میں فجر کی پہلی رکعت کے پہلے سجدے میں ملعون عبدالرحمن ابن ملجم نے زہر میں ڈوبی تلوار سے ضربت لگائی۔ آپؐ دو دنوں تک بستر مرگ پر رہے اور 21 ویں ماہٍ صیام کی صبح شہادت پائی۔
سجدے میں شیرے حق کا دو پارہ ہوا جو سر
ایک بار کانپنے لگے مسجد کے بام و در
ابلا لہو کہ ہو گئی محراب خوں سے تر
ایک زلزلہ سا بس ہوا نازل زمین پر
گردوں پہ جبرئیل پکارا غضب ہوا
سجدے میں حق کے قتل امیرٍ عرب ہوا
دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے کہ جہاں کمال سیف و قلم، محراب و منمبر، فصاحت و بلاغت، عدالت و سخاوت، زہد و تقویٰ، علم و عمل، عفو و درگزر، شجاعت و صبر، حلم و حکمت، حشمت و جلالت کا کسی ایک شخص میں موجزن ہو۔ آپؐ مولود کعبہ (مکہ)، وجہ اللہ، عین اللہ، ولی اللہ، اسد اللہ، حزب اللہ، لسان اللہ، یداللہ، خلیفتہ اللہ، نفس اللہ ہیں۔
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں آپؐ سے نقل کیا ہے کہ حضرت علیؐ نے فرمایا: "اس سے کہ دنیا سے چلا جاؤں مجھ سے سوال کرو کیونکہ میرے بعد مجھ جیسا کوئی نہیں ملے گا جس سے تم سوال کر سکو گے۔" امام علی علیہ السلام کے علاوہ کون ہے جس نے "سلونی سلونی" کی تکرار کی۔ "پوچھ لو پوچھ لو مجھ سے جو پوچھنا ہے اس پہلے کہ مجھے گُم کر دو، میں زمین و آسمانوں کا علم رکھتا ہوں "میں چاہوں تو اس گرتے آبشاروں سے بجلی پیدا کر دوں، زمین سے زیادہ آسمانوں کی خبر رکھتا ہوں، انت جبرئیل، وغیرہ" آپ کے علم و کمالات کے قصیدے و دلائل ہیں۔ آپؐ عدم مساوات، نا انصافی، جہالت، غربت، غیر انسانی فطرت و ظلمت کو دور کر عدل و انصاف قائم کرنا چاہتے تھے، اور سبھی کے حقوق کو محفوظ کرنا چاہا لیکن جو حق اور حق جس کے ساتھ، اور کل غالب اور آپ سے اس قدر پہلو میں بیٹھنے والوں کو بغض ہوا کہ تاقیامت تک کے لیے ظاہر ہو گیا اور لعنتہ اللہ قرار پایا۔
مولا علیؑ نے جنگ صفین کے خطبہ میں فرمایا ہے کہ میںؑ وہ علی ہوں جس کی باتیں عقلوں کو حیران و ذہنوں کو پریشان کرتی ہیں۔ اے لوگوں میںؑ نے آج اپنی حقیقت کو تم پر آشکار نہیں کیا اگر میںؑ اپنی حقیقت اور فضیلت سے دنیا والوں کو آگاہ کردوں تو آدھی دنیا میری فضیلت کی بلندی سُن کر مر جائے اور باقی دیوانی ہو جائے۔ میںؑ اپنے صرف اتنے فضائل سے پردہ اُ ٹھاتا ہوں جن کی حقیقی مومن کا دل برداشت کر سکے۔ (خطبہ صفین، صفحہ 71)
یوں تو حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ میں بیک وقت لاتعداد خوبیاں تھیں اس کےساتھ وہ ایک عالم، فیاض، سخی، شجاع، صابر، شاکر اور عادل تھے۔ آپ جو کچھ حاصل کرتے سن کو غریبوں، مسکینوں، بیواؤں اور ضرورتمندوں کی مدد میں خرچ کر دیتے۔ خود سخت ترین اور سادہ زندگی گزارتے تھے۔ آپ دینی امور، گھریلو ذمہ داریاں، سماجی معاملات کے علاوہ کنویں کھودنے، درخت لگانے اور کھجور کے کھیتوں میں گزارتے۔ آپ نے یہ سب عرب کے غریبوں کو عطیہ میں دے دیا
تاجدار انبیاء، حضرت محمد مصطفٰیؐ کی زندگی میں علیؑ نے آپؐ کی حفاظت و نصرت میں زندگی گزاری۔ جنگ خیبر، خندق، بدر و حنین میں فتح کا پرچم سنبھالا اور اور اسلام کے پرچم فتح دلائیں۔ شہادت رسول اکرمؐ کے بعد صبر و خاموشی سے 25 سال گزاری۔ جب خلافت سنبھل نہ سکی، لڑائیاں عروج پر پہنچیں، قتل و غارت گری نقطۂ عروج پر پہنچی، اور ناانصافی کا بول بالا ہوگیا تب مجبوری میں امام علی علیہ السلام کو خلافت سپرد کی گئی۔ آپؑ حق، مساوات، عدل و انصاف قائم کیے۔ آپؑ نے امامت و خلافت کچھ اس طرح سے کی کہ آپؑ ساڑھے چار چار سالہ خلافت دنیا کے لیے بے مثل ہے۔
باب مدینتہ العلم، حضرت امام علیؑ حرف 'ب' کے نیچے کے نقطہ ہیں جس میں مکمل قرآن، عرش و فرش، کوہ اور سمندر، بہشت اور فرش کے اندرونی حصے گیا علیہ السلام، علم ظاہری و باطنی اور علم لدونی کے مالک اول ما خلق نوری ہیں۔ آپؑ کا نہج البلاغہ جو تین حصوں پر مشتمل ہے: خطوط، خطبات اور اقوال۔ اس کے ہر حرف، لفظ، جملہ، پیراگراف، عبارت اور ہر ایک تحریر مکمل حیات انسانی کے لیے زم زم ہے۔ آپ نے قلم اور تلوار کو یکساں استعمال کیا۔ اگر قلم چلانے کا وقت ہوتا تب قلم چلاتے۔ آپؑ نے علم کا مظاہرہ کیا اور جب رسول اکرمؐ نے میدان جنگ میں پرچمٍ اسلام دے کر روانہ کیا تو خیبر، خندق، بدر و حنین کے فاتح ہوئے۔ مرحب، انتر اور ابن ابدود کے سر کو تن سے قلم کیا، اسلام کو جلا بخشی۔ آپؑ فضائل و کمالات سے لوگ متاثر ہوتے رہے اور آپؑ تصنیفات تخلیق ہوتی رہیں۔ آج تمام دنیا کی لائبریری آپؑ لکھی گئی کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔ متاثر ہونے والوں میں انگریز مورخ، ایڈورڈ گبن (ہسٹری آف دی ڈیکلائین اینڈ فال آف دی رومن امپائر )، تھامس کارلائل، برطانوی مضمون نگار، مورخ اور فلسفی اور ڈی-ایف- کراکا، ہندکو ایک متنازعہ اور منفرد پارسی صحافی، ممبئی کے ہفت روزہ "کرنٹ" کا مشہور زمانہ ایڈیٹر اور سترہ کتابوں کا مصنف اور اپنی حیرت انگیز سوانح عمری "پھر حضرت علیؑ آئے" (Then Came Hazrat Ali a.s کے لیے پہچان بنانے والا پر قابل تحریر اثر ہوا ہے۔
اس کتاب کے ابتدائی حصے کراکا کی ذہنی کشمکش اور تبدیلیٔ قلب کی ترجمانی کرتا ہے جنہیں قارئین کی دلچسپی کے لیے یا کس طرح چشمہ صداقت تک پہنچنے کے لیے توگ و دو کرتے ہیں۔ قدرت ان کی کن کن حالات اور واقعات کے ساتھ امداد کرکے راہ نجات دکھاتی ہے اور وہ بالآخر اپنی سچی لگن کے ذریعے اپنا مقصد عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بقول حافظ شیرازی:
ذرہ راہ تانبود ہمت عالی حافظ
طالب چشمہ خورشید درخشاں نمود (ایک بے مقدار ذرہ ہمت عالی سے ہی چشمہ خورشید کا مطلب ہو سکتا ہے)
آج کے دور میں انسانیت سسک رہی ہے۔ انسان ظلم و جور کا شکار ہو رہا ہے۔ بربریت اور حیوانیت عام ہو رہی ہے۔ دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے۔ عصمتیں پامال و نیلام ہو رہی ہیں۔ انسان انسان کا خون بہا رہا ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی کو ترقی کا نام دیا جا رہا ہے۔ عیب کو ہُنر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ نوجوان نسلیں تیزی سے گمراہی و تاریکی کی طرف گامزن ہیں۔ قرآن حکیم کی آیات مبارکہ و شریفہ، رسول اکرم ﷺ کی احادیث پاک، ائمہ طاہرین کی فرمودات اور بزرگوں کی نصیحت ہر قدم پر ان دیکھی کی جا رہی ہے۔
ایسے پُر آشوب ماحول اور سنگین حالات میں یہ ضروری ہے کہ ایام شہادتٍ امیرالمومنین حضرت علی علیہ میں علماء کرام، ذاکرین عظام، مقررین، خطاب، شعراء کرام، مدرسین، مبلغین منبر، محراب، مجالس میں مومنین، سامعین، ناظرین، طلباء، طالبات اور بچے و بچیوں کو امام علی علیہ السلام کی وصیت کو یاد دلاتے رہیں جب آپؑ کو عبدالرحمن ابن ملجم لعنتہ اللہ ضربت لگا چکا تو آپ نے حسنینؑ، سبطینؑ و کریمیںنؑ سے فرمایا۔ " میں تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور دنیا کہ خواہشمند نہ ہونا اگر چہ یہ تمہارے پیچھے لگے اور دنیا کی کسی ایسی چیز پر نہ افسوس کرنا جو تم سے روک لی جائے۔ جو کہنا وہ حق کے لیے کہنا اور جو کرنا وہ ثواب کے لیے کرنا۔ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مدد گار بنے رہنا۔ میں تم کو اور تمام اولاد کو، اپنے کنبہ کو اور جن جن تک میرا یہ نوشتہ پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امر کو منظم رکھنا۔
مولا علیؑ کی وصیت کا لب لباب یہ ہے کہ دنیا کی خواہش نہ کرنا، حق بات کرنا، ظلم کی مخالفت کرنا، تقویٰ اور اعمال میں مراقبت رکھنا اور نظمٍ امر کو منظم رکھنا۔ لیکن آج کے دور میں لوگوں کے نظریے ہی کچھ ایسے ہو گئے کہ مندرجہ بالا وصیت کی پاسداری پر عمل درآمدی سے بچ بچا کر دنیاوی لذت لینا چاہتے ہیں۔
مولا علی علیہ السلام کی وصیت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ میرا یہ نوشتہ جن جن تک پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امر کو منظم رکھنا۔ آپؑ کی وصیت ہر مرد و زن پر فرض ہے کہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک عمل کرے!
یہ بہت اہم، قابل ذکر اور اس امر کی طرف متوجہ کرنا، کرانا اور ہونا لازمی ہے۔ ہماری زندگی میں ہمارے چہرے تین طرح کے ہو گئے ہیں۔ یعنی ایک انسان تین انسان بنکر اپنے آپ کو پیش کرنے لگا ہے۔ میں ایک وہ انسان ہوں جو اپنے سے اوپر، اپنے سے اوپر منصب والے کے سامنے کیسے پیش ہوتا ہے، آپ بہتر جانتے ہیں۔ ایک وہ انسان ہے جو اپنے عہدے، منصب اور دولت میں برابر کے لوگوں کے سامنے کسی بازار، بزم و محفل میں ملتے ہیں۔ تیسرے چہرے یا انسان جو اپنے منصب، عہدے، دولت، علم، شہرت یا اپنے آپ با وقار، با عزت سمجھتا ہے۔ اب انسان ایک وقت میں تین شخص، تین شکل اور تین خصلت والا ہو گیا۔ ایسی خصوصیات انسان کی دنیاوی ضرورت بن گیا اور اپنے آپ کو مضطرب سے با عظمت و فضیلت، جلالت و کمالات والا سمجھ بیٹھا۔
ایسی فکر وجود میں آئی کہ اگر ایک انسان بنوں گا تو دو انسان کی قربانی دینا ہوگی۔ ایک بڑا مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ میری عکس (Image) بگڑ جائے گی۔ خیال میں یہ آتا ہے کہ میں اپنے سے نیچے درجے والوں کے درمیان بُرا بن جاؤں گا یا میں اپنے برابر اور دوست کے سامنے خراب ہو جاؤں گا۔ یہ بھی انسان کی تنزلی کی کیفیت ہے کہ انسان ان تین انسان کو ایک جگہ مکس (mix) کرتا ہے تو دو انسان کے سامنے بُرا بن جانے کا ڈر ستاتا ہے۔
اب مندرجہ بالا مضر اثرات کا نتیجہ راقم الحروف مولائ لوگوں کے لئے پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ تین انسان کو دل اور دماغ ہے۔ یہ تینوں دل و دماغ والوں کو خوش کرنے کی کوشش اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان تین طرح کے دلوں اور دماغوں کے لوگوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ غور و فکر، تدبر و تفکر، فہم و ادراک پر نظر کیوں نہیں کرتے کہ ان تینوں دل و دماغ پر حکومت کس کی ہے؟ اس کو خوش کیوں نہیں کرتے جس کی حکومت ان تینوں کے دل و دماغ پر ہے۔ صرف ایک کو خوش کرنا ہوگا اور وہ پاک پروردگار، خالق کائنات، رب العزت، رب العالمین، علم و عزت عطا کرنے والا اور کن فیکن کا مالک ہے۔ صرف ایک کو خوش کرنا ہوگا۔ یہ روایت کے عین الفاظ ہیں۔ مولائ لوگوں کے لئے مولا علی علیہ السلام کا فرما تحریر کی جاتی ہے کہ اگر تم اللہ سے رشتہ ٹھیک کر لو تو اللہ پاک خود تمھارے رشتے ان تینوں سے ٹھیک رکھے گا اور آخرت بھی!
آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مولا علیؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے کاش فرماں روا ہوتا بلکہ یہ فرمایا اے کاش کوئی میرا فرمان ماننے والا ہوتا، یہ نہیں فرما رہے تھے کہ مجھے فرماں روا ماننے والے کہاں ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ میرا فرمان ماننے والے کہاں ہیں؟ کوفہ کی سپاہ مولا علیؑ کی سپاہ تھی اور کوفیوں نے مان لیا تھا کہ ہمارے فرماں روا علی علیہ السلام ہیں لیکن فرماں روا کا فرمان نہیں مانا، فرماں روا مان لینے کو سمجھ لیا کہ ہم مولائ و جنتی ہو گئے۔ گویا المختصر، حُبٍّ علی علیہ السلام آپؑ کے ماننے اور چاہنے والوں کے فکر و عمل سے جھلکتا ہے۔