جمعہ 21 مارچ 2025 - 20:10
شب قدر سال کی سب سے بابرکت اور مقدس راتوں میں سے ایک ہے: مولانا سید نقی مھدی زیدی

حوزہ/ شیعہ احادیث کی روشنی میں شب قدر ایک عظیم رات ہے جس میں تقدیریں لکھی جاتی ہیں، فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں، امام عصر (عج) کو امور دنیا سونپے جاتے ہیں، اور گناہوں کی مغفرت کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس رات میں زیادہ سے زیادہ عبادت، قرآن کی تلاوت، دعا اور استغفار کرنا مستحب ہے تاکہ رحمتِ الٰہی انسان کے شامل حال ہوسکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید نقی مھدی زیدی نے تارا گڑھ اجمیر میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقویٰ الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے روزہ کے حقوق کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ: رسول خدا (ص) نے روزہ داروں کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا: طوبى لمن ظما او جاع لله اولئك الذين يشبعون يوم القيامة "خوش نصیبی ہے ان لوگوں کی جو خدا کی خاطر بھوکے اور پیاسے ہیں یہ لوگ قیامت کے دن سیراب ہوجائیں گے"، امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: من صام لله عزوجل يوما فى شدة الحر فاصابه ظما و كل الله به الف ملك يمسحون وجهه و يبشرونه حتى اذا افطر ”جو شخص بھی گرمی کی شدت میں اللہ کیلئے ایک دن روزہ رکھے اور اسے پیاس لگے تو خدا وند عالم ہزار فرشتے اس پر موکل کرتا ہے جو افطار کرنے تک اسکے چہرے کو مس کرتے اور اسے بشارت دیتے ہیں ۔” اس کے علاوہ فرمایا روزے داروں کی دو خوشحالی ہیں : للصائم فرحتان فرحة عند افطاره و فرحة عند لقاء ربه "امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: روزہ دار کیلئے دو خوشی ہے ۔1۔افطار کے وقت 2 – خدا سے ملاقات کے وقت (مرتے وقت اور قیامت کے دن)

امام جمعہ تارا گڑھ نے کہا کہ: روایات میں اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے مطابق، شب قدر سال کی سب سے بابرکت اور مقدس راتوں میں سے ایک ہے، جس میں انسان کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور رحمتِ الٰہی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ شیعہ احادیث میں اس رات کی عظمت کو اس طریقے سے بیان کیا گیا ہے:

1۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے

قرآن مجید میں واضح طور پر ارشاد ہوتا ہے: "لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ" شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار مہینوں (83 سال اور 4 ماہ) کی عبادت سے زیادہ ہے۔

2۔ شب قدر میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: "شب قدر میں فرشتے اور روح القدس زمین پر نازل ہوتے ہیں اور ہمارے امام (عج) کی خدمت میں حاضر ہو کر سال بھر کے امور پیش کرتے ہیں۔"یہ روایت بتاتی ہے کہ اس رات میں اہل بیت علیہم السلام کو الٰہی منصوبے اور انسانوں کی تقدیر سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

3۔ شب قدر میں گناہوں کی بخشش اور رحمتِ الٰہی شامل حال ہوتی ہے

رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "جو شخص شب قدر میں عبادت کرے اور اللہ سے بخشش طلب کرے، اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں، چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔"یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ یہ رات توبہ اور مغفرت کے دروازے کھولنے کا بہترین موقع ہے۔

4۔ شب قدر اور امام زمانہ (عج)

امام باقر (ع) فرماتے ہیں: "شب قدر ہر سال ہوتی ہے، اور اس رات میں جو کچھ بھی نازل ہوتا ہے، وہ زمین پر موجود اللہ کے حجت (امام) کے پاس پہنچتا ہے۔" یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امام زمانہ (عج) ہر شب قدر میں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے امور سے باخبر ہوتے ہیں اور وہی زمین پر خدا کے احکام کے حامل ہیں۔

5۔ شب قدر میں عبادت کے مستحبات انجام دینا

امام علی (ع) فرماتے ہیں: "رسول خدا (ص) شب قدر کو بیداری میں گزارتے تھے، اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی اس رات جاگنے کی تاکید کرتے تھے۔" یہ روایت بتاتی ہے کہ اہل بیت (ع) اس رات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور دوسروں کو بھی اس رات کے اعمال بجا لانے کی تلقین کرتے تھے۔

خطیب جمعہ تارا گڑھ نے مزید کہا کہ: شیعہ احادیث کی روشنی میں شب قدر ایک عظیم رات ہے جس میں تقدیریں لکھی جاتی ہیں، فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں، امام عصر (عج) کو امور دنیا سونپے جاتے ہیں، اور گناہوں کی مغفرت کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس رات میں زیادہ سے زیادہ عبادت، قرآن کی تلاوت، دعا اور استغفار کرنا مستحب ہے تاکہ رحمتِ الٰہی انسان کے شامل حال ہوسکے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”َ قَلْبُ شَهْرِ رَمَضان لَيْلَةُ الْقَدْرِ، "امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا” ماہ رمضان کا دل شب قدر ہے۔"، فضيل بن يسار کہتا ہے: امام باقر (عليه السلام) اکسویں اور تیسویں رات دعا میں مشغول رہا کرتے تھے یہاں تک کی رات کا آخری پہر جاپہنچے پھر نماز صبح پڑھ لیا کرتے تھے۔ امام جعفر صادق (عليه السلام) سےسوال ہوا: کیسے شب قدر ہزار راتوں سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس رات ایک نیک کام کا ثواب دوسرے مہینوں جن میں شب قدر نہ ہو ، میں ہزار نیک کاموں سے بہتر ہے۔، امام صادق (عليه السلام) فرماتے ہیں: سال کا آغاز لیلۃ القدر ہے جس میں اگلے سال تک ہونے والی تمام چیزیں لکھ دیتے ہیں۔ امام صادق (عليه السلام) ہی نے فرمایا ہے کہ: اعمال کی تقدیر انسویں رات کو ہوتی ہے اور اکسویں رات ان کی تصویب ہوتی ہے اور تیسویں رات ان پر دستخط(نفاذ) ہوتی ہے۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: ایام ایام شہادت مولی الموحدین امیر المؤمنین حضرت علی کی شہادت کے ایام تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئیے ہم آپ کو حکومت علوی کی کچھ خصوصیات اور جھلکیاں دکھاتے، امام علی علیہ السلام کی خلافت محض ایک سیاسی حکومت نہیں تھی، بلکہ عدل و انصاف، تقویٰ، مساوات اور انسانی حقوق کی عملی تصویر تھی۔ آپؑ کی حکومت وہ آئیڈیل اسلامی نظام تھا جس میں حکمران کو عوام کا خادم اور عدل و مساوات کو سب سے بڑی ذمہ داری سمجھا جاتا تھا۔

1۔عدل و انصاف کی بنیاد پر حکومت کیا

امام علیؑ کی حکومت عدلِ مطلق پر قائم تھی، اور کسی کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کی جاتی تھی۔ آپؑ نے فرمایا: "اللّهَ اللّهَ فِي الْعَدْلِ، فَإِنَّهُ أَحْسَنُ السِّيَاسَةِ"

"اللہ سے ڈرو انصاف کے بارے میں، کیونکہ یہی بہترین سیاست ہے!"، آپؑ نے اقربا پروری اور رشوت کو جڑ سے ختم کیا اور ہمیشہ حق دار کو اس کا حق دلایا، چاہے وہ کوئی بھی ہو،چنانچہ مشہور عیسائی مصنف خلیل جبران لکھتا ہے "قُتِل عليٌ في محراب عبادته لشدة عدله !"

2۔مساوات اور برابری

امام علیؑ کے نزدیک تمام انسان برابر تھے، اور آپؑ نے حکمران اور رعایا میں کسی قسم کا فرق روا نہیں رکھا، ایک مرتبہ امام علیؑ بازار میں جا رہے تھے کہ ایک شخص نے آپؑ کو پہچان لیا اور ادب سے آپؑ کے ساتھ چلنے لگا۔ امامؑ نے فرمایا: "حکمران کو یہ زیب نہیں دیتا کہ رعایا اس کے آگے پیچھے چلے!" آپؑ عام لباس پہنتے، خود اپنے ہاتھ سے کام کرتے اور عوام کے ساتھ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتے تھے۔

3۔عوام کی خبر گیری اور فلاح و بہبود

امام علیؑ راتوں کو تنہا کوفہ کی گلیوں میں نکلتے تاکہ دیکھیں کہ کوئی بھوکا یا ضرورت مند تو نہیں۔ آپؑ فرماتے تھے، ایک دفعہ رات کے وقت امام علیؑ ایک بیوہ کے گھر پہنچے، خود آٹا گوندھا، روٹیاں پکائیں اور بچوں کو کھلایا۔ جب ان کے ساتھ کھیلنے لگے تو کسی نے پوچھا امیرالمؤمنین! آپؑ یتیموں کے ساتھ کھیل رہے ہیں؟" آپؑ نے فرمایا

"یہ بچے یتیم ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے دل خوش ہوں اور انہیں باپ کی کمی محسوس نہ ہو!"

4۔بیت المال کی مکمل دیانتداری

امام علیؑ بیت المال کو عوام کی امانت سمجھتے تھے اور اس میں ذرہ برابر خیانت کو برداشت نہیں کرتے تھے۔

5۔حکمران کی ذمہ داری اور تقویٰ

امام علیؑ فرماتے تھے:

"حکمران کو سب سے پہلے خود پر حکومت کرنی چاہیے، تبھی وہ دوسروں پر حکمرانی کا حق رکھتا ہے!" آپؑ کی سادگی اور زہد کی انتہا یہ تھی کہ خود موٹا لباس پہنتے، معمولی کھانا کھاتے اور فرماتے: "میں چاہتا ہوں کہ میرا حال سب سے غریب انسان کے جیسا ہو، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں نے ان کے حق میں کوتاہی کی!"

6۔آزادی اور اظہارِ رائے کا حق

امام علیؑ نے اپنی حکومت میں سب کو آزادی دی کہ وہ حکمران سے سوال کریں، اس پر تنقید کریں اور اپنی رائے کا اظہار کریں، ایک دن ایک شخص نے آپؑ سے سوال کیا:

"کیا یہ انصاف ہے کہ ہمیں بیت المال سے اتنا ہی دیا جائے جتنا دوسرے کو دیا جاتا ہے؟" امام علیؑ نے فرمایا:

"کیا تم انصاف کے علاؤہ کسی اور چیز کو قبول کرو گے؟"

7۔دشمنوں کے ساتھ بھی رحم اور انصاف

امام علیؑ کا عدل صرف اپنے ماننے والوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ آپؑ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرتے تھے، جب جنگ جمل میں آپؑ کی فوج نے حضرت عائشہؓ کے خیمے پر قبضہ کیا تو کسی نے کہا: "یہ خیمہ مالِ غنیمت ہے!" امام علیؑ نے فوراً فرمایا "اگر یہ مالِ غنیمت ہے تو پھر تم سب کی مائیں قیدی ہیں؟ خدا کی قسم، اگر کوئی علیؑ کا حکم نہ مانے تو میں اس کے خلاف سخت کاروائی کروں گا!"

انہوں نے کہا کہ: امام علی علیہ السلام کی حکومت تاریخ میں ایک ایسی بے نظیر مثال ہے جس میں حکمران خود کو عوام کا خادم سمجھتا ہے، انصاف اور مساوات کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے، کمزوروں کا سہارا بنتا ہے اور اپنے کردار سے ثابت کرتا ہے کہ حقیقی اسلامی حکومت کیسی ہونی چاہیے، آپؑ کی حکومت صرف چار سال نو ماہ رہی، لیکن وہ قیامت تک عدل و انصاف کی سب سے بڑی مثال بن گئی۔ آج بھی اگر دنیا میں کوئی حکمران حقیقی اسلامی طرزِ حکومت دیکھنا چاہے، تو اسے حکومتِ علیؑ سے سیکھنا ہوگا۔

مولانا نے مزید کہا کہ: ایسے حاکم اور آقا کا قاتل ابن ملجم ایک تاریخی عبرت ہے، ابن ملجم کی زندگی ہمیں کئی تاریخی اور نظریاتی سبق دیتی ہے:

1۔ ظاہری دینداری مگر باطنی گمراہی

ابن ملجم بظاہر قرآن کا عالم تھا، لیکن اس کا دین شدت پسندی اور ظاہری عبادات تک محدود تھا، جس کی وجہ سے وہ قاتل بن گیا۔

رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا:"خوارج قرآن کی تلاوت کریں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔"

2۔انتہا پسندی کا انجام

ابن ملجم جیسے افراد دین کو اپنی مرضی کے مطابق تشریح کر کے قتل و غارتگری کو جائز سمجھتے ہیں، جو دہشت گردی کی جڑ ہے۔ امام علی (ع) نے خود فرمایا تھا: "خوارج حق کی بات کرتے ہیں مگر باطل کا ارادہ رکھتے ہیں۔"

3۔ عدل کے دشمن ہمیشہ ناکام رہتے ہیں

ابن ملجم نے یہ سوچا تھا کہ وہ علی (ع) کو قتل کر کے اسلام کی خدمت کر رہا ہے، لیکن حقیقت میں اس نے عدل، حکمت اور اسلامی قیادت پر حملہ کیا۔

تاریخ میں ابن ملجم کو ہمیشہ قاتل، خارجی اور ظالم کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے، جب کہ امام علی (ع) عدل اور شجاعت کی علامت بنے رہیں گے۔

مولانا نقی مھدی مھدی زیدی نے کہا کہ: ابن ملجم کی تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دین کو سمجھ بوجھ، بصیرت اور اعتدال پسندی کے ساتھ اپنانا ضروری ہے۔ انتہا پسندی، چاہے وہ کتنی ہی ظاہری عبادت سے چھپی ہو، ہمیشہ فساد، خونریزی اور تباہی کا باعث بنتی ہے۔ابن ملجم فنا ہو گیا، مگر علی ابن ابی طالب (ع) کا ذکر ہمیشہ عدل، حکمت اور ولایت کی روشنی کے طور پر باقی رہے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha