تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | پوری دنیا میں، نجف اشرف سے لیکر امریکہ، یوروپ، افریقہ، بر صغیر سے لیکر شہر شہر، قصبہ قصبہ، قرعیہ قرعیہ اور تمام امام بارگاہوں اور مسجدوں میں امیرالمومنین، حضرت علیؐ ابن ابی طالبؐ کی 1404 ویں ایامٍ شہادت بڑے دکھ و درد کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ آپؐ کی ولادت خانۂ کعبہ (مکہ) میں ہوئی جہاں پوری دنیا سے مسلمان حج کے لیے جمع ہوتے ہیں اور مسجدٍ کوفہ (عراق) میں فجر کی پہلی رکعت کے پہلے سجدے میں ملعون عبدالرحمن ابن ملجم نے زہر میں ڈوبی تلوار سے ضربت لگائی۔ آپؐ دو دنوں تک بستر مرگ پر رہے اور 21 ویں ماہٍ صیام کی صبح شہادت پائی۔
دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے کہ جہاں کمال سیف و قلم، محراب و منمبر، فصاحت و بلاغت، عدالت و سخاوت، زہد و تقویٰ، علم و عمل، عفو و درگزر، شجاعت و صبر، حلم و حکمت، حشمت و جلالت کا کسی ایک شخص میں موجزن ہو۔ آپؐ مولود کعبہ (مکہ)، وجہ اللہ، عین اللہ، ولی اللہ، اسد اللہ، حزب اللہ، لسان اللہ، یداللہ، خلیفتہ اللہ، نفس اللہ ہیں۔
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں آپؐ سے نقل کیا ہے کہ حضرت علیؐ نے فرمایا: "اس سے کہ دنیا سے چلا جاؤں مجھ سے سوال کرو کیونکہ میرے بعد مجھ جیسا کوئی نہیں ملے گا جس سے تم سوال کر سکو گے۔" امام علی علیہ السلام کے علاوہ کون ہے جس نے "سلونی سلونی" کی تکرار کی۔ "پوچھ لو پوچھ لو مجھ سے جو پوچھنا ہے اس پہلے کہ مجھے گُم کر دو، میں زمین و آسمانوں کا علم رکھتا ہوں "میں چاہوں تو اس گرتے آبشاروں سے بجلی پیدا کر دوں، زمین سے زیادہ آسمانوں کی خبر خبر رکھتا ہوں، انت جبرئیل، وغیرہ" آپ کے علم و کمالات کے قصیدے و دلائل ہیں۔ آپؐ عدم مساوات، نا انصافی، جہالت، غربت، غیر انسانی فطرت و ظلمت کو دور کر عدل و انصاف قائم کرنا چاہتے تھے، اور سبھی کے حقوق کو محفوظ کرنا چاہا لیکن جو حق اور حق جس کے ساتھ، اور کل غالب اور آپ سے اس قدر پہلو میں بیٹھنے والوں کو بغض ہوا کہ تاقیامت تک کے لیے ظاہر ہو گیا اور لعنتہ اللہ قرار پایا۔
رسول اکرمؐ کی ایک مشہور و معروف حدیث ہے: "علیؑ مجھ سے ہی اور میں علیؑ سے ہوں۔" ایک اور حدیث قدسی ہے کہ "اے رسول! اگر تمھیں پیدا نہ کرتا تو کائنات کو پیدا نہ کرتا اور اگر علی کو نہ بناتا تو تمھیں نہ بناتا۔"
یوں تو حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ میں بیک وقت لاتعداد خوبیاں تھیں اس کےساتھ وہ ایک عالم، فیاض، سخی، شجاع، صابر، شاکر اور عادل تھے۔ آپ جو کچھ حاصل کرتے سن کو غریبوں، مسکینوں، بیواؤں اور ضرورتمندوں کی مدد میں خرچ کر دیتے۔ خود سخت ترین اور سادہ زندگی گزارتے تھے۔ آپ دینی امور، گھریلو ذمہ داریاں، سماجی معاملات کے علاوہ کنویں کھودنے، درخت لگانے اور کھجور کے کھیتوں میں گزارتے۔ آپ نے یہ سب عرب کے غریبوں کو عطیہ میں دے دیا
تاجدار انبیاء، حضرت محمد مصطفٰیؐ کی زندگی میں علیؑ نے آپؐ کی حفاظت و نصرت میں زندگی گزاری۔ جنگ خیبر، خند، بدر و حنین میں فتح کا پرچم سنبھالا اور اور اسلام کے پرچم فتح دلائیں۔ شہادت رسول اکرمؐ کے بعد صبر و خاموشی سے 25 سال گزاری۔ جب خلافت سنبھل نہ سکی، لڑائیاں عروج پر پہنچیں، قتل و غارت گری نقطۂ عروج پر پہنچی، اور ناانصافی کا بول بالا ہوگیا تب مجبوری میں امام علی علیہ السلام کو خلافت سپرد کی گئی۔ آپؑ حق، مساوات، عدل و انصاف قائم کیے۔ آپؑ نے امامت و خلافت کچھ اس طرح سے کی کہ آپؑ ساڑھے چار چار سالہ خلافت دنیا کے لیے بے مثل ہے۔
باب مدینتہ العلم، حضرت امام علیؑ حرف 'ب' کے نیچے کے نقطہ ہیں جس میں مکمل قرآن، عرش و فرش، کوہ اور سمندر، بہشت اور فرش کے اندرونی حصے گیا علیہ السلام، علم ظاہری و باطنی اور علم لدونی کے مالک اول ما خلق نوری ہیں۔ آپؑ کا نہج البلاغہ جو تین حصوں پر مشتمل ہے: خطوط، خطبات اور اقوال۔ اس کے ہر حرف، لفظ، جملہ، پیراگراف، عبارت اور ہر ایک تحریر مکمل حیات انسانی کے لیے زم زم ہے۔ آپ نے قلم اور تلوار کو یکساں استعمال کیا۔ اگر قلم چلانے کا وقت ہوتا تب قلم چلاتے۔ آپؑ نے علم کا مظاہرہ کیا اور جب رسول اکرمؐ نے میدان جنگ میں پرچمٍ اسلام دے کر روانہ کیا تو خیبر، خندق، بدر و حنین کے فاتح ہوئے۔ مرحب، انتر اور ابن ابدود کے سر کو تن سے قلم کیا، اسلام کو جلا بخشی۔ آپؑ فضائل و کمالات سے لوگ متاثر ہوتے رہے اور آپؑ تصنیفات تخلیق ہوتی رہیں۔ آج تمام دنیا کی لائبریری آپؑ لکھی گئی کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔ متاثر ہونے والوں میں انگریز مورخ، ایڈورڈ گبن (ہسٹری آف دی ڈیکلائین اینڈ فال آف دی رومن امپائر )، تھامس کارلائل، برطانوی مضمون نگار، مورخ اور فلسفی اور ڈی-ایف- کراکا، ہندکو ایک متنازعہ اور منفرد پارسی صحافی، ممبئی کے ہفت روزہ "کرنٹ" کا مشہور زمانہ ایڈیٹر اور سترہ کتابوں کا مصنف اور اپنی حیرت انگیز سوانح عمری "پھر حضرت علیؑ آئے" (Then Came Hazrat Ali a.s کے لیے پہچان بنانے والا پر قابل تحریر اثر ہوا ہے۔
اس کتاب کے ابتدائی حصے کراکا کی ذہنی کشمکش اور تبدیلیٔ قلب کی ترجمانی کرتا ہے جنہیں قارئین کی دلچسپی کے لیے یا کس طرح چشمہ صداقت تک پہنچنے کے لیے توگ و دو کرتے ہیں۔ قدرت ان کی کن کن حالات اور واقعات کے ساتھ امداد کرکے راہ نجات دکھاتی ہے اور وہ بالآخر اپنی سچی لگن کے ذریعے اپنا مقصد عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بقول حافظ شیرازی:
ذرہ راہ تانبود ہمت عالی حافظ
طالب چشمہ خورشید درخشاں نمود
(ایک بے مقدار ذرہ ہمت عالی سے ہی چشمہ خورشید کا مطلب ہو سکتا ہے)
سقراط نے علم حاصل کرنے اور لیاقت میں اضافے کے لیے صلاح دی ہے: "اپنا وقت دوسروں کی تحریروں کے مطالعے سے اپنی قابلیت بڑھانے میں صَرف کرو۔ اس طرح تم سن چیزوں کو نہایت آسانی سے حاصل کر سکوگے، جن کو حاصل کرنے میں دوسروں کو محنت شاقہ برداشت کرنا پڑی۔"
مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی آدم کی معرفت، نوح کی ہمدردی، ابراہیم کی عقیدت، موسیٰ کی ہیبت اور عیسیٰ کی خدمت اور پرہیز گاری دیکھنا چاہتا ہے تو وہ حضرت علیہ السلام کے روشن چہرے کو دیکھے۔