۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شخصیت اور کردار ہر طبقے کی عورتوں کے لئے مشعل راہ  اور وسیلۂ ہدایت ہے۔ آپؑ سے الفت و محبت، تعلق وعقیدت ایمان کی نشانی ہے اور آپؑ سے بغض و عداوت ، شر و فساد اور طاغوتیت کی نشانیاں ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے معروف مبلغ و اسکالر اور اہل بیت ؑ فاؤنڈیشن کے نائب صدر مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شخصیت اور کردار ہر طبقے کی عورتوں کے لئے مشعل راہ اور وسیلۂ ہدایت ہے۔ آپؑ سے الفت و محبت، تعلق وعقیدت ایمان کی نشانی ہے اور آپؑ سے بغض و عداوت ، شر و فساد اور طاغوتیت کی نشانیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شیعہ اور سنی دونوں فریق کے علما اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت زہراؑ کے ساتھ دوستی اور محبت کو خدا نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ مزید کہا کہ علما آیۂ مودت کے نام سے مشہور سورہ شوری کی آیت نمبر 23 سے استناد کرتے ہوئے حضرت فاطمہؑ کی دوستی اور محبت کو فرض اور ضروری سمجھتے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ آیۂ مودت میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت اور نبوت کے اجرت کو آپ کی اہل‌ بیتؑ سے مودت اور محبت کرنے کو قرار دیا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس آیہ میں اہل‌ بیتؑ سے مراد فاطمہؑ، علیؑ اور حسنینؑ شریفین ہیں۔ آیۂ مودت کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ سے کئی احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق خداوند عالم فاطمہؐ کی ناراضگی سے ناراض اور آپ کی خشنودی سے خشنود ہوتا ہے۔

مولانا تقی عباس رضوی نے کہا کہ شہزادی کونئین حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام تمام مکارم اخلاق اور فضائل و اوصاف حمیدہ سے متصف تھیں۔ آپؑ متین الطبع، سنجیدہ، باوقار، بہت زیادہ عبادت میں مشغول رہنے اور سخت مجاہدات کی عادی تھیں۔ تقوی و پرہیز گاری میں یکتا، توکل و صبر و قناعت میں بے مثال،سخاوت و مہربانی، جود و عطا، لطف و کرم میں بے نظیر، وسیع القلب، کشادہ دست،غریبوں، محتاجوں ، یتیموں، بیوائوں،مسکینوں، فقیروں، محتاجوں اور ناداروں کی امداد فرمایا کرتیں، یتامیٰ و بیوگان کی سرپرست، شکرگزار، اطاعت الٰہی میں منہمک اور اپنے والد بزرگوار سرکار دو عالمؐ کا بے حد ادب و احترام اور تعظیم و توقیر معمول تھا۔ ذات اطہرؐ پر جان نچھاور کیا کرتیں۔جس کے سبب سر کار دو عالمؐ آپ ؑ کو ام ابیہا کہا کرتے تھے ۔

ہندستان کے برجستہ مبلغ نے کہا کہ خدا کی رحلت کے بعد آپؑ کو کسی نے ہنستا ہوا نہیں دیکھا۔ آپ پر بدست اصحاب کبار طرح طرح کے ظلم ڈھائےجانے لگے ۔ علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئ ۔ پھر آپؑ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا نہیں بلکہ جبر و تشدّد سے کام لیا جانے لگا۔ انتہا یہ کہ سیّدہ عالم کے گھر پر لکڑیاں جمع کر دیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی۔ اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپؑ کی وفات کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ : صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا ۔ یعنی "مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات میں تبدیل ہو جاتے!۔ سیدہ دوعالم حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے ۳ مہینے بعد تیسری جمادی الثانی سن ۱۱ ہجری قمری میں شہادت پائیں . آپؑ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا، صرف بنی ہاشم اور سلیمان فارسیؓ، مقدادؓ و عمارؓ جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا، آپؑ کے دفن کی اطلاع بھی عام طور پر سب لوگوں کو نہیں ہوئی، جس کی بنا پر یہ اختلاف رہ گیا کہ آپؑ جنت البقیع میں دفن ہیں یا اپنے ہی مکان میں جو بعد میں مسجد رسول (ص) کا جزو بن گیا۔

انہوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنت البقیع میں جو آپؑ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8 شوال سن ۱۳۴۴ہجری قمری میں آل سعود کے نمک خوار وہابی قاضی القضات عبداللہ بن سلیمان بن بلیہد کے فتوے کے بعد اہل بیت علیہ السّلام سے منسوب عبارتوں، گنبدوں، مقبروں اور مزاروں کے ساتھ اسے بھی منہدم کرا دیا گیا۔

حضرت ختمی مرتبت (ص) نے اپنی رحلت سے پہلے ہی اپنی امت اور اپنے اصحاب کی جانب سے اپنی لخت جگر پر ہونے والے مظالم کی روداد ان الفاظ میں بیان فرما چکے تھےکہ: ...میری بیٹی فاطمہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملے گی، اور وہ اس حالت میں میرے پاس آئے گی کہ وہ بہت غمگین، دکھی اور مظلومانہ طور پر شہید کی گئی ہو گی۔

بی بی فاطمہ زہرا علیہا السلام کے گھر کو نذرِ آتش کرنا اسلام کی سب سے پہلی وہ دہشت گردی ہے جس کی امت مسلمہ جتنی مذمت کرے کم ہے بنت مصطفی (ص) بی بی دوعالم ؑ اور جنت البقیع کا انہادم در حقیقت امت مسلمہ کی پیشانی پر اک بدنما داغ ہے !!

حضرت فاطمہؑ کی عبادی، سیاسی اور اجتماعی زندگی اور دیگر امور میں آپؑ کی فرمائشات ایک گراں بہا معنوی میراث کی طرح تمام شیعہ مسلمان ہی نہیں بلکہ وقت کا امام ،حضرت امام مھدی آخر الزماں ؑ بھی اپنی روز مرہ زندگی میں انہیں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ مصحف فاطمہ، خطبہ فدکیہ، تسبیحات اور نماز حضرت زہراؑ اسی معنوی میراث میں سے ہیں۔

مذکورہ تمام باتوں کے بعد سب سے اہم باتیں جو ہمارے لئے قابل بیان اور قابل غور ہیں وہ یہ کہ : ’’ الفضل ما شھدت بہ الأعداء ‘‘ فضیلت تو وہ ہے، جس کی دشمن بھی گواہی دیں، چنانچہ خاتون جنت ،سیدہ دوعالم کی تمام خوبیوں کی گواہی وہ دے رہی جن کے بارے میں تاریخ تذبذب کا شکار ہے!

جن کی تمام عمر ملکیۃ العرب حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا سے نفرت و عداوت اور سیدہ دوعالم حضرت زہرا علیہا السلام کے بغض و حسد کی ہولناکیوں میں گزری جیسا کہ ابن ابی الحدید معتزلی نے نہج البلاغہ کی شرح میں اپبنے استاد سے یہ نقل کرتے ہیں کہ میرے استاد یہ کہتے تھے کہ حضرت عائشہ مدینہ کی عورتوں سے بنت مصطفی (ص) کی آئے دن شکایتیں کرتی تھیں اور کوئی لمحہ شہزادی کونین کو اذیت دینے سے باز نہیں رہتی تھیں ۔۔۔ نیز بخاری نے صحیح میں روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ کہتی تھیں؛"مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی سے اتنا حسد نہیں تھا جتنا کہ خدیجہ سے حسد تھا۔" حضرت عائشہ خدیجہ ٔ کبری سلام اللہ علیہا سے نفرت کرتی تھیں اور کئی بار جناب خدیجہ ؑسے اپنے غصے اور بیزاری کا اظہار کرتی تھیں۔

صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا کہ ایک دن حضرت عائشہ ، صدیقہ طاہرہ ٔحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس آئیں اور انہیں جھڑک کر کہا: اے خدیجہ کی بیٹی! آپ کو اپنے آپ پر اتنا فخر کیوں ہے؟تمہاری ماں کی ہم پر کیا فضیلت ہے؟تم کیا سمجھتی ہو کہ وہ ہم سے افضل و برتر ہیں ؟ ہرگز نہیں ! وہ ہماری ہی طرح کی ایک عورت ہی ہیں !سیدہ دوعالم حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جناب عائشہ کی اس اندازِ حقارت ، لحن ِ گفتگو اور ان کے زخم ِ زبان کو دیکھا تو رو پڑیں اور اپنے والد گرامی رسول خدا اللہ (ص) کے پاس گئیں۔اس وقت آپ (ص) نے اپنی بیٹی کے رونے کی وجہ دریافت کی۔فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے عرض کیا:بابا جان! عائشہ نے میری والدہ کے متعلق ناروا سلوک کا اظہار کیا ہے جس پرمیں غمزدہ اور رو رہی تھی۔اللہ کے نبی (ص) نے یہ سنا تو غصے میں آ گئے اور جناب عائشہ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے حُمیرہ! پرسکون اور خاموش ہوجاؤ۔

بہر حال ! حقیقت چُھپ نہیں سکتی بناؤٹ کے اصولوں سے مندرجہ ذیل روایا ت جو حضرت عایشہ سے منقول ہے جس میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت طیبہ، آپؑ کی صفات مبارکہ اور آپؑ کی صداقت و حقانیت اورآپ کی خوبیاں ان میں نمایاں ہوتی ہیں کہ کس طرح آپ کی خوبیوں کا دشمن نے بھی اقرار کیا ہے۔

جگر گوشۂ رسول:
بے شک فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا اور میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔ نیز آپ (ص) نے فرمایا: فاطمہ زہرا میرا ٹکڑا ہے جو اس کو اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی ہے جو اس کو ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔

نبی اکرم ؐ کی سب سے چہیتی شخصیت:
آپ فرماتی ہیں کہ رسول خدا ؐ کو سب سے عزیزترین اگر کوئی شخصیت تھی تو وہ آپ (ص) کی لخت جگر حضرت فاطمہ ؑہی تھیں ۔ روایت کے مطابق آپ (ص) حضرت فاطمہ الزہراسلام اللہ علیہا کی خوشبو سونگھ کر فرماتے کہ ان میں سے مجھے بہشت کی خوشبوآتی ہے کیونکہ یہ اس میوہ ٔجنت سے پیداہوئی ہیں جو شب معراج جبرائیل نے مجھے کھلایا تھا۔
نبی اکرم (ص) کے مشابہ: ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ انھوں نے نشست و برخاست، عادات و خصائل، طرز گفتگو اور لب و لہجہ میں رسول اللہؐ کے مشابہ (حضرت سیدہ) فاطمہؑ سے بڑ ھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جس وقت چلتیں تو آپ کی چال ڈھال رسول اﷲ ؐ کے بالکل مشابہ ہوتی تھی (صحیح مسلم) اسی طرح حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عادات و اطوار میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو رسولؐ مشابہ نہیں دیکھا۔ نیز فرماتی ہیں کہ میں نے اندازِ گفتگو میں حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے بڑھ کر کسی اور کو حضور نبی اکرم ؐ سے اس قدر مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔

کائنات میں سب سے زیادہ با فضیلت اور سچا
حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’میں نے کسی کو فاطمہؑ سے زیادہ سچا نہیں پایا مگر اُن کے بچوں کو۔ میں نے سوائے پیغمبرِ خدا (ص) کے، فاطمہؑ سے زیادہ کسی کو بافضیلت تر نہیں دیکھا۔‘‘ ایک دفعہ ام المؤمنین اور حضرت صدیقہ طاہرہ کے درمیان کچھ ایسی باتیں پیش آ گئیں کہ رسول خدا کے خشم و غضب کا سبب واقع ہوا تو ام المؤمنین کو صدیقہ طاہرہ کا حوالہ دینا پڑا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ اپنی لخت جگر سے معلوم کریں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتیں۔ میں نے سیدہ دو عالم جیسا سچا کسی کو نہیں پایا مگر رسول خدا کو ۔

فاطمہ زہرا کی تعظیم اور استقبال
’’ام المؤمنین بیان کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور نبی اکرم ؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم ؐ سیدہ سلام اﷲ علیہا کو خوش آمدید کہتے، کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے۔ ’’ام المؤمنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور نبی اکرم ؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم ؐ فاطمہؑ کو خوش آمدید کہتے، کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے۔

عورتوں کی سردار
’’اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم ؐنے سیدہ فاطمہ زہرا علیہا السلام سے فرمایا : اے فاطمہ! کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تم مسلمان عورتوں کی سردار ہو یا میری اِس اُمت کی سب عورتوں کی سردار ہو! خدا کی ناراضگی اور خوشحالی پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: اے فاطمہ ! خداوند تیری ناراضگی سے ناراض ہو جاتا ہے اور تیری خوشحالی سے خوش ہو جاتا ہے۔

اہل محشر اپنی نظریں جھکالو
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ؐ نے فرمایا: روزِ قیامت ایک ندا دینے والا آواز دے گا : اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ بنت محمدِ مصطفیٰ ؐ گزر جائیں۔‘‘ پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: میری بیٹی فاطمہ اور ان کے فرزندان اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے جنت میں داخل ہونگے کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا کہ روز قیامت کے ہولناک عذاب اور سختی سے وہ لوگ غمگین نہ ہوں گے اور وہ لوگ جو جنت کے مشتاق ہیں وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے ان سے خدا کی قسم فاطمہ اور ان کے فرزند ان اور ان کے پیروکار منظور ہیں۔ لیکن افسوس! ان کی تجاہل عارفانہ اوران کی دورخی پالیسی پر کے تمام فضائل و کمالات،مقام ومرتبہ اور شان و منزلت کو بیان کرنے کے بعدسنی عالم دین ابن ابی الحدید معتزلی کے بقول کہ بنت ِرسول (ص) کی شہادت کے بعدحضرت عائشہ کی شخصیت وہ ہے جس نے خوشی کا اظہار کیا ہے! تمام ازواجِ رسول (ص) نے "فاطمہ زہراؑ"کی وفات کے بعد بنی ہاشم میں جا کر تعزیت کی، لیکن جناب عائشہ نے ایسا نہ کیا اور بیمار پڑ گئیں۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .